Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asad Ur Rehman
  4. Qissa Aik Geedar Sifat Badshah Ka

Qissa Aik Geedar Sifat Badshah Ka

قصہ ایک گیدڑ صفت بادشاہ کا‎

جس ٹیم کی گزشتہ 5 سالوں سے تیاری "قدرت کے نظام" اور "یقین کے اوپر معجزوں" پر مشتمل ہو۔ اس ٹیم کے کپتان سے کھیل کی بنیادی تکنیک اور فیصلہ سازی کے موقع پر کمزوری دکھانا بالیقین امر ہے۔ اس ٹیم کا عالمی کپ مقابلے میں سفر تقریباً ختم ہو چکا ہے، ابھی تک 4 میچ کھیلے گئے جس میں دو ہار پر اور دو جیت پر ختم ہوئے۔ ہارنے والے میچوں میں تو غلطیوں کا انبار سب کو نظر آیا ہے۔ مگر جیتنے والے میچوں میں بھی جیت کا کریڈٹ دوسری ٹیموں کو دیا جائے انصاف کا یہی تقاضا ہے۔

کپتانی میں بزدلی، ناصرف ٹاس کے فیصلے پر اثر انداز ہوتی ہے بلکہ یہ سلسلہ پورے میچ کی دونوں اننگز میں نظر آیا۔ بلے بازوں کی دفاعی انداز سے آغاز کا اندازہ لگانے کے لیے یہی کافی ہے یہ دنیا کی واحد ٹیم ہے جس نے پورے سال میں اب تک پہلے 10 اوورز میں صرف دو چھکے لگانے کی زحمت کی۔ یہ دو چھکے بھی گزشتہ رات افغانستان کے خلاف میچ میں لگائے گئے۔ جدید تیز کرکٹ کی داغ بیل ڈالنے والی ٹیم سری لنکا کے کھلاڑی کوشال مینڈس کے کل چھکے ہماری پوری ٹیم سے زائد ہیں۔

پوری دنیا عالمی کپ مقابلہ کی تیاری 4 سال سے شروع کر دیتی ہے۔ 2023 کا عالمی کپ چونکہ ہندوستانی سرزمین پر ہونا تھا، جس سرزمین کی روز اول تاریخ یہ ہے کہ وہاں سپن وکٹوں کی تیاری ہوتی ہے اور سپنرز کا راج رہتا ہے۔ مگر ہمسایہ ملک سے کم و بیش 15 سال سے معطل دوطرفہ سیریز کے باعث شاید قومی ٹیم کے کرتا دھرتا کو ناز تھا کہ ان کا نمبر ون پیس اٹیک ان پچوں پر مخالفین کی دھجیاں بکھیر رکھ دے گا۔ اسی تناظر میں ہم 4 سال سے ایک بھی ایسا سپنر نہیں تیار کر سکے جو مخالفین کو تنگ کرنا تو دور، مخالفین کی جانب سے دی جانے والی تنگی کا ازالہ کرنے سے قاصر تھا۔

سپن وکٹوں پر نمبر ون پیس اٹیک کی دھلائی عام فہم تھی، لیکن اننگ کے دوسرے حصے میں جب ریورس سوئنگ ملنا شروع ہوئی تب انہوں کے کچھ کھاتہ کھولا۔ گزشتہ میچ میں یہی موقع ہاتھ لگا تو، بزدل کپتان نے اپنے روایتی دفاعی خوف سے نہ نکل پایا اور کھلائے جانے والے سپنرز کے اوور ختم کرنے کے چکر میں میچ کو ہاتھ سے گنوا بیٹھا۔ جس کا خمیازہ شکست کی صورت میں بھگتنا پڑا۔

گزشتہ رات ہمسایہ ملک افغانستان نے بلاشبہ شاندار کھیل پیش کیا۔ ہم سے زیادہ جذباتی اور مختصر کھیل پر عبور رکھنے والی ٹیم کے بلے بازوں کمال تحمل اور بہتر کھیل کا مظاہرہ کیا۔ دنیا کے خود ساختہ نمبر ون پیس اٹیک کا دلیری سے سامنا کیا۔ کھیل کے آخری حصے میں اعصاب قائم رکھے اور مستقل مزاجی کو اپنائے رکھا۔ جدید کرکٹ جہاں 400 رن جیسے اہداف ملتے ہوں وہاں 300 سے کم رنز کا ہدف جس مستقل مزاجی کا مطالبہ کرتا تھا افغانستان نے اسکا مظاہرہ کیا اور جیت کا سہرا اپنے سر باندھا۔

جب ٹیم کے انتخاب میں کھلاڑیوں کی کارکردگی کی بجائے دوستی اور رشتے داری جیسے معیارات قائم کر دیے جائیں گے تو عالمی مقابلوں میں انفرادی کارکردگی سے عالمی درجہ بندیوں کا پول آسانی سے کھل جائے گا۔ ٹیم کے قائد کی ترجیحات "شاہ سے زیادہ شاہ کے دفادار" جیسے لوگوں پر موقوف ہو تو اس ٹیم کے نتائج یہی نکلا کرتے ہیں۔ انفرادی عالمی درجہ بندیاں اور بڑے بڑے ریکارڈ سب "اونچی دکان، پھیکا پکوان" کی مانند مصنوعی روپ دھار لیتے ہیں۔

ہمارے ملک کے حالات کی مانند ہماری کھیلوں کے کرتا دھرتا نے بھی ماضی سے کچھ نہیں سیکھا۔ لازم نہیں کے اچھا کھیلنے والا کھلاڑی قائدانہ صلاحیتوں کا بھی مالک ہو، اپنے کھیل میں بہتر کارکردگی دکھانا اسکی اچھی تکینک، مشق سازی اور قدرتی نکھار کے مرہونِ منت ہے۔ جبکہ قائدانہ صلاحیتوں میں نکھار لانے اور اسکی پہچان کو لے کر ہماری ریاست اور نظام میں سرے سے کوئی ادارہ موجود نہیں ہے۔ صرف کارکردگی کو معیار سمجھ کر کپتانی کا تاج پہنا دینے سے ناصرف انفرادی کارکردگی بھی متاثر ہوتی ہے اور مجموعی ٹیم کے مورال پر بھی اس فردِ واحد کی صلاحیتوں کا اثر پڑتا ہے۔

بابر جیسے دفاعی مزاج رکھنے والے کپتان کے کھیل اور قائدانہ فیصلوں کا اثر پوری ٹیم کی کارکردگی کو متاثر کرتا ہے۔ بروقت اور دلیر فیصلے ناصرف ٹیم کے اندر نئی طاقت پیدا کرتے ہیں بلکہ آؤٹ آف باکس جا کر کھیل پیش کرنے کا موقع بھی فراہم کرتے ہیں۔ کھیلوں کی مدد سے شکست برداشت کرنے کے بعد غلطیوں سے سیکھنا اور پھر ان غلطیوں کو نہ دہرانا ہی اصل مقصد ہے۔

مگر ہمارے ہاں غلطیوں کے بعد اس پر پردہ ڈالنا قومی فریضہ ہے۔ ہماری قوم جس کا مجموعی مزاج "کلٹ فالوونگ" پر منتہج ہے۔ وہاں بابر جیسے عظیم کھلاڑی کو ہدف تنقید بنانا اورنمبر ون گیند بازوں کو موردِ الزام ٹھہرانا گستاخی کے مترادف ہے۔ شائقین، کھیل کے ماہرین اور بحثیت مجموعی تمام قوم کو انفرادی کرشماتی شخصیات کے سحر سے نکل کر ان کو کارکردگی کے معیار پر سراہنا اور تنقیدی رویہ اپنانا ہوگا۔ وگرنہ شکست کے بعد لعنت و ملامت کرنا اور پھر معجزوں کے انتظار سے محض وقت گزارا جا سکتا ہے۔

Check Also

Gold Jiska Hai, Wo Bhi Hamara Larka Hai

By Asif Masood