Prometheus Of Mutahidda Riasat Haye America
پرومیتھس آف متحدہ ریاست ہائے امریکہ
جدید دنیائے سینما کے اچھوتے خیالات کے حامل ہدایتکار و کہانی نویس کرسٹوفر نولن کی نسلِ انسانی کو درپیش سب سے خطرناک ہتھیار کے موجد یعنی "ایٹمی ہتھیار کے باپ" ڈاکٹر رابرٹ اوپن ہائمر کی زندگی اور خطرناک ہتھیار کی تیاری کو لے کر فلم ریلز کر دی گئی۔ اس فلم کی کہانی کوانٹم فزکس کے دلدادہ ڈاکٹر اوپن ہائمر کی سائنسی تحقیقات سے شروع ہو کر ایٹمی ہتھیار کی تیاری، اسکے بطور جنگی ہتھیار استعمال اور بعد از جنگ ہونے والے عوامل کا احاطہ کرتی ہے۔
فلم کی کہانی کو تین زاویوں سے ترتیب دیا گیا ہے، فلم کی عکسبندی ان تمام زاویوں سے کہانی کے مرکزی کردار یعنی اوپن ہائمر کے کام، زندگی اور نظریات کو پیش کرتے ہیں۔ کہانی کا آغاز اوپن ہائمر کی بطور معلم، سیاسی نظریات کے برملا اظہار کے نتیجے میں بننے والی تحقیقاتی کمیشن کی کاروائی سے ہوتا ہے۔ جس میں اوپن ہائمر کو بطور "قومی سلامتی خطرہ" اپنے خلاف الزامات کا دفاع کرنا پڑتا ہے۔ جس کے محرکات اپنے بھائی کے ہمراہ "کمیونسٹ پارٹی" کے اجلاس و میٹنگ میں شریک ہونا اور بطور معلم اپنے طلباء اور شعبہ میں موجود لوگوں کو اپنے حقوق کی خاطر "یونین" کی اہمیت و آگاہی پر قائل کرنا ہے۔
اوپن ہائمر اپنے محرکات کا دفاع یوں کرتا ہے:
"میں دیکھ رہا ہوں ذہنی دباؤ میرے طلباء کی صلاحیتوں کو کیسے متاثر کر رہا ہے۔ طلباء کی اکثریت بے روزگار ہے یا پھر کم آمدن والے روزگار سے پریشان ہے۔ انکے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے میں سمجھتا ہوں کہ سیاسی و معاشی تبدیلیاں کیسے انسانوں کی زندگیوں پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ اسلیے میں اس امر کی ضرورت محسوس کرتا ہوں کہ مجھے بطور معلم و سائنسدان معاشرے میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ "
کہانی کا دوسرا زاویہ اسکی نجی زندگی کے محرکات، زمانہ طالبعلمی کا دور، تحقیقاتی زندگی کا دور اور بطور معلم "کوانٹم فزکس" کو امریکی سرزمین پر لانے کی کوششوں کا احاطہ کرتا ہے۔ اس میں اوپن ہائمر کا ایٹمی فزکس کے نامور سائنسدانوں (البرٹ آئن سٹائن، ہائزنبرگ اور نیل بوہر) سے ملاقاتیں اور ان کے سائنسی و تحقیقاتی کام سے استفادہ حاصل کرنے والے مناظر پر مشتمل ہے۔
کہانی کا تیسرا زاویہ جو کہ امریکی ریاست کا دوسری جنگ عظیم میں شریک ہونے کے بعد ایٹمی ہتھیار کی تیاری کے مراحل کی عکس بندی کرتا ہے۔ تاریخی طور پر اسکا محرک البرٹ آئن سٹائن کا وہ خط تھا جو اس نے امریکی صدر کو لکھا تھا اور اس خطرے سے آگاہ کیا کہ نازی جرمنی میں ہٹلر نے ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کا آغاز کر دیا ہے۔ اگر دنیا نے اس عمل کے تدارک اور روک تھام کا آغاز نہیں کیا تو نسل انسانی ایک ناقابلِ فراموش المیے کی شکار ہو سکتی ہے۔
اس خطرے کو بھانپتے ہوئے اور امریکہ کا جنگی، سیاسی و قومی برتری کو برقرار رکھنے کے لیے ایٹمی ہتھیار کا حصول لازم و ملزوم تھا۔ اس سلسلے میں دو بلین ڈالر کی لاگت سے "پراجیکٹ مین ہٹن" کی بنیاد رکھ دی گئی۔ جس کے لیے تحقیق و تجربات کے لیے امریکی ریاست میکسیکو کے مقام "لاس الاموس" کا انتخاب کیا گیا۔ اس پراجیکٹ کے ڈائریکٹر کے لیے سب سے پہلے تو البرٹ آئن سٹائن کا نام زیر غور تھا، مگر ان کی سابقہ زندگی و سیاسی نظریات کے باعث امریکی محکمہ دفاع کی جانب سے سیکیورٹی کلیئرنس نہ مل سکی۔
ڈاکٹر اوپن ہائمر جو کہ بنیادی طور پر ایک کوانٹم فزکس کا سائنسدان تھا، مگر اسکی اپنے حلقہ میں متاثر کن سرگرمیوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے اسکو اس پراجیکٹ کا ڈائریکٹر تعینات کر دیا گیا۔ جبکہ اس کی تعیناتی اور ایٹمی ہتھیار کی تیاری کے آدھے سفر تک اسکو بھی سیکیورٹی کلیئرنس نہ مل سکی۔ مگر اس دوران اس پراجیکٹ کے سیکیورٹی انچارج کی خصوصی کاوش پر اسکو اجازت نامہ مل گیا۔ ڈاکٹر اوپن ہائمر کا نسل انسانی کی بہتری، تحفظ اور اچھے مستقبل کا خواہشمند ہونے کے باوجود ایسے خطرناک ہتھیاروں کی تیاری والے پراجیکٹ ڈائریکٹر بننے کا واحد محرک ہٹلر اور نازی جرمنی کو اس دوڑ سے باہر کرنا تھا۔
تین سال کی لگاتار محنت، سائنسدانوں کی مشترکہ کاوش کے نتیجے میں بالآخر امریکہ تمام اتحادیوں اور مخالفین سے پہلے ایٹمی ہتھیار بنانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ یونہی اوپن ہائمر اور اسکی ٹیم یہ معرکہ سر کرتے ہیں، تب تک جرمنی جنگ میں شکست کھا چکا ہوتا ہے۔ مگر جاپان پرل ہاربر پر حملہ کرکے امریکہ کو دعوتِ جنگ دے چکا ہوتا ہے، بین الاقوامی دباؤ، مختلف محاذوں پر بدترین شکست بھی اسکو ہتھیار ڈالنے پر قائل نہ کر سکی۔
دوسری جانب ایٹمی ہتھیار کی دوڑ اور تیاری کا اصل محرک یعنی نازی جرمنی کی شکست سے یہ پراجیکٹ اپنا بنیادی مقصد کھو چکا ہے۔ اس موقع پر اوپن ہائمر اور باقی سائنسدانوں کی متفقہ رائے ہوتی ہے، اب فیصلہ سازوں یعنی سیاسی حکومت کے نمائندوں یعنی سیکرٹری برائے جنگ کو اس بات پر قائل کیا جائے، اس کامیاب تجربے کی بطور جنگی برتری تو بین الاقوامی سطح پر تشہیر کی جائے مگر انسانی آبادی پر اسکا بطور جنگی ہتھیار استعمال روک دیا جائے۔
اس سلسلے میں"نیل بوہر"، اوپن ہائمر سے ملاقات میں اسکو آگاہ کرتا ہے:
"ہمیں سیاسی نمائندوں کو یہ باور کروانا ہے کہ یہ ایک نیا جنگی ہتھیار نہیں، بلکہ ایک نیا دنیا کو وجود میں لانے کے مترادف ہے۔ تمہارا اس وقت مقام "امریکی پرومیتھس" جیسا ہے۔ وہ آدمی جو ان کو دنیا کے خاتمے جیسی طاقت سے لیس کر رہا ہے، اسکے بدلے وہ تمہاری دل و جاں سے عزت کریں گے۔ "
مگر اس وقت تک امریکی صدر و کابینہ اس ہتھیار کی مدد سے، جاپان کو سبق سکھانے کا فیصلہ کر چکے ہوتے ہیں۔ ہیروشیما و ناگاساکی پر ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال، امریکی جنگی جنون، سیاسی و جغرافیائی طور پر فاتح و سپر پاور کا درجہ تو دے دیتا ہے۔ مگر اس کے نیتجے میں ایک لاکھ پچیس ہزار لوگوں کی اموات پر اوپن ہائمر اور اسکی ٹیم کا براہ راست ذمہ دار ہونے کا دکھ ہمیشہ کے لیے سینوں میں دفن ہو جاتا ہے۔ دنیا کے باقی ممالک کا ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری جیسی نئی دوڑ شروع ہونے جیسا خوف بھی لاحق ہو جاتا ہے۔
اوپن ہائمر ان تمام ممکنہ خطرات سے امریکی صدر کو آگاہ کرنے اور سرد ردعمل آنے پر، عوامی سطح پر شعوری مہم کا آغاز کرتا ہے۔ امریکی ریاست اور دنیا کے ممالک کو ان ہتھیاروں کی تیاری اور استعمال کو نسل انسانی کا سب سے بڑا خطرہ قرار دیتا ہے۔ ان خطرات کا اظہار یوں کرتا ہے:
"اگر ایٹمی ہتھیار کا بطور جنگی ہتھیار استعمال شروع ہوگیا تو ایک وقت آئے گا جب نسلِ انسانی "لاس الموس" کے کرداروں پر لعنت بھیجے گی۔ "
امریکی ریاست کا اوپن ہائمر کی ریاست مخالف تمام سرگرمیوں کو "قومی سلامتی" پر حملہ تصور کیا جاتا ہے۔ اس انداز سے فلم کے آغاز و اختتامی لمحات کو باہم یکجا کر دیا جاتا ہے۔
اس پوری فلم سے جو نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے، وہ ان الفاظ سے بیان کیا جا سکتا ہے، جو آئن سٹائن نے اوپن ہائمر کو اپنی ملاقات میں بطور نصیحت کیے تھے:
"میں نے اپنا ملک چھوڑا، میرے کارناموں پر میری قوم نے مجھے ملامت کیا۔ تم نے اپنی قوم کے لیے کارنامہ سر انجام دیا، مگر تم بھی ریاستی عتاب کا شکار ہو۔ جب ریاست تمہیں شدید سزا سے دوچار کر لے گی، پھر اسکے بدلے میں تمہارے حق میں تقاریر و خطبات کی تشہیر کی جائیگی، تمہیں میڈل بھی نوازا جائیگا۔ تمہیں باور کروایا جائے گا کہ تمہاری خطائیں اور ماضی بھلا دیا گیا ہے مگر یہ صرف ایک سراب ہوگا۔ "