Marsoor Pahar
مرسور پہاڑ
کہا جاتا ہے خواب اسلیے دیکھے جاتے ہیں تاکہ ان کی تعبیر زندگی کو ایک مقصد یا معنویت عطا کرے۔ مگر کبھی کبھار زندگی آپ کو ان دیکھے خوابوں کی تعبیر کی کوشش میں مصروف کر دیتی ہے کہ آپ اس منزل کو پا لینے کے بعد بھی اسی خیال میں محو رہتے ہیں یہ کیسا خواب تھا؟ جو اب سراب نہیں رہا، خیال نہیں رہا، تصاویری خاکہ نہیں رہا۔ قدرت صرف چند مخصوص لوگوں کو یہ موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ تصویری منظر کو حسِ بصارت کی مدد سے مشاہدے کا روپ دیں۔
مرسور پہاڑ جو سکردو سے ملحقہ آبادی حسین آباد میں واقع ہے۔ حسین آباد سے ڈیڑھ کلومیٹر اوپر دیہی آبادی جس کو مقامی حسین آباد بلاک کے نام سے پکارتے ہیں یا یوں کہہ لیں حسین آباد بلاک، مرسور پہاڑ کے قدموں میں آباد ہے۔ مقامی گائیڈ کے مطابق حسین آباد بلاک سطح سمندر سے نو ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ حسین آباد بلاک سے پہاڑ کی چوٹی تک کا سفر کم و بیش تین ہزار فٹ کی عمودی و نیم عمودی چڑھائی پر واقع ہے۔
اس تین ہزار فٹ کی بلندی کے سفر میں پچاس سے زائد موڑ آتے ہیں، پتھریلی و کچی مٹی پر مشتمل ناہموار اور غیر منظم راستے پر قدموں کی کسرت کرتے منزل تک پہنچنا، میدانی علاقوں کے بھاری اجسام اور سست روحوں کے لیے زندگی بھر کے سانسوں کا استحصال کرنے کے مترادف ہے۔ مگر جب کوئی زندگی سر کے بل گزارنے کا عہد کر لے تو پھر بھاری بھر کم اجسام بھی روئی کے گالوں کی مانند ہلکے ہو جاتے ہیں۔
کہانی کا آغاز یوں ہوتا کہ ہمارا سکردو سیاحتی دورے کا طے کردہ آخری روز تھا، ہم نے علی الصبح ناشتہ ترک کرکے واپسی کی راہ لی۔ مگر واپسی کا یہ سفر کیچورا چیک پوسٹ پر پہنچتے ہیں ماند پڑ گیا، جب اطلاع ملی کے بوجہ لینڈ سلائیڈنگ سکردو تا جگلوٹ روڈ رات تک سفر کے لیے بند ہے۔ یوں ہم نے تھکے جسموں اور بوجھل ذہنوں کے ساتھ پھر سے سکردو کی راہ لی۔ سکردو پہنچنے پر خیال وارد ہوا کے کیوں نہ خدا کی جانب سے عطا کردہ اضافی روز کچھ یادگار کیا جائے، جو پورے دورے کا لطف کشید کرکے احساسات میں پیوست کر دے۔
اکثریتی شرکاء کی رائے تھی کے سارا دن سکردو شہر کے نام کیا جائے، مقامی و روایتی کھانوں سے معدے کو لذت بخشی جائے اور شہری آبادی میں موجود چند سیاحتی مقام (خرپوچو قلعہ، کٹپانہ جھیل وغیرہ) کا دورہ کیا جائے۔ جبکہ سکردو قیام کے دوران ہی ایک خرد پسند نے مرسور پہاڑ پر موجود نوک دار چٹان کی مہم جوئی کا مشورہ دیا، جس کو وقت کی قلت اور انتہائی مشقت کے پیشِ نظر ترک کر دیا گیا تھا۔ طویل مشاورت اور گفت و شنید کے بعد پانچ افراد کے قافلے میں سے دو شوریدہ مزاج روحوں نے (بشمول میرے) مرسور چٹان کی مہم جوئی میں بے خطر خود کودنے پر رضامندی ظاہر کی۔
مقامی لوگوں سے راہنمائی طلب کرتے مقررہ مقام حسین آباد پہنچے اور پھر مقامی آبادی سے دو نوجوان جن کے نام زاہد حسین اور فیصل تھے، ان سے مہم جوئی کی تفصیلات طلب کی، ممکنہ خطرات، موسم کی صورتحال اور چڑھائی و اترائی کے لیے جسم کو درکار کسرت کا احاطہ کیا۔ دونوں مقامی راہنماؤں کی قیادت میں مہم جوئی کا آغاز کر دیا گیا۔ تین ہزار فٹ کی بلندی میں سے نیم عمودی و ہموار راستے تک تو سفر خوشگوار رہا۔ مگر عمودی چڑھائی کے چند فٹ کے سفر نے جسمانی سستی کے تمام پول کھول کر رکھ دیئے، سانس ہتھے سے اکھڑنے لگا اور دن میں تارے نظر آنے کا مرحلہ آن پہنچا۔
اس وقت احساس ہوا کہ جارج میلوی کے اقوال نقل کرکے پہاڑی مناظر لوگوں تک پہنچانا کچھ محنت طلب کام نہیں۔ مگر جارج میلوی کے نقشِ قدم پر چلنا جان جوکھوں کا کام ہے۔ مقامی دوست کی مدد اور بار بار ہمت بڑھانے پر پھر سے سفر شروع کیا تو چند لمحوں کے توقف کے بعد اسی حالت نے جسم کو جکڑ لیا، شاعر کے مصداق:
بچھڑ کے ذات عشق میں ہوئے تنہا
تھکے تنہا، گرے تنہا، اٹھے تنہا، پھر چلے تنہا
عمودی راستے کے چند سو فٹ کے تھکا دینے والی مشقت کو دیکھ کر دل و دماغ میں ایک جنگ چھڑ گئی۔ دماغ جو منبع عقل ہے اس نے رائے دی جان ہے تو جہان ہے، یہاں سے سفر ترک کرو اور پھر اچھی تیاری کے ساتھ مہم جوئی کے لیے خود کو پیش کیا جائے۔ جبکہ دل جو روز اول سے منبع عشق و جنوں ہے، اسکی رائے تھی جنوں نے متعدد بار عقل کو مات دی ہے۔ یہ سفر تو جنوں کے سامنے اک غبارِ راہ ہے۔
دل جو ہمیشہ سے دماغ پر حاوی رہا، اسکی سنی گئی۔ پسینے سے شرابور لباس پر لگی گرد کو صاف کیا اور پھر منہ اٹھا کر سفر شروع کر دیا۔ بمشکل سے پہلے ہزار فٹ کا معرکہ سر کرنے پر ایک لکڑی نما آرام گاہ میسر آئی۔ وہاں لکڑی کے میز پر جسم کو سپرد کیا اور 15 منٹ تک دنیا و مافیہا سے بے خبر رہا۔ اس دوران مرسور چٹان جیسے شاہکار کی دریافت کرنے والے کوہ پیما عارف بھائی اپنے قافلے کے ہمراہ وہاں وارد ہوئے۔ مجھ جیسے نیم مردہ شخص نے ان سے درخواست کی کہ باقی 2 ہزار فٹ بلندی کا بوجھ ان ناتواں قدموں سے کیونکر طے ہوگا؟
ان کی جانب سے قابل عمل اور کوہ پیمائی کے بنیادی اصولوں (نگاہ پست رکھ کر بلا تعطل چلتے رہنا اور قدم مختصر رکھ کر جسم کے بوجھ پر قدموں پر منتقل کرنا) نے میری مہم جوئی میں ایک نئی روح پھونک دی۔ میں نے اپنے قدموں کو احساس دلایا یہ جسم بھی اس کا اپنا بوجھ ہے، زندگی کی مانند بیشتر سفر اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس اصول کو اپنا کر دوڑ میں آخری قطار میں رہنے والے گھوڑے کی مانند مستقل مزاجی سے مگر بلاتعطل چلتا رہا اور یوں پون دو گھنٹے کی لگاتار کسرت سے بقیہ ماندہ عمودی چڑھائی کا سفر مکمل ہوا۔
سفر کے بھیانک آغاز اور بار بار تھک کر بیٹھ جانے والے مسافر کو ہمراہوں اور خیر خواہوں نے متعدد بار مشورہ دیا، تھوڑا آرام کر لیا جائے۔ مگر میں جسم میں سرائیت کردہ ان دیکھی قوت کو زائل کرنا نہیں چاہتا سو بلا تعطل سر جھکائے جانبِ منزل رواں دواں رہا اور منزل پر پہنچ کر ہی دم لیا۔ منزل پر پہنچ کر ایک کونے میں بیٹھ کر آنکھیں بند کی، تو سفر کے دوران ہونے والی بادلوں کی آنکھ مچولی، سورج کی چھپن چھپائی اور بارش کی اٹکھیلیاں ایک فلمی منظر کی مانند سامنے سے گزر گئی، ان میں سے کچھ لمحات، جن کو ساتھیوں نے بطور سند کیمرے کے پردے میں اتار لیا تھا۔
اس تمام مہم جوئی کا حاصل اور منزل کا آخری مقام وہ نوک دار پتھر تھا جس کی ہیبت و دلکشی اس چٹان کو انسانی قدموں کا اعجاز بخشتی ہے۔ دماغ جو کہ سفر کے آغاز سے ہی اپنی مادی فعالیت کھو چکا تھا اس موقع پر فیصلہ سازی میں اسکا عمل دخل نہ ہونے کے برابر تھا۔ پھر جس مقام پر دل بلا شرکت غیرے فیصلہ ساز ہو، وہاں خواہ بال کی موٹائی کے برابر راہ ہو یا انسانی قدموں کو مکمل سمونے والی آسمان سے باتیں کرنے والی چٹان۔
مرسور چٹان کے نوکیلے پتھر پر چلنے کے احساسات کو نہ تو الفاظ میں سمو سکتا ہوں نہ تصاویر میں عکسبند کیا جا سکتا ہے۔ میں مرسور چٹان کے نوک دار پتھر پر اٹھائے گئے، ان چھوٹے قدموں کو زندگی کے سفر میں سینکڑوں اونچی چھلانگوں سے افضل سمجھتا ہوں۔ صرف ایک جملہ شاید اس احساس کا احاطہ کرنے کا حق ادا کر سکے۔
"یہ چند قدم جسم کو بغیر پروں کے اڑان کا لطف دیتے ہیں، عین اسی وقت اک نگاہِ پست اپنی پستہ قامتی کا زور دار جھٹکا دیتی ہے اور اک نگاہِ بلند قدرت کا بوسہ عطا کرتی ہے"۔
احمد ندیم قاسمی کہ نظم سے مستعار لیے ان اشعار سے روداد کو ختم کرنا چاہوں گا:
زندہ رہنے کیلئے، کچھ اور بھی درکار ہے
اور اس "کچھ اور بھی" کا، تذکرہ بھی جرم ہے
زندگی کے نام پر، بس ایک عنایت چاہیئے
مجھے ان جرائم کی، اجازت چاہیئے
صد شکر سلامت ہے پندار فقیرانہ۔