Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asad Ur Rehman
  4. Bad Intezami Ya Azab e Elahi

Bad Intezami Ya Azab e Elahi

بد انتظامی یا عذاب الہی‎‎

أَوَلَا يَرَوْنَ أَنَّهُمْ يُفْتَنُونَ فِي كُلِّ عَامٍ مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ ثُمَّ لَا يَتُوبُونَ وَلَا هُمْ يَذَّكَّرُونَ (سورہ التوبہ: 126)

کیا وہ یہ نہیں دیکھتے کہ انہیں ہرسال ایک بار یا دو بار کوئی نہ کوئی آفت درپیش رہتی ہے۔ پھر بھی یہ لوگ نہ توبہ کرتے ہیں اور نہ نصیحت قبول کرتے ہیں۔

ابنِ آدم نے روز اوّل سے اپنی کوتاہیوں اور بدانتظامی کا حل ہمیشہ سے مذہبی توجیحات سے اخذ کیا ہے۔ ہمیشہ سے اہل اقتدار و مذہبی ٹھیکیداروں اپنی ناکامی کا بوجھ انسانی بداعمالیوں کو قرار دیا ہے۔ اسی خوف اور بدانتظامی کو بروئے کار لاکر خدائی کے دعویداروں نے اپنے عبادت گزاروں کو خواص میں شامل کر کے قدرتی آفات سے بچاؤ کا واحد حل قرار دیا۔

2010 کے سپر فلڈ میں 2 کروڑ سے زائد آبادی متاثر ہوئی اور 20 لاکھ پاکستان بے گھر ہوئے اور صرف ایک سال میں پاکستانی معیشت کو 10 ارب ڈالر کا ناقابل تلافی نقصان ہوا۔ فیصلہ کیا گیا کہ قومی اور صوبائی سطح پر "ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹیز" بنائی گئیں۔ جس کے ساتھ ہی واضح ہوگیا کہ ہم نے مستقبل میں سیلاب کو تباہی و بربادی پیدا کرنے والی ایک آفت سمجھ کر نپٹنا ہے۔

اور بیرون ممالک سے آفت کے نام پر ڈالروں کو قابو کرنے کا قانونی راستہ میسر آ سکے۔ 2030ء تک پاکستان میں سالانہ 27لاکھ افراد سیلاب سے متاثر ہو سکتے ہیں، اس وقت ہر سال 7 لاکھ 15 ہزار افراد سیلابی پانی کی بے رحم موجوں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ مگر گذشتہ 12 سالوں میں کسی بھی حکومت نے اس آفت کی روک تھام یا بچاؤ کی خاطر کوئی جز وقتی یا طویل المدتی حکمت عملی ترتیب نہیں دی۔

نتیجتا معیشت کو اربوں کا نقصان اُٹھانا پڑتا ہے۔ جانی نقصان جس کا ازالہ جو کسی صورت ناممکن ہے، اسکا حساب مالی اعداد و شمار کا حصہ نہیں بنایا جا سکتا۔ جیسے ہی دریا بپھر کر خونی سیلاب کی شکل اختیار کرتے ہیں، عین وقت مذہبی اجتماعات و اتقدار کے ایوانوں سے گناہوں سے توبہ اور استغفار کی صدائیں بلند ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔

تاکہ لوگ ان سے گزشتہ 12 سالوں پر محیط ناکامی اور بد انتظامی کا حساب نہ مانگنا شروع کر دیں۔ اسی زمین پر بہت سے ممالک ایسے ہیں۔ جو ہفتہ وار بارش کی اسی شدت کا سامنا کرتے ہیں۔ جس شدت سے ہمارا واسطہ مون سون کے موسم میں پڑتا ہے۔ مگر ہمارے مقدر میں تباہی اور گناہوں سے توبہ علاوہ کوئی اور چارہ نہیں۔ محکمہ موسمیات کے مطابق اس سال صرف جولائی کے ایک مہینے میں ہی۔

پچھلے سال2021 کے مون سون کے تین ماہ (جولائی تا ستمبر) کی کل ملا کر بارشوں سے زیادہ بارش ہوچکی ہے۔ بلاشبہ موسمیاتی تغیر اور اس کے نتیجے میں ہونے والی تبدیلیوں نے مجموعی طور پر موسمی ردعمل کو شدید بنا دیا ہے۔ مگر اسی تناب سے حفاظتی اقدامات اور بچاؤ کے لیے متعدد تدابیر و حکمت عملی کو بروقت اپنا کر تباہی سے بچا جا سکتا ہے۔

پوری دنیا اس موسمی تغیر کو روکنے کے لیے اور بچاؤ کے تمام ممکن اقدامات کو بروئے کار لا رہی ہے۔ تاکہ وہ اپنی آنے والی نسلوں کو محفوظ رہن سہن کا ماحول فراہم کر سکیں۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق وادئ سوات کے شہر بحرین میں اونچے درجے کا شدید سیلاب ہے۔ جو دریا اور اس سے ملحقہ تمام علاقے کو اپنا شکار بنا چکا ہے۔ جس میں 150 کمروں پر مشتمل ہوٹل کی تباہی کے مناظر بھی دیکھنے میں آئے۔

اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہوٹلوں کی تباہی ان مالکان کے گناہوں کی سزا ہے یا کوئی بدانتظامی۔ وادئ سوات میں اس وقت "ریور پروٹیکشن ایکٹ سوات" لاگو ہے۔ جس کے تحت دریا کے کنارے سے دو سو فٹ میں کوئی عمارت بنانا غیر قانونی ہے۔ لیکن اس قانون پر ابھی تک عمل درآمد نہیں ہو رہا۔ جب کسی قوم کا مجموعی طرز عمل اور حکومتی اداروں کی بدانتظامی کا یہ حال ہو گا۔

تو اس قوم کا اپنی ناکامی کو عذاب کا نام دے کر جان چھڑانا آسان حل ہے۔ ہم عذاب صرف ایسی قدرتی آفت کو قرار دے سکتے ہیں۔ جس کا حل یا بچاو انسانی عقل، علم اور شعور سے بالاتر ہو۔ اسکے علاوہ کسی بھی ریاستی و انتظامی بد انتظامی کو قدرت یا گناہوں کے کھاتے میں ڈالنا صریحاً علمی و انتظامی بد دیانتی ہو گی۔ یہ توجیح صرف اور صرف اہل اقتدار کی ناکامیوں کو چھپانے کی بھونڈی کوشش ہے۔

ہالینڈ نے 1953 میں ہولناک سمندری سیلاب آیا تھا۔ ڈچ قوم نے اس سے سبق سیکھا اور سمندر کو حدود میں رکھنے کی ٹھان لی۔ ہر وہ جگہہ جو سطح سمندر سے نیچے تھی وہاں بند بنانے شروع کر دئیے۔ کچھ برس قبل سائنسدانوں نے حکومت کو رپورٹ پیش کی کہ ماحولیاتی تبدیلی سے سطح سمندر میں اضافہ ہونا لازمی ہے۔ حکومت نے ایک کئی سالہ منصوبے کا اعلان کیا، یہ منصوبہ "بند میں پانچ میٹر اونچائی" کہلاتا ہے۔

اس وقت سے اب تک پہلے سے بنائے گئے تمام بند مضبوط کئے جارہے ہیں اور ان کی اونچائی میں پانچ میٹر اضافہ کیا جارہا ہے۔ وہ قومیں جو بدانتظامی اور قدرت آفات میں فرق روا رکھتی ہیں، ان کی ترجیحات کا فرق واضح ہے۔ بلاشبہ ہم اس قوم کا حصہ ہیں، جو گناہوں کی آس پر توبہ کی قائل تو ہے۔ مگر نصیحت قبول کرنے پر آمادہ نہیں۔

Check Also

Heera Mandi Se Cafe Khano Tak Ka Safar

By Anjum Kazmi