Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asad Ur Rehman
  4. Az Qabeel Ta Comsat

Az Qabeel Ta Comsat

از قابیل تا کامسیٹ‎‎

مورخہ 19 جنوری 2023 وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کی جانب سے مراسلہ جاری ہوتا ہے۔ جس کی رو سے کامسیٹ یونیورسٹی اسلام آباد، شعبہ انجینئرنگ کے انگریزی کوئز میں دیے گئے مواد پر شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔ جامعہ ریکٹر کو ہدایت دی جاتی ہے ہفتہ پر محیط دورانیے میں تحقیقی کاروائی مکمل کرنے کے بعد اس قبیح فعل میں ملوث کرداروں کے خلاف کاروائی عمل میں لا کر رپورٹ جمع کروائی جائے۔ مورخہ 02 فروری 2023 جامعہ میں انکوائری کا آغاز ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں 05 فروری 2023 کو وزٹنگ لیکچرار خیر البشر کو نوکری سے فارغ کر دیا جاتا ہے۔

یہ تمام کاروائی ادارہ جاتی سطح پر مکمل ہونے تک سماجی میڈیا میں مکمل سکوت طاری رہتا ہے اور عوام اس تمام عمل سے بےخبر زندگی کے معمولات میں مصروف ہوتی ہے۔ مگر اچانک سے شعبہ انجینئرنگ کے انگریزی کوئز کا پرچہ سماجی میڈیا پر وائرل ہوتا ہے جس کے نتیجے میں مذہبی، سماجی، روشن خیال، ترقی پسند اور سماجی میڈیا پر برساتی جنگجوؤں کا گٹر ابل پڑتا ہے۔ نتیجتاً جامعہ انتظامیہ اور حکومتی حلقوں کی جانب سے متعلقہ لیکچرار کے خلاف کاروائی کے پروانے بھی اسی سماجی میڈیا پر لوگوں تک پہنچائے جاتے ہیں۔

شعبہ انجینئرنگ کے انگریزی پرچے کے متن میں بہن، بھائی کی باہمی رضامندی پر مبنی محرماتی جنسی تعلق قائم کرنے والی فرضی کہانی بیان کی جاتی ہے، طلباء سے اس فعل کے مناسب ہونے پر رائے طلب کی گئی تھی۔ انگریزی مضمون کے پرچہ وائرل ہونے سے سماجی میڈیائی حلقوں میں نئی بحث کا آغاز ہو چکا ہے۔ مذہبی و سماجی اقدار کے محافظ حلقے استاد کے اس عمل کو خلاف دین، سماج و ثقافت عمل قرار دے رہے ہیں۔ جبکہ روشن پسند و ترقی پسند حلقے اس عمل کو صرف علمی بحث قرار دے رہے ہیں۔

کسی بھی انسان کا دوسرے انسان کی جانب جنسی کشش رکھنا انسانی جبلت کا حصہ ہے۔ مخالف جنس کا باہمی کشش رکھنا ایک فطری عمل ہے۔ سماج انفراد کا مجموعہ ہے، انفراد کا باہم جنسی میلاپ ہی نسلِ انسانی کی افزائش و بڑھوتری کا ضامن ہے۔ سماج میں محرمات و غیر محرمات کا تعین، انفراد کی باہم سماجی و عمرانی معاہدے میں توازن قائم کرنے اور بگاڑ کی روک تھام کے لیے کیا جاتا ہے۔

چونکہ تمام مذہبی احکامات کا تعلق بھی سماج میں توازن برقرار رکھنے کا ایک ذریعہ ہوتے ہیں۔ اسی بابت تمام مذاہب نے اپنی تعلیمات میں سماجی رشتوں میں بگاڑ سے بچاؤ کی خاطر حرمت کی حدود قائم کر رکھی ہیں۔ جو سینکڑوں برسوں سے سماجی توازن قائم رکھنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ اسی بابت محرمات سے جنسی تعلق کو ناصرف مذہبی تعلیمات کی خلاف وزری بلکہ غیر سماجی و اخلاقی عمل تصور کیا جاتا ہے۔ خواہ یہ عمل باہمی رضامندی کے نیتجے میں وقوع پذیر کیوں نہ ہو۔

انسانی نفسیات کا سماجی عوامل پر گہرا اثر ہوتا ہے، کسی بھی انفرادی نفسیاتی بگاڑ اس کے نتیجے میں سرزد عمل کو مجموعی سماجی رویہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ نفسیاتی بگاڑ کے پس پردہ محرکات پر تحقیق اور اس سے تدارک پر بحث اور بات چیت کرنا ایک مثبت سرگرمی ہے۔ مگر نفسیاتی بگاڑ کے نیتجے میں سرزد عمل پر عوامی سطح پر بحث اور تحقیق، سماج سے اس بگاڑ کے ممکنہ حل تدارک پر رائے طلب کرنا، آگاہی کے ساتھ ساتھ سماج میں تشہیر کا ذریعہ بھی بن جاتی ہے۔ نتیجتاً سماج میں موجود نفسیاتی بگاڑ میں مبتلا دوسرے افراد کو بھی ان افعال سے رغبت حاصل ہوتی ہے۔

استحصالی ذہن کے حامل، جنسی بگاڑ میں ملوث اور بے قابو شہوانی جذبات سے لبریز افراد کے لیے محرمات سے جنسی تعلق رکھنے کی خواہش ایک آسان اور بےضرر فعل کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ نفسیاتی بگاڑ کے حامل افراد کی باہمی رضامندی سے وقع پذیر ہونے والا عمل اور اسکی تشہیر کے نتیجے میں محرمات سے جنسی تعلق، جنسی زیادتی کی شکل اختیار کر جاتا ہے۔ اس سلسلے میں چند واقعات جو کہ رپورٹ ہوئے ان پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

انگریزی روزنامہ ڈان کی 21 اگست 2021ء کی اشاعت میں ایک خبر چھپی تھی جس کے مطابق مدین پولیس نے ایک پچیس سالہ نوجوان کو اپنی بہن سے جنسی زیادتی کے کیس میں گرفتار کیا ہے۔

ضلع مالاکنڈ کے ایک گاؤں کی ایک خاتون نے اپنے بھائی کے خلاف تھانہ میں رپورٹ درج کرائی ہے کہ اس کا بھائی اسے اپنے ساتھ کالام لے کر گیا جہاں ایک ہوٹل کے کمرے میں اس سے جنسی زیادتی کی۔ دوسرے دن وہ اسے بحرین لے گیا اور ایک بار پھر ہوٹل میں اسے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔ جب لڑکی نے یہ بات اپنی بہن اور بہنوئی کو بتائی تو انہوں نے اسے تھانہ میں رپورٹ کرنے کو کہا۔ پولیس نے خاتون سے جنسی زیادتی کی میڈیکل رپورٹ مثبت آنے پر لڑکی کے بھائی کو گرفتار کیا ہے۔

دسمبر 2021 کے انگریزی روزنامہ ڈان میں چھپی ایک خبر کے مطابق کوٹ رادھا کشن پولیس اسٹیشن نے ایک شخص کو اپنی بیٹی کے ساتھ جنسی زیادتی کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔ ضلع قصور کے جھلر بھاگیانوالی کے علاقہ کی ایک لڑکی نے تھانہ میں رپورٹ درج کرائی ہے کہ اسے اس کے والد نے حویلی میں لے جا کر زبردستی جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا ہے۔ اپنی درخواست میں متاثرہ لڑکی نے لکھا ہے کہ اس کا باپ اس سے قبل بھی کافی دفعہ اس سے جنسی زیادتی کر چکا ہے۔ اس نے اپنے رشتہ داروں سے بات کی لیکن کسی نے اس کی آواز نہیں سنی، الٹا اسے خاموش رہنے کو کہا جس پر ہمت کر کے اس نے خود تھانہ میں رپورٹ درج کرائی ہے۔

ایک این جی او کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2007ء سے لے کر 2011ء تک محرمات سے جنسی زیادتی کے 194 کیس رپورٹ ہوئے لیکن اس کے بعد ان میں سو فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ غیر سرکاری ادارے ساحل کے 2011 کی رپورٹ کے مطابق، پورے پاکستان میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے رپورٹ کردہ 2252 کیسیز میں انسیسٹ کے 138 واقعات رپورٹ ہوئے جن میں 24 ملوث افراد، قریب ترین رشتہ دار یعنی باپ اور بھائی تھے۔ جبکہ 114 ملوث افراد رشتہ دار یعنی چاچا، تایا، ماموں اور کزنز تھے۔

یہ واقعات اور اعداد و شمار سرکاری ریکارڈ کا حصہ ہیں مگر اس سے کئی گنا زائد واقعات جو ابھی تک سماجی، استحصالی و معاشرتی دباؤ کے نتیجے میں ابھی تک منظرِ عام پر نہیں آ سکے۔ ترقی پسند اور روشن خیال طبقہ کا مجموعی تاثر یہ ہے کہ سماجی عوامل اور سماج میں موجود مسائل پر بات کرنے پر قدغن سراسر زیادتی ہے۔ سماجی مسائل جس میں نفسیاتی بگاڑ کا عنصر موجود ہو ان کا عوامی سطح یا غیر متعلقہ افراد پر رائے طلب کرنا ناصرف اس فعل کی تشہیر کا ایک ذریعہ ہے، بلکہ غیر پختہ اذہان میں جنسی و نفسیاتی کشمکش پیدا کرنے کی جانب پہلا قدم ہوتا ہے۔

غیر مذہبی افراد کی جانب سے محرمات سے جنسی تعلق کو لے کر مذہبی روایات پر کڑی تنقید کی جا رہی ہے۔ تمام سامی ادیان کی مذہبی روایات میں حضرت آدم (ع) کو تمام انسانیت کا جدِ امجد قرار دیا جاتا ہے اور پھر اماں حوا سے جنسی ملاپ کے نتیجے میں نسلِ آدم کی بڑھوتری کا عمل شروع ہوتا ہے۔ حضرت آدم کی اولاد جو موجودہ سماجی و شرعی احکامات کے تناظر میں حرمت کے معیارات پر پورا اترتی تھی۔ اولاد آدم کا باہمی جنسی تعلق استوار ہونا ہی نسلِ آدم کی بقا کا پہلو ہے۔

مذہبی احکامات یا شریعت سے قطع نظر حضرت آدم اور اولادِ آدم اس وقت ایک مختصر سماج کی اکائیوں کی نمائندگی کر رہے تھے۔ ان اکائیوں نے سماج کے توازن، نسل کی بقا اور جنسی ضرورت برقرار رکھنے کی خاطر جو سماجی و عمرانی تشکیل دیے، وہ ان کا سماجی فرض تھا۔ کیا اس سماج کے تشکیل کردہ اصول و ضوابط موجودہ سماج میں قابلِ عمل ہوں گے؟ اگر اسکا جواب نہیں میں ہے تو پھر موجودہ سماجی مسائل میں مذہبی روایات کا سہارا لینا جہالت کا مظاہرہ ہے۔

ہابیل و قابیل کا قصہ جو کہ سامی مذاہب میں مختلف روایات کی شکل میں موجود ہے اسکا پس منظر بھی محرماتی جنسی تعلق ہی گردانا جاتا ہے۔ جبکہ درحقیقت ہابیل و قابیل کا قضیہ خالصتاََ انسانی فطرت میں موجود حسد جیسے نفسیاتی عارضے کا عملی مظاہرہ تھا۔

روشن خیال سماج میں غیر اخلاقی و غیر فطری جنسی تعلقات کو انسانی جبلت کا حصہ قرار دیا جاتا ہے۔ دراصل ہر غیر فطری، غیر اخلاقی اور غیر سماجی افعال کا نقطہ آغاز ایک جنسی بگاڑ ہی ہوتا ہے۔ جب کسی سماج میں یہ افعال انسانی جبلت کا حصہ قرار دے کر اس معاشرے میں جگہ بنا لیتے ہیں، تو پھر یہ افعال استحصالی طبقے کی جانب سے فطری ردعمل کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔

کسی بھی کمزور جنس خواہ وہ عورت ہو، کمسن بچے ہوں، خواجہ سراء ہوں وہ ایسے عوامل کا آسان شکار ہوتے ہیں۔ ایسے واقعات آئین و قانون سے ماوراء ریاست میں استحصال بعد ازاں رضامندی کی شکل اختیار کر جاتے ہے۔ جس سماج میں غیر محرمات کے ہاتھوں جنسی تعلق کے نتیجے میں استحصال کا شکار ہونے والے ذہنی اذیت میں مبتلا زندگی گزار دیتے ہیں۔ وہاں محرمات سے جنسی تعلق اور پھر استحصال کا تدارک کیسے ممکن ہوگا۔ گھر کی چاردیواری کسی بھی کمسن اور کمزور جنس کی آخری محفوظ پناہ گاہ ہوتی ہے، اگر اس پناہ گاہ کی دیواروں میں شگاف پڑ گیا تو پھر اس سماج میں کمزور کی دادرسی کون کرے گا؟

Check Also

Heera Mandi Se Cafe Khano Tak Ka Safar

By Anjum Kazmi