Tahammul
تحمل
موجودہ دور میں ہر انسان پریشان ہے ہر انسان مایوسی و ناامیدی کا شکار ہے کسی کو ڈپریشن ہے کوئی تنہائی کاشکار ہے اور کوئی زندگی سےبیزار ہے ایک عجیب سی حالت ہے جو اس معاشرے کے لوگوں کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہیں اور ان سب باتوں کی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم نے ایک دوسرے کو تحمل سے سننا چھوڑ دیا ہے جس کی وجہ سے ہماری مایوسی اور ناامیدی بڑھتی جا رہی ہے۔
معاشرے میں پھیلی بے چینی کی وجہ بھی یہی ہے کہ ہم نے ایک دوسرے کو سننا چھوڑ دیا ہے یہاں انسان کہنا تو چاہتا ہے لیکن نہ کسی کو سننا چاہتا ہے نہ کسی کی سننا چاہتا ہے یا سننے کا صبراورحوصلہ نہیں ہے۔
اور صبر حوصلہ ختم ہوجانے کی وجہ سے ایک دوسرے کی بات سننے کا رواج ختم ہو گیا ہے۔ اس کی وجہ سے معاشرے میں بے چینی، تنہائی، اداسی، مایوسی اور ناامیدی بڑتی جا رہی ہے لوگ فرسٹریشن کا شکار ہو رہے ہیں رشتے ٹوٹ رہے ہیں نفسیاتی بیماریاں بڑھ رہی ہیں لوگ حد سے زیادہ جذباتی اور حساس ہوتے جا رہے ہیں۔
صبر، حوصلہ اور تحمل تین خوبیاں انسان کی زندگی میں بہت مددگار ثابت ہو تیں ہیں۔ اور ہمارے معاشرے میں یہ تینوں خوبیاں ختم ہوتی جا رہی ہیں جس کی وجہ سے معاشرے میں طرح طرح کی بیماریاں جنم لے رہی ہے اور ہمارے معاشرتی مسائل بڑھتے جا رہے ہیں۔
نفسیاتی اورجذباتی مسائل اس وجہ سے بڑھتے ہیں کہ آپ ایک دوسرے کی بات کو سنتے نہیں ہیں اور اگر آپ سنتے ہیں تو سمجھتے نہیں ہیں اور سمجھتے ہیں تو اپنی مرضی کے مطابق سمجھتے ہیں تو اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم لوگ ایک دوسرے کی بات کو اچھے طریقے سے سنیں اور صحیح طریقے سے سمجھیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بحیثیت انسان اپنی ذمہ داریوں کو پہچانیں، رشتوں کے حقوق کو پہچانیں اور تحمل سے ایک دوسرے کی بات کو سنیں اور تحمل سے ایک دوسرے کی بات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
زیادہ تر نفسیاتی اور جذباتی مسائل کوئی بھی بات سہی طریقے سے نہ سننے اور سمجھنے کی وجہ سے پیش آتے ہیں اور یہی باتیں آگے جاکر مایوسی، ناامیدی اور ڈپریشن کا باعث بنتیں ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے معاشرے میں دوبارہ سے ایکدوسرے کی بات کو تحمل سے سننے کا اہتمام کریں، تحمل سے ایک دوسرے کی بات کو سنیں، ایک دوسرے کی رائے کو اہمیت دیں، ایک دوسرے کی رائے کو عزت دیں اور اپنی بات کو ہرگز حرفِ آخر نہ سمجھیں۔ معاشرے میں مکالمے اور گفتگو کو فروغ دیں۔
یہ ایک عادت نہ صرف ہمارے معاشرے کوایک بہترین معاشرہ بنا دیے گی بلکہ ہمارے بہت سے معاشرتی اور نفسیاتی مسائل کا حل بھی ثابت ہوگی۔