Tuesday, 16 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Arif Hashmi/
  4. Main Jahan Hoon Wahan Insan Nahi Rehte

Main Jahan Hoon Wahan Insan Nahi Rehte

میں جہاں ہوں وہاں انسان نہ رہتے ہوں گے

ساحر کی بہت اعلی پاے کی نظم سے ایک مصرع ہے۔ شاید پچھلی نسل کے لوگ ساحر اور اس نظم سے واقف ہوں نئی نسل کا یقین سے نہیں کہ سکتا کیوں کہ ان کو آج کل وہی شاعری اور اقوال یاد رہتے ہیں جو واٹس اپ اور ٹویٹر سے کشید کیے جاتے ہیں۔ اس پر آشوب دور میں لوگ غالب کو وصی شاہ کا کلام سمجھ کر سر دھنتے ہیں تو ساحر کو کون پوچھے گا۔

دیکھیں میں بھٹک گیا موضوع سے۔ غالب یا ساحر کا کیا تذکرہ ۔ نئی نسل سے معذرت اور پرانی نسل سے ادب کے ساتھ ساحر کا مصرع مجھے نیا نیا لگا۔ اس لیے عنوان رکھ لیا۔ پہلےعنوان "جلن" رکھا تھا پھر یہ رکھ دیا۔ ہو سکتا ہے اس بہانے کوئی قاری اتفاق سے ہی سہی ساحر کی کوئی کتاب یا نظم ڈاؤن لوڈ کر کے پڑھ لیں۔

صاحبو مری انگریز سے نفرت 1947 پہلے کی ہے۔ لیکن آزادی کے 73 سالوں بعد بھی اس جلن میں کمی نہیں آئی۔ ہاں ایک احسان ہے بس ان کا کہ ایک چیز ہمیں بلانک چیک میں دی ہماری ساری سماجی اور مذہبی خرابیوں کا ذمہ دار مغرب کو ٹھہرانے کی سہولت۔ اس کےلیے ہماری عوام اور اشرافیہ تہ دل سے مغرب کے شکر گزار اور سراپا سپاس ہیں۔

لیکن ہمیں ایک فخر تھا۔ مشرقی تہذیب، روحانیت اور ہماری اخلاقیات جس پر ہمیں گھمنڈ کی حد تک ناز تھا۔ مسجد کے خطیبوں اور تقریروں، اسکول کے جلسوں، یونیورسٹی (خاص طور پر جمیعت والوں کی افطار پارٹیوں) میں طاغوت کا ذکر سنتے۔ بڑوں کی محفل میں مغرب کی مادیت پرستی اور بے راہ روی کی تصویر کشی اور مشرق کی انسانیت اور تہذیب کے قصے سنتے اور اپنی مادی زبوں حالی کو خدا کا عطیہ سمجھتے۔ کہ کچھ ہو نا ہو ہمارے پاس مشرقی تہذیب تو ہے۔

لیکن یہ پچھلے چند مہینوں میں میری جلن غصے میں بدل گئی ہے مشرقی تہذیب ہاتھوں سے پھسلتی ہوئی محسوس ہوئی اور مجھے مشرق مشرق نہیں لگ رہا۔ کچھ شمال جنوب سا لگنے لگا ہے۔

میں اسی گومگوں میں تھا کہ میں نے سی این این اور بی بی سی پر کالوں کا مارچ دیکھا۔ وہ کوئی اپنے حقوق کی تحریک اور تشدد کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ یہی نہیں ٹیکساس کے پولیس کمشنر نے تو اتنی جسارت کی کہ ڈونالڈ تڑُمپ کو چپ کرا دیا۔ میں کئی دن تک پینٹاگون کی پی ار ٹیم، وائٹ ہاؤس اور اخباروں کی سرخیاں تلاش کرتا رہا کے اب تو کوئی انہیں ملک دشمن، غدار قرار دے ہی دے گا اور اسے ملکی سلامتی پر حملہ قرار دے گا۔ کچھ کالوں کے لیڈر غایب ہوتے، کمشنر کو OSD بنا کر کہیں دور بھیجا جاتا۔ اور نہیں تو کوئی عدالت سو موٹو ایکشن ہی لے لاتی۔ لیکن افسوس وہاں کوئی ثاقب ہے نہ افتخار۔ یا شاید ہوں مگر وہ تیسرے درجے کے شہری ہیں اور وہاں کی عدالت تک ان کی پہونچ نہیں۔

مجھے یہ مادہ پرست مغرب عجیب لگا ابھی تک انہوں ان لوگوں کو امریکا کی ریاست کے لیے خطرہ قرار نہیں دیا۔ ہمارے مشرق میں سندھ کے ساحلوں سے راس کماری تک ہر طرف حق کی آواز اٹھانے پر کافر، ملک دشمن کی مہر تو ریاست سے لے کر عام شہری کو دستیاب ہے۔ میڈیا کے چوراہوں اور جمہور کے ایوان تو یہ سرٹیفکیٹ ہر لمحے تقسیم کرتے ہیں۔ مذہب سے لے کر حق کی آواز دبانے تک سرحد کے دونوں طرف شکل مختلف لیکن اوزار ایک جیسے ہیں۔ تہذیب کا لبادہ صرف کتابوں کی زینت ہے وہ بھی پرانی۔ لوگ فیض اور احمد فراز یا جالب کی نظمیں صرف گانے کی حد تک یا کسی اک دکا تقریبوں میں سن پاتے ہیں۔ یہ لوگ اس دور میں ہوتے تو ٹویٹر کے ٹاپ ٹرینڈ پر اتنی گالیاں کھاتے کے شاعری سے توبہ کر کے کینیڈا کی امیگریشن لے لیتے یا ان کا (اس) لسٹ میں نام شامل ہوتا۔ کراچی سے دہلی تک احتجاج کا مطلب تہذیب سے گری حرکت تصور ہوتی ہے۔ کشمیر کا زخم دونوں جانب رات کے مباحثوں کا عنوان تو ہے۔ لیکن روح سے بھی خالی اور انسانیت سے بھی۔ انسانیت اور مشرق کی تہذیب چینلز کی ریٹنگ میں گم ہو گئی ہے۔

مجھے مغرب سے شدید جلن ہونے لگی ہے۔ تہذیب، روحانی اور تقدیس مشرق کے فخر کا فریبی نخلستان ہی تو رہ گیا تھا۔ جس پر پورا مشرق مادی زندگی کے دکھ ہنسی خوشی سہ لیتا تھا۔ مغرب نے وہ بھی ہم سے چھین لیا۔ جو انسانیت اور تہذیب اور مشرق کے گن ہم گاتے تھے۔ وہ آزادی کے ساتھ ہی قید ہو گئی ہماری آزادی 1947 میں ہوئی اور تہذیب سے آزادی ستر سالوں میں۔ مغرب نے بڑی دیدہ دلیری سے ہماری یہ دولت چھین کر ہمیں بلکل قلاش کر دیا۔

میرا دل کرتا ہے کے پاکستان اور ہندستان کے وزراے اعظم سے گزارش کروں کے کشمیر کا مقدمہ جب حل تو ہو تو ہو ایک مقدمہ مل کر لڑ لیں۔ مشرق کی تہذیب اور مشرقیت کے ڈاکے کا۔ مغرب سے دست بستہ عرض کریں کے ہمیں امداد دیں یا نہ دیں ہمارا مشرق اور تہذیب تو لوٹا دیں ہم اسے کراچی، لاہور، دہلی اور لکھنو میں تلاش کر رہے تھے وہ تو ہمیں واشنگٹن اور ٹیکساس کی سڑکوں پر ملا۔

آیے اسرائیل اور امریکا کے کے خلاف آن لائن ایک درخواست اور دائر کریں۔ ہماری تہذیب اور مشرق کے ڈاکے کی۔ ہمیں ہمارا مشرق واپس کر دیں۔ ہماری تہذیب اور انصاف لوٹا دیں۔ (جنکا خیال ہو کے مشرق ابھی تک مشرق میں ہے وہ نشاندہی کریں)

Check Also

Soft Diplomacy

By Saleem Zaman