Sapne Sache Ho Sakte Hain
سپنے سچے ہو سکتے ہیں
یہ ایک تاریخی دن ہے، جیسے سب دن ہوتے ہیں۔ جیسے سب عام دنوں میں کچھ خاص بھی ہوتا ہے۔
امریکی شاعرہ میوریل نے سچ ہی تو کہا تھا۔ یہ کائنات جس میں ہم سانس لیتے ہیں، ایٹموں سے نہیں، کہانیوں سے بنی ہے!کہانی، قصہ گو سے، کہنے والوں سے، سننے والوں سے بڑی ہوتی ہے۔ تبھی تو کردار اور کہانی کہنے والے رخصت ہوتے رہتے ہیں، مگر کہانی باقی رہ جاتی ہے۔ یہ بھی ایک ایسی ہی کہانی ہے، مگر اس کہانی کو کہنے والے اور بیتنے والے کہانی گو تاریخ کے سو راہے پر آکر سو گئے۔ یہ بیسویں صدی کی ایک کہانی ہے، جو اگلی کئی صدیوں تک تازہ رہے گی، جس کو کہنے کا وقت آچکا ہے۔
میں جہاں موجود ہوں، وہاں تاریخ کا چرخہ، رنگ برنگ ہاتھوں کے ساتھ میں چلتا رہا اور رنگیلی رلیاں بنتا رہا۔ یہ رلیاں ہم سب پہنتے رہے ہیں۔ یہ ایک ایسی کہانی ہے جس کے وارث نکمے نکلے، مگر جس کو "ری کلیم" کرنے کا وقت آچکا ہے۔ شاید یہ اس سال کی سب سے بڑی کہانی ہو؟
یہ کہانی 16 جون 1913 کو اس کمرے سے شروع ہوتی ہے۔ یہ کمرہ نیشنل لبرل کلب لندن کی لائبریری کا کمرہ ہے۔ یہ کلب برطانوی وزیر اعظم ولیم گلیڈسٹون نے لبرل پارٹی کے ممبران کے لیے 1882 میں بنایا۔ اطالوی طرز کی یہ بلڈنگ دریائے ٹیمز کے کنارے پر واقع ہے اور ایک وقت میں لندن کا یہ سب سے بڑا کلب ہاؤس تھا۔ یہ کلب برطانوی پارلیمنٹ سے چند منٹ کے پیدل سفر پر واقع ہے۔ 16 جون 1913 کو نوجوان بیرسٹر محمد علی جناح ؒ اس کلب کے ممبر بنے۔ اس وقت ان کی عمر چالیس برس کے قریب تھی۔
اس تحریر کے ساتھ محمد علی جناحؒ کا، ہاتھ سے بھرا ہوا ممبرشپ فارم شامل ہے۔ میرا دعویٰ ہے کہ آپ میں سے ٪99 افراد یہ زندگی میں پہلی مرتبہ دیکھیں گے۔ بلکہ شاید نیشنل لبرل کلب اور قائد کی زندگی میں اس کی اہمیت سے بھی بہت کم لوگ واقف ہوں گے۔ اسی کلب میں محمد علی جناحؒ کی ملاقات دادا بھائی نوروجی سے ہونی تھی جو بعد میں قائد اعظم ؒکے گاڈ فادر بنے اور ان کی زندگی پر ان کے بے پناہ نشانات ثبت ہوئے۔ نوروجی پہلے ہندوستانی تھے جو برطانوی پارلیمنٹ کے رکن بنے۔ جنہوں نے قائداعظم ؒکو قانونی اور پارلیمانی جدوجہد کے اسرار سے روشناس کرایا۔
گرینڈ اولڈ مین آف انڈیا، ممبئی کے دادا بھائی نوروجی: برطانیہ کے پہلے انڈین رکن پارلیمان بنے جن کے لیے قائد اعظم ؒنے بھی انتخابی مہم چلائی تھی۔ یہی نہیں، محمد علی جناح ؒنے تحریک ِپاکستان کے ابتدائی سالوں اور عروج کے برسوں میں اس کلب میں بہت وقت گزارا۔ انگریزی سامراج سے لڑنے کی شطرنج انہی کمروں میں سجائی گئی اور اپنے وقت کے بہترین دماغوں کے ساتھ مشورے کیے گئے۔ نیشنل لبرل کلب، کئی اعتبار سے ہم جناحؒ کے پرستاروں کے لیے جناحؒ کی یادگار ہے کہ انہی سیڑھیوں پر وہ چلے، کمروں میں بیٹھ کر بحثیں کیں، کھانے کھائے، کافیاں پیں، سگار پھونکے، اور پاکستان کا سوچا جو اس وقت خواب سے زیادہ کچھ نہیں تھا، مگر خواب سچے بھی تو ہو سکتے ہیں۔
لندن میں قائد اعظم ؒنے بیس برس کے آس پاس وقت گزارا۔ لنکنز ان میں ان کی یادگار موجود ہے۔ نیشنل لبرل کلب میں جہاں ان کا بہت سا وقت گزرا، ان کی کوئی نشانی موجود نہیں تھی۔ ہمیں وہ نشانی تخلیق کرنے کے لیے برسوں لگے اور یہی آج کی بڑی خبر ہے۔ پانچ برس قبل کلب کے ممبر سام محمود کو یہ خیال آیا کہ نیشنل لبرل کلب میں قائد اعظم کی یادگار ہونی چاہیے۔ بعد میں ایجوکیشنسٹ بلال شیخ اور ہائی کمشنر ابن عباس اور ہم کئی برطانوی پاکستانی اس مہم میں شامل ہوگئے۔
سام محمود کا پورا نام سمیر محمود ہے، کراچی میں پیدا ہوئے، امریکہ میں تعلیم حاصل کی، آکسفورڈ میں پڑھے، منے پرمنے بیرسٹر بنے۔ نیشنل لبرل کلب کے ممبر بنے اور جناح ؒکے پرستاروں میں شامل ہیں۔ بلال شیخ ایک کامیابی کی کہانی ہیں۔ خالی ہاتھ برطانیہ پہنچے اور اپنی محنت سے سکہ جما دیا۔ تاہم جناحؒ کو نیشنل لبرل کلب کا مستقل حصہ بنانا کوئی آسان مرحلہ نہیں تھا۔ کلب کے کرتا دھرتا کاٹھے گورے ہیں، سو اگرچہ، چونکہ، چنانچہ میں کئی برس بیت گئے۔ سام محمود، بلال شیخ اور ہم سب ڈٹے کھڑے رہے، پاکستانی سفارت خانے نے بھرپور ساتھ نبھایا، حتیٰ کہ آج کا دن 3 مارچ 2022 آگیا۔
آج شام چھ بجے نیشنل لبرل کلب لندن میں قائد اعظم ؒکے پورٹریٹ کی تقریب رونمائی ہو رہی ہے۔ ہائی کمشنر معظم خان مہمانِ خصوصی ہیں۔ بلال شیخ نے بہت محبت سے قائد اعظم کا پورٹریٹ بنوایا ہے۔ مصور بھی دنیا کا جانا مانا مصور ہے۔ بلال شیخ نے قیمتی ترین جملہ پورٹریٹ کے نیچے لکھوایا ہے "پاکستان کے بیٹوں اور بیٹیوں کی جانب سے ایک تحفہ"۔ یوں یہ تحفہ ہم سب کی طرف سے ہے۔ گزشتہ ماہ برطانیہ کی بہترین یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے قائدانہ صلاحیتوں کے حامل پاکستانی نژاد بچوں اور بچیوں کو لے کر ہم نیشنل لبرل کلب گئے اور وہاں ہم نے بھیگی آنکھوں کے ساتھ قائد کی باتیں کیں۔ انہیں یاد کیا۔
ان میں سے کچھ نے پاکستان نہیں دیکھا تھا، اردو بھی نہیں جانتے تھے ہم اس امر پر مسرور ہوئے کہ ہم لندن کے بہترین کلب میں ایک تاریخ رقم کرنے کے سفر میں شامل ہیں۔ آنے والے دنوں میں آپ لوگ جب لندن ہیتھرو پر اتریں گے اور برطانوی پارلیمنٹ دیکھنے کے لیے دریائے ٹیمز کے کنارے کا کشاں کشاں رخ کریں گے، تو یاد رہے کہ آپ نے اسی دریا کے کنارے نیشنل لبرل بھی جانا ہے جس کے ہزاروں ممبران میں دنیا کے مؤثر ترین لوگ شامل رہے ہیں، مگر اس کے مؤثر ترین ممبر محمد علی جناحؒ ہیں۔ ایک شخص جس نے ایک ملک اور ایک قومیت تشکیل دی اور دنیا کا جغرافیہ تبدیل کر دیا۔
آج آپ سب کو محمد علی جناحؒ کو نیشنل لبرل کلب کی یاد کا ہمیشہ کے لیے حصہ بننا مبارک ہو۔ اب یہ قافلہ آگے چلے گا اور ہم پاکستان کے بیٹے اور بیٹیاں برطانوی پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے چوراہے میں قائد اعظم کا مجسمہ نصب کریں گے، انشاءاللہ۔ ہاں، وہی جگہ جہاں گاندھی کا مجسمہ نصب ہے۔ اسی جگہ آپ پیارے پڑھنے والوں میں سے بہت سے آئیں گے اور اس مجسمے کے ساتھ سیلفی لیں گے۔ پھر ہمیں وہ شخص بھی یاد آئے گا جس کے راستے سے ہم دور ہوگئے، مگر واپس بھی تو پلٹا جاسکتا ہے؟
ہاں، یہ کالے کوسوں کا سفر ہے اور اس میں بہت مشکل مقام آتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کئی برس لگ جائیں، ایک عشرہ، یا کئی عشرے لگ جائیں۔ ہاں یہ ایک اور خواب ہے، یہ میرا، بلال شیخ کا، ناصر اعوان کا، سید قمر رضا کا، ڈاکٹر سہیل چغتائی کا، ڈاکٹر حسن خلیل کا، سروش اور فارقلیط کا سپنا ہے، مگر سپنے سچے بھی تو ہو سکتے ہیں۔ پاکستان بھی تو ایک سپنا ہے، کچھ کے لیے سچا ہوا، بہت سوں کے لیے ابھی اسے سچا ہونا ہے۔
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے!