Tuesday, 07 January 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Arif Anis Malik
  4. Pakistanio Ka Christmas Dinner

Pakistanio Ka Christmas Dinner

پاکستانیوں کا کرسمس ڈنر!

آپ سب کو ولادت مسیح مبارک! ہیپی کرسمس۔اب تقریباً دس سال ہونے کو آئے، لندن میں ایک دلچسپ سی کرسمس منائی جاتی ہے۔کرسمس ویسے بھی اُمید، یقین، ولولے اور جشن کا نام ہے ،مگر یہ تقریب کچھ انوکھی ہوتی ہے کہ اس کے میزبان پاکستانی مسلمان ہوتے ہیں ،جو پاکستانی مسیحی برادری اور دنیا بھر کی دوسری برادریوں کے میزبان بنتے ہیں ۔جب میں نیا نیا برطانیہ وارد ہوا تو کرسمس کے موقع پر سوچا، یہ ہم پاکستانی اور مسلمان دنیا کے اس سب سے بڑے تہوار سے کٹے ہوئے کیوں ہیں؟سوچا تو معلوم ہوا کہ تبھی تو یورپ والے ہمیں آؤٹ سائیڈر سمجھتے ہیں۔

کرسمس ویسے بھی اب مذہبی سے زیادہ موسم کا تہوار بن چکا ہے۔ پورے سال کی ٪70 شاپنگ نومبر، دسمبر کے مہینوں میں ہوتی ہے۔آپ کسی بھی بھی مذہب سے ہیں، یا لا مذہب ہیں، اپنے خاندان کے ساتھ اکٹھے ہونے کا نام کرسمس ہے۔ برطانیہ کی آدھی آبادی ویسے بھی کسی عقیدے میں یقین نہیں رکھتی ،مگر کرسمس پورے جوش و خروش کے ساتھ مناتی ہے۔2013 میں سوچا کہ کیوں نہ ہم پاکستانی مسلمان میزبان بن جائیں اور پاکستانی مسیحی برادری کی مہمانی کریں، دوسری بین الاقوامی برادریوں کو بلائیں اور ان کے ساتھ ان کی خوشی میں خوش ہوں ۔

شروع میں تو بہت مار پڑی کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ ہمارے عقیدے پر کہیں آنچ نہ آجائے۔ تاہم میں مصر رہا، ورلڈ کانگریس آف اوورسیز پاکستانیز کے پلیٹ فارم سے سید قمر رضا اور ریورینڈ رانا ایو ب خان کے ساتھ نے مزید ہمت دی، بعد میں صائمہ خان، سنیا قریشی، گل نواز خان، ڈاکٹر سہیل چغتائی، طارق سلیمان، ماجد چوہدری، نجیب خان، ناہید رندھاوا، ایستھر داس، شبانہ خان، رابنسن اصغر، عامر ہارون، ساجد خان اور باقی دوستوں نے بھی ہمت بندھائی۔ یوں ہر سال پاکستانی کرسمس میلہ ہونے لگا۔

اس تقریب میں ہوتا کیا ہے؟ تلاوت اور ترانے کے ساتھ آغاز ہوتا ہے۔ پاکستان میں کرسمس منانے کی روداد شیئر کی جاتی ہے۔ وہ بین الاقوامی لوگ جو پاکستان دیکھ چکے ہوں وہ اپنی روداد سناتے ہیں ۔ کبھی کبھار ہیوی ویٹ مہمان بھی آجاتے ہیں، دو وزیراعظم، کئی وزراء اور اس مرتبہ کامن ویلتھ کی سیکرٹری جنرل مہمان خصوصی تھیں ۔ مسیحی دوست کرسمس انگریزی، اردو اور پنجابی میں کیرلز گاتے ہیں، تحائف کا تبادلہ ہوتا ہے۔ کیک بھی کٹتا ہے، قائد اعظم کی سالگرہ کا ذکر ہوتا ہے اور قائد کے پاکستان کو بھی یاد کیا جاتا ہے۔ شاندار ڈنر ہوتا ہے۔ اللہ اللہ خیر سلا۔

اسلام اور عیسائیت میں کامن گراؤنڈ پر بھی بات کی جاتی ہے۔ حضرت عیسٰی اور حضرت مریم کے فضائل کا ذکر ہوتا ہے۔ پچھلے سال تو یوم میلاد النبی بھی ساتھ ہی تھا ,تو دونوں عظیم الشان نبیوں کو شاندار خراج تحسین پیش کیا گیا۔ یہ بات بھی کی جاتی ہے خدا کے نام پر لڑنے کی بجائے اس کے نام پر ایک دوسرے کا ہاتھ بھی تھاما جا سکتا ہے۔تقریب کا سب سے شاندار پہلو پاکستان کی تاریخی رواداری اور شاندار کلچر پر بات چیت ہے۔

پادری یوآب خان وہاڑی سے ہیں اور آرچ بشپ آف کینٹربری کے ایڈوائزر رہے ہیں ۔ جب وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے ابتدائی تعلیم ایک مسجد میں حاصل کی ہے تو لوگ اپنی انگلیاں دانتوں میں داب لیتے ہیں ۔ گزشتہ آٹھ برسوں میں 34 سے زائد قومیتوں کے لوگ ان تقریبات میں شرکت کرچکے ہیں اور اکثر پاکستان سے بالکل واجبی واقفیت رکھتے ہیں ۔ بہت دفعہ بین الاقوامی مہمانوں نے تقریب کے بعد مجھے حیرت سے بتایا کہ انہیں معلوم نہیں تھا کہ پاکستان میں لاکھوں مسیحی بستے ہیں اور وہاں کی تعلیم، صحت اور دفاع میں گراں قدر خدمات سر انجام دے چکے ہیں ۔

وہ اس امر پر بھی خوش گوار طریقے سے حیران ہوتے ہیں کہ پاکستانی مسلمان، اس تقریب کے میزبان ہیں ۔ اور یہ کہ پاکستان کے بارے میں میڈیا میں جو کچھ دیکھا، سنا، وہ کس قدر ہولناک اور برا ہے اور پاکستانی کتنے شاندار لوگ ہیں ۔ ہاں، مسائل ضرور ہیں، مگر سب کچھ مسئلہ نہیں ہے۔ہمارے مکرمی اعظم معراج صاحب نے اکیلے کئی اداروں کے برابر کام کیا ہے اور پاکستان کے لئے جان دینے والے مسیحی شہداء کا تزکرہ ان کے حوالے سے کیا جاتا ہے۔

اس بار سیالکوٹ کا بھی دکھ سے ذکر ہوا ،مگر یہ بھی کہا گیا کہ جیسے آج ہم مل بیٹھے ہیں، اسی طرح سے ملتے رہیں تو ہم انتہا پسندوں کے ہاتھوں یرغمال ہونے سے بچ سکتے ہیں ۔2013 سے ہونے والی اس ساری کاوش کے لیے کہیں سے فنڈنگ یا امداد نہیں لی جاتی ہے۔اس مرتبہ کی خاص بات یہ تھی کہ پاکستان کے ہائی کمشنر معظم احمد خان ہمارے ساتھ میزبانی میں شامل ہوگئے۔ اقوام متحدہ کے بعد دنیا کی دوسری سب سے مظبوط تنظیم کامن ویلتھ کی سیکرٹری جنرل بھی اس جشن میں شامل ہوگئیں ۔

وہ برطانیہ میں پہلی سیاہ فام اٹارنی جنرل بھی رہ چکی ہیں ۔ وہ پاکستان کی شاندار دوست ہیں اور انہوں نے بہت مزے کی بات بتائی کہ پچھلے دسمبر برس سے جب بھی وہ پاکستان جانے کا پروگرام بناتی ہیں ان کا تبادلہ ہو جاتا ہے۔ اللہ خیر کرے کہ اگلے سال وہ پھر پاکستان جانے کا پروگرام بنا چکی ہیں ۔اس پروگرام کے حوالے سے ڈاکٹر فیصل عزیز، منیر احمد، مریم وہاب، وقاص سہیل اور زین عباس کی مسلسل مدد قابل تحسین ہے۔

Check Also

Nojawano Ko Boorha Hone Dain

By Qurratulain Shoaib