Dunya Ke Behtreen Baap Ki Kahani
دنیا کے بہترین باپ کی کہانی!
عید کا تیسرا دن پچھلے تین سال سے میری یادداشت میں چپک گیا ہے۔ 2018 کی بات تھی، میرے دیرینہ دوست قیصر عباس اور بھابھی راشدہ، بھتیجے حسین سمیت لندن میں تھے اور عید والے دن سفیر پاکستان کے گھر پر دعوت تھی، جہاں بہت دوستوں سے ملاقات ہوئی تھی، وہیں ہم سب نے مل کر مخدوم طارق محمود کو یاد کیا تھا جو اپنی پوری فیملی سمیت پاکستان پہنچے تھے۔
کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو محفل سے اٹھتے ہیں تو وہاں سناٹا سا طاری ہوجاتا ہے۔ مخدوم صاحب کا شمار ان دوستوں میں ہوتا ہے۔ ان سے تعارف کچھ 8 برس پہلے جان من احمد عزیز تارڑ نے کروایا تھا، لیکن ملاقات ہوئی تو لگا جیسے برسوں کا ناطہ ہے۔ ان کی مہمانداری قدیم عربوں کی یاد دلاتی تھی۔ یوں تو وہ لاہور ہائی کورٹ میں برسوں پریکٹس کرتے رہے تھے، مگر ان کی اصل قلم رو، روحانی میدان تھا۔ ان کی روحانی توجہ کی دھوم سول سروس میں بھی مچی ہوئی تھی، اور مزید دنیا کے دور دراز گوشوں میں موجود تھے۔
2018 میں رمضان کے اختتام پر مخدوم طارق محمود اپنے بچوں زمام امام(13 سال)، زہران امام (11 سال) اور محمد علی (9 سال) کے ساتھ پاکستان پہنچے ہوئے تھے۔ 15 جون روانہ ہوئے تو اگلے دن 16 جون عید کو پاکستان میں عید تھی۔ دوپہر کو سب سید گلزارِ حسین شاہ، چھوٹے بھائی کے برادر ان لا اور موجودہ کمشنر راولپنڈی کے گھر جمع ہوئے، اور وہاں سے بچوں کے ماموں ایڈیشنل سیشن جج راؤ فرقان احمد کے ہاں گئے۔ اگلا دن لاہور پیکجز کے شاپنگ سنٹر میں گزارا، وہیں فیملی فوٹو سیشن بھی کروایا اور اگلے دن کمالیہ کے لیے روانہ ہوگئے۔
مخدوم صاحب کی فیملی دو گاڑیوں میں تقسیم تھی۔ دو بڑے بچے ایک گاڑی میں سوار تھے اور مخدوم صاحب اپنی اہلیہ کے ہمراہ اپنی بچی کے ساتھ، اور محمد علی کے ساتھ دوسری گاڑی میں سوار تھے۔ ٹھوکر نیاز بیگ پہنچ کر سب لوگ بریک کے لئے رکے جہاں بچوں کو ہارڈیز پسند تھا، وہاں چپس کھاتے کھاتے ایک انہونی ہوئی کہ سب سے چھوٹے بچے محمد علی نے ضد کر لی کہ، اس نے اپنے بڑے بھائیوں کے ساتھ جانا ہے۔ گھر بھر کا لاڈلا ہونے کے سبب ہتھیار ڈالنے پڑے اور یوں تینوں بھائی ایک گاڑی میں اکٹھے ہوگئے، جبکہ ان کے والدین ان کے پیچھے گاڑی میں موجودہ تھے۔
ایک انہونی اور بھی ہوئی، ماں باپ پتوکی پہنچے، تو بچوں نے ضد کر کے گاڑی رکوائی ہوئی تھی اور وہاں سے پانی پی رہے تھے۔ تھوڑا وقفہ لے کر قافلہ چل پڑا تھا۔ پھر وہ ہوا جس نے اس خاندان پر زمین آسمان برابر کردیے، شمعیں گل کردیں اور ایک لمبی رات کی چادر تان دی۔ مخدوم صاحب اوکاڑہ بائی پاس سے کچھ آگے آئے تو دیکھا کہ، انہیں کی گاڑی ٹائر برسٹ ہونے کی وجہ سے درخت میں لگ چکی تھی اور چور چور ہوچکی تھی، وہیں تینوں بچے لہولہان موجود تھے۔ وہ انہیں اپنی بانہوں میں اٹھا کر سی ایم ایچ اوکاڑہ پہنچے، جہاں پر انتہائی نگہداشت کا اہتمام کیا گیا تو معلوم ہوا کہ علی زمام اور محمد علی دونوں اللہ کو پیارے ہوچکے ہیں۔
فرنٹ سیٹ پر بیٹھے زہران کی حالت نازک تھی، مگر اییر بیگ کھلنے اور سیٹ بیلٹ پہننے کی وجہ سے سانس چل رہا تھا۔ زہران کو خصوصی ایمبولینس پر لاہور منتقل کیا گیا اور سرجری شروع کردی گئی۔ مخدوم طارق کے بچوں کے ایکسیڈنٹ کی خبر، جنگل میں آگ کی طرح پوری دنیا میں پھیل گئی۔ ہزاروں ہاتھ دست بدعا تھے۔ خانہ کعبہ اور مسجد نبویؐ میں خصوصی دعاؤں کا اہتمام ہوا، اور معجزاتی طور پر زہران نے صحت یاب ہونا شروع کر دیا۔ لگا تھا کہ مخدوم صاحب کا امتحان اسی حد تک ہی تھا۔ اللہ نے زہران کو ہی نہیں، ان کے پورے خاندان کو نئی زندگی دے دی۔
بڑے لوگوں کی آزمائشیں بھی بڑی ہوتی ہیں۔ میں بھاگم بھاگ لندن سےلاہور پہنچا، تو مخدوم صاحب کا سامنا کرنا اور انہیں حوصلے دلانا بھی ایک جان جوکھوں کا کام دکھائی دیا۔ وہ بار بار ایک جملہ دوہراتے رہے کہ ربّ العزت نے میرے ہاتھ میں دو پرچے دے دیے ہیں۔ ایک صبر کا پرچہ ہے کہ دو راج دلارے بیٹوں کے جنازے کاندھوں پر اٹھائے ہیں، کہ ماں باپ پر سب سے بھاری ہوتے ہیں۔ ایک شکر کا پرچہ بھی دے دیا کہ زہران کو نئی زندگی عطا فرمائی، جیسے شروع میں ڈاکٹروں نے جواب دے دیا تھا۔ اب زہران اور حریم میں ہی وہ اپنی زندگی اور مستقبل دیکھتے ہیں۔
پچھلے تین برسوں میں مخدوم صاحب کو راکھ کا ڈھیر ہوتے، پارہ پارہ ہوتے اور بکھیرتے دیکھا اور پھر ان کو قطرہ قطرہ مجسم ہونے کی کوشش بھی کرتے دیکھا، گوکہ شاید یہ کبھی بھی نہ ہو پائے گا کہ ایسی دراڑیں بھرتی کب ہیں؟ مخدوم صاحب کا آدھا وقت اب پاکستان گزرتا ہے اور وہ ہر دوسرے روز کمالیہ میں موجود ہوتے ہیں، جہاں ایک وسیع و عریض خانقاہ آور لنگر خانہ زیر ِتعمیر ہے۔ بات بے بات ان کے آنسو رواں ہوتے ہیں اور کبھی کبھی یہ نالے چڑھ جاتے ہیں۔ یہ سانحہ بلاشبہ ایسا جانکاہ سانحہ ہے کہ پہاڑ کو بھی سرمہ بنادے۔
مخدوم صاحب نے تین سال بہت شدید مشکل نفسیاتی کیفیت میں گزارے، پھر انہوں نے اپنے صدمے کو ہی اپنی طاقت بنانے کی ٹھان لی۔ ایک طرف انہونی نے اپنی روحانی اور قلبی وارداتوں کو کتاب کی شکل دینی شروع کر دی۔ ان کا لکھا جب دنیا کے بڑے دماغ سٹیون کوہن نے پڑھا، تو وہ بھی عش عش کر اٹھا۔ دنیا کے مستقبل کے حوالے سے ان کی انگریزی میں کتاب نیویارک سے حال ہی میں شائع ہوئی ہے جو کئی زبانوں میں ترجمہ ہو رہی ہے۔
ساتھ ہی انہوں نے سید زمام امام اور سید محمد علی امام کی یاد میں 25 کروڑ کی خطیر رقم سے "علی زمام ٹرسٹ" بنا دیا، جس کی مدد سے وہ بے شمار بچوں کی زندگیوں کو اجالنا چاہتے ہیں، یہی اب ان کی زندگی کا مشن بن چکا ہے اور انہوں نے اپنے آپ کو اسی مقصد کے لیے وقف کر دیا ہے۔ وہ خانقاہی نظام کو بھی ایک نئے زاویے سے روشناس کرنا چاہتے ہیں۔ اس سال 18 جون کو علی زمام ٹرسٹ کا باضابطہ آغاز ہو جائے گا اور ان گنت زندگیاں فیض یاب ہوں گی۔
جولائی 2018 میں جب میں ہیڈرز فیلڈ پہنچا اور وہاں کے مشہور سکول میں پہنچا جہاں بچے زیر تعلیم تھے، تو وہاں سینکڑوں گوروں اور گوریوں کو آپس میں گلے مل کر دھاڑیں مار مار کر روتے ہوئے دیکھا۔ پورے علاقے میں ایک سوگ کا عالم تھا۔ اس موقعے پر تو چیخیں نکل گئیں، جب رخصت ہونے والے سید زمام امام کا کارڈ پڑھا گیا، جو اس نے پاکستان روانہ ہوتے وقت لکھا تھا، مگر ابھی کھولا جارہا تھا، اور کسی روحانی واردات کا حصہ معلوم ہوتا تھا:
"بابا، خدا آپ کے آنے والے دن آسان کرے، جب آپ کڑی آزمائشوں میں سے گزریں گے۔ کسی بھی صورت میں یہ مت بھولیئے گا کہ آپ دنیا کے سب سے بہترین باپ ہیں۔ آپ نے ہماری تعلیم کی چاہ میں پاکستان چھوڑ دیا جو دنیا میں آپ کو سب سے زیادہ پسند ہے اور اتنی ساری قربانیاں دیں۔ اگر کوئی مجھ سے پوچھے تو میں بتاؤں گا کہ دنیا کا بہترین باپ ایسا ہی ہوتا ہے۔"
اپنی ہر سالگِرہ پر مخدوم طارق کمالیہ میں اپنے مرحوم بچوں کے ساتھ موجود ہوتے ہیں، قوالی ہوتی ہے، لنگر چلتا ہے، نیویارک، ٹوکیو، پیرس، ونکوور، ہانگ کانگ اور دور دراز کے ملکوں سے مخدوم صاحب سے، محبت کرنے والے جمع ہوتے ہیں۔ پچھلے تین برس سے یہی ہوتا ہے۔ اپنی دعاؤں میں مخدوم طارق محمود اور ان کے خاندان کو یاد رکھیے گا۔ خداوند کریم ان کی ہمت اور حوصلے کو مہمیز کرے اور وہ علی زمام ٹرسٹ کی مدد سے جو زندگیاں اجالنے چلے ہیں، اس میں کامیابیاں نصیب ہوں۔ آمین۔