Azeem Rafiq Baniye
عظیم رفیق بنیے
اس سال جن لوگوں نے مجھے متاثر کیا، عظیم رفیق ان میں سے ایک ہے۔آپ میں سے بہت سے لوگوں نے شاید اس کا نام نہ سنا ہو، تاہم برطانیہ میں یہ اس سال کے دس سب سے بڑے نیوز میکرز میں سر فہرست ہے۔عظیم رفیق کراچی میں پیدا ہوا اور 2001 میں برطانیہ منتقل ہوا ،جہاں وہ انگلینڈ کے شمال میں یارکشائر کاؤنٹی میں جا آباد ہوا (انگلستان کی سب سے بڑی کاؤنٹی، یارکشائر کو خدا کی پسندیدہ کاؤنٹی کہا جاتا ہے)۔
عظیم رفیق نے یارکشائر میں کرکٹ میں بحیثیت آل راؤنڈر اپنا رنگ خوب جمایا ،اور انگلستان کی انڈر 15 اور انڈر 19 ٹیموں کے ورلڈ کپ میں کپتان رہا۔کئی تبصرہ نگاروں نے اسے کرکٹ میں انگلستان کا مستقبل قرار دیا۔موجودہ انگلینڈ ٹیسٹ ٹیم کے کپتان جوئے روٹ، بن سٹوکس اور وکٹ کیپر بیٹسمین جوز بٹلر بھی عظیم رفیق کے ساتھ انگلینڈ کی جونئیر ٹیم میں کھیل چکے ہیں ۔(تب عظیم رفیق برطانوی شہری نہیں تھا ،اور پاسپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے اس کا کیرئیر مشکلات کا شکار رہا)۔
2020 میں وزڈن کے ایک انٹرویو میں عظیم رفیق نے یارکشائر کاؤنٹی پر نسل پرستی کا الزام عائد کیا ،بارہا کہا کہ یارکشائر کا کپتان گیری بیلنس ڈریسنگ روم میں باقی کھلاڑیوں کے سامنے عظیم پر نسل پرستانہ جملے کستا جب کہ دیگر کھلاڑی اس پر ہنستے۔عظیم کے سامنے بار بار توہین آ میز "پی ورڈ" استعمال کیا جاتا۔(پی ورڈ "پاکی" ہے کو برطانیہ میں گالی /نسل پرستانہ لفظ سمجھا جاتا ہے اور استعمال کرنے پر پولیس کیس بن جاتا ہے)۔
شروع شروع میں یارکشائر کلب نے عظیم کے نسل پرستی کے الزامات پر مٹی ڈال دی۔اس سلوک سے دل برداشتہ ہو کر عظیم نے 29 سال کی عمر میں کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لےلی۔جب میڈیا میں معاملات اُچھلنے لگے، تو تب کلب کو ہوش آیا ،مگر تب تک چڑیاں کھیت چُگ چکی تھیں ۔یارکشائر کلب کے نسل پرستانہ رویے کی وجہ سے کئی سپانسرز کلب کو چھوڑ گئے، کلب کے سربراہ روجر ہیوٹن اور چیف ایگزیکٹو مارک آرتھرکو استعفی دینا پڑا۔
عظیم رفیق نے کمال یہ کیا کہ ایک طرح سے آؤٹ سائیڈر ہونے کے باوجود اس نے گوروں کے نسل پرستانہ رویے پر کس کر آواز اٹھائی۔جب پگڑی اُچھلنے لگی ،تو یارکشائر کلب نے ایک منی، پرمنی قانونی فرم کو درمیان میں ڈالا اور عظیم رفیق کو لاکھوں پاؤنڈ معافی تلافی کے طور پر پیش کیے۔شرط یہ تھی کہ وہ اس موضوع پر مزید نہیں بولے گا ،تاہم عظیم رفیق نے زبان بندی سےانکار کردیا، حالانکہ اس سال اس نے کرکٹ کا کیرئیر ختم ہونے کے بعد فش اور چپس کی دکان کھول لی تھی۔
عظیم رفیق تقریباً ایک مہینہ تک برطانوی میڈیا پر چھایا رہا، عظیم نے دل کھول کر اپنے ساتھ ہونے والے سلوک پر آواز اٹھائی، اور بھڑاس نکالی۔یہاں تک کہا کہ اس نے اپنی تحقیر پر خودکشی کرنے کا کئی مرتبہ سوچا۔سکائی نیوز، بی بی سی، آئی ٹی وی اور تمام موقر اخبارات نے اس پر خصوصی مضامین چھاپے، اور برطانیہ بھر سے صاحب ضمیر لوگوں نے اسے سپورٹ کیا۔انگلینڈ کرکٹ بورڈ کے سربراہ ٹام ہیریسن نے عظیم رفیق سے معافی مانگی۔عظیم رفیق نے اپنی جرات اور عزمت سے برطانیہ میں ایشیائی کھلاڑیوں سے ہونے والے نسل پرستانہ سلوک کی کمر توڑ دی۔
برطانیہ میں 1960 کی دہائی میں آباد ہونے والے پاکستانیوں کی اولین نسلیں "پاکی" کی نسل پرستانہ گالی سے آشنا ہیں ۔تب گورے یہ گالی دینا اپنا حق سمجھتے تھے، عشروں کی جدوجہد کے بعد قانون سازی ہوئی، اور اب یہ قابل دست اندازی پولیس ہے۔عظیم رفیق کے جرات مندانہ اقدام سے اس حوالے سے ایک نئے سنگ میل کا تعین ہوگیا ہے۔1970 اور 1980 کی دہائیوں میں گورے سکن ہیڈز پاکستانیوں کے ساتھ نسل پرستانہ منافرت کی وجہ سے مار پیٹ اور تشدد میں ملوث رہتے تھے اور "پاکی" تحقیر کے طور پر رائج تھا۔
بلکہ اس لفظ کو دسویں سب سے زیادہ زہریلی گالی کے طور پر درج کیا گیا۔اس زمانے میں سمجھا جاتا تھا ،کہ پاکستانیوں میں اتنی"تڑپ" نہیں ہیں ،کہ وہ اپنے ساتھ ہونے والی توہین پر کوئی آواز اٹھا سکیں ۔1985 کی ایک تحقیق کے مطابق بیس ہزار سے زائد لوگوں پر نسل پرستانہ آوازے کسے گئے۔تاہم سیاہ فاموں کی جدوجہد سے متاثر ہو کر برطانیہ میں پاکستانیوں اور جنوبی ایشیائی لوگوں نے کئی تحریکیں چلائیں ۔تنگ آمد بجنگ آمد کے چور پر کئی پاکستانی گروہ ایسے بھی بن گئے ،جنہوں نے لڑائی مار کٹائی میں ید طولیٰ حاصل کر لیا۔
بالآخر اگست 2003 میں پاکی کو نسل پرستانہ منافرت کے الفاظ کی علامت کے طور پر تسلیم کر لیا گیا اور اسے استعمال کرنے والے پہلے شخص کو قید کی سزا دے دی گئی۔عظیم رفیق سے حال ہی میں ایک ڈنر پر ملاقات ہوئی، تو معلوم ہوا کہ اب وہ ایک "آئیکون" بن چکا ہے۔اس کی باییوگرافی دنیا کا ایک مایہ ناز پبلشر چھاپ رہا ہے۔آنے والے برسوں میں وہ برطانیہ میں قومی سطح پر ایک بھرپور کردار ادا کرتا دکھائی دے رہا ہے۔
خیر برطانیہ میں سب سے بڑی خبر بننے کے بعد اسے حال ہی میں یہودیوں کے بارے میں نفرت آمیز کلمات کہنے اور ایک کمسن لڑکی ساتھ پیغامات کے تبادلے پر معافی بھی مانگنی پڑ گئی ہے۔ان دونوں واقعات نے اس کے امیج میں دراڑ ڈالی ہے۔اس کہانی میں غور و فکر کرنے والوں کے لیے کئی اسباق موجود ہیں ۔اس سسٹم کے بارے میں بھی سوچئے جو کہ ایک "گھس بیٹھیے" کے ساتھ "اپنوں " کے مقابلے میں کھڑا ہوگیا۔
شاباش عظیم رفیق!