Aik Naye Deosai Ka Janam
ایک نئے دیو سائی کا جنم
لیجیے، دنیا کی چھٹی ایٹمی طاقت کے دارالحکومت سے 40 منٹ کی مسافت پر نیا دیو سائی بن چکا۔ مری برف زار سے مرگ زار میں بدل چکا۔ برفباری میں وہاں جانے سے پرہیز کریں۔ آپ کو وارننگ دی جا چکی ہے، ورنہ آپ خود ذمہ دار ہوں گے۔ اخپل بندوبست!گورے نے مری چھاؤنی 1851 میں بنانا شروع کی تاکہ ہندوستان کی پگھلا دینے والی گرمی سے جان بچائی جا سکے۔ تاہم مجھے کالونیل دور کا بھی کوئی ایسا واقعہ نہیں مل سکا، جس میں مری میں برفباری سے 48-24 گھنٹے میں 30 لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہوں۔
گزشتہ پچاس برس میں جدید دنیا کے کسی بھی دارالحکومت کے آس پاس شاید ایسا واقعہ پیش آیا ہو، جس میں گاڑیوں میں بیٹھے بیٹھے لوگ یخ بستہ موت سے ہم آغوش ہوئے ہوں۔ جنہیں بیس تیس میل کی دوری سے ریسکیو نہیں کیا جا سکا یا ریسکیو کیے جانے کے قابل نہیں سمجھا گیا۔ اسلام آباد پولیس کا اے ایس آئی نوید اقبال تقریباً اٹھارہ گھنٹے تک اپنے ساتھ موجود سات جانوں کو بچانے کے لیے بلکتا رہا، مگر شاید وہ لوگ ڈسپوزایبل کیٹیگری میں تھے۔
لوگ کہتے ہیں کہ ان آٹھ افراد کی موت کاربن مونو آکسائیڈ سے ہوئی ہے، مگر ہوسکتا ہے دل ٹوٹنے سے ہوئی ہو، جب آپ کو احساس ہو کہ یو آر نو لانگر وانٹڈ، یو ڈونٹ کاؤنٹ!لیکن گورے تو حکمرانی کرنے آئے تھے، شاید کار جہان بانی سے واقف بھی ہوں گے۔ چابیاں جن براؤن صاحبان کے حوالے کر کے گئے وہ گورنینس نام کی کسی بھی چیز سے ناواقف ہیں۔ سردی ہو یا گرمی، وہ بس پروٹوکول دینے میں مصروف ہیں اور نوکری پکی کر رہے ہیں۔ یوں تو برف ہٹانے والے ادارے بھی ہیں، ملازم بھی ہیں، ماہانہ تنخواہ بھی لیتے ہیں، لیکن مشینری نہیں ہے۔
جرسیوں اور جوگرز میں ملبوس لوگ ہیں، جنہیں سردیوں میں اپنی جانوں کے لالے پڑ جاتے ہیں۔ ایویں دفتر را گاؤ خورد!قوم کو بھی پاگل پن کا چسکہ ہے۔ جب خبر یہ آئے کہ برفباری سے سڑکیں بند ہیں اور کہرام مچ چکا ہے، تو بیوی بچوں کو گاڑی پر بٹھا کر کون نکل بھاگتا ہے؟ وہ بھی اس جگہ جہاں زمین سخت اور آسمان دور اور لوگ نامہربان ہیں؟ مگر قوم کو یہ سمجھایا کس نے ہے؟ مجھے پولینڈ سے، فرانس سے، امریکہ سے، یوکرین سے، دنیا کے تین چار اور ممالک سے جاننے والے غیر پاکستانیوں نے رابطہ کیا۔
"عارف، تم اور تمہارے گھر والے سب ٹھیک ہیں؟ ہم نے سنا ہے کہ پاکستان میں شدید سردی کی وجہ سے کوئی واقعہ پیش آچکا ہے۔ تم لوگ ٹھیک ہو؟ " ان ملکوں میں مائنس پچاس تک سردی پڑتی ہے مگر لوگ گاڑیوں میں یخ بستہ موت سے دوچار نہیں ہوتے۔ اب میں ان کو کیا بتاؤں کہ یہ موسم سے زیادہ نیتوں کا کمال ہے؟ دنیا بھر کو خوبصورت پاکستان دکھانے اور سیاحت کی مہم چلانے والوں کے پاس اس سانحے کا کیا جواب ہے؟ یہی کہ برف پڑ جائے تو ہم لوگوں کو مرنے کے لئے چھوڑ دیتے ہیں اور نظام حکومت کا ہارٹ فیل ہوجاتا ہے۔
اگر مرنے والوں میں دس مختلف قومیتوں کے لوگ بھی شامل ہوتے تو پھر کیا ہوتا؟ اگر کے ٹو پر پھنسے کسی غیر ملکی کے لیے ہیلی کاپٹر اڑ سکتا ہے تو کالے، بھورے پاکستانیوں کے لئے کیوں نہیں؟ اور اگر ہم سفید فام قوموں کے آگے بچھ سکتے ہیں، اعلیٰ میزبانی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں تو اپنے لوگوں کے لئے اتنے سنگ دل کیوں ہو جاتے ہیں؟ کیا ریاستیں اپنے پاگل لوگوں کو مرنے کے لئے لاوارث چھوڑ دیتی ہیں؟
پھر سب سے کربناک وہ وڈیو فلمیں ہیں جو اس برف زار میں جان ہارنے والوں کی بنائی جارہی ہیں۔ کیا کوئی ایسا شخص ہے جو اس پر تحریک چلا سکے اور اس ملک خدا داد میں قانون بن سکے کہ، جو دنیا کے اکثر ممالک میں موجود ہے کہ آپ کی مرضی کے بغیر، زندہ یا مردہ وڈیو نہیں بنائی جاسکتی۔ یہ مرنے والوں کی شدید تضحیک ہے کہ چچ چچ کرتے اور کانوں کو ہاتھ لگاتے، توبہ کرتے تبصرے کے ساتھ گاڑی بھر میں موبائل پھیرو اور مرنے والوں کی پرائیویسی کی ایسی تیسی کرتے ہوئے تماشہ لگا دو۔ ایسی تصاویر اور فلمیں ٹراما کا باعث بنتی ہیں اور ان پر ہر صورت پابندی ہونی چاہیے۔
گھوم پھر کر یہ ایک ایلیٹسٹ معاشرے، اکانومی اور سوسائٹی کا احوال ہے۔ تقریباً دس لاکھ کے آس پاس خاکی، نیلے، پیلے اور سول افسران، سرمایہ کار، زردار، اور ریئل سٹیٹ ٹائیکونز کا معاشرہ جنہوں نے پچیس کروڑ کے ملک کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ یہاں ہیلی کاپٹر بھی ہے، مگر وہ عام بندے اور اس کے خاندان کو بچانے کے لیے پرواز نہیں کرسکتا۔ اگر نام کے ساتھ کوئی سابقہ یا لاحقہ لگتا ہے تو ٹھیک ورنہ تاریک راہوں میں یا اپنے پاگل پن کے ہاتھوں مارے جاؤ۔ گو اہیڈ سکریو یور سیلف۔
خیر، یہ سردی، وہ گرمی، ہمیں ڈرل تو معلوم ہی ہے۔ یہ گورنینس کی ناکامی اور یہ چند یبوست زدہ الفاظ، فیس بک پر سینہ کوبی، سڑاند دیتے ٹی وی تبصرے، کچھ مرثیے، چند ٹرانسفر، چند معطل، سرکاری فنڈ سے مرنے والوں کے لیے امدادی رقوم کا اعلان، مرگ انبوہ اور اس کے بعد اگلی ٹریجڈی کا سفر۔ سوتے ہوئے کو تو بندہ اٹھائے، مگر جاگتے کو کون جگائے؟ سو سوالوں کا سوال یہی ہے کہ ایک عام پاکستانی کی زندگی قیمتی کیوں نہیں ہے؟ اِسے کیوں نہیں بچایا جا سکتا؟ دریائے فرات کے کناروں پر مرنے والے کتوں کے بارے میں تقریریں کرنے والوں کے پاس اس کا کیا جواب ہے؟
ایک عام شہری کی جان کی حرمت کے تصور کے بغیر کسی بھی ریاست کا کیا جواز ہوسکتا ہے؟ کچھ تو گڑبڑ ہے۔ جو مری 1920 میں، 1960 میں، 2000 میں سفر اور سیاحت کے لیے محفوظ تھا، وہ 2022 میں آفت زدہ علاقے میں کیوں بدل گیا؟ اپنی غلطیوں سے نہ سیکھنے والوں کے لیے دائروں کا سفر جاری رہتا ہے۔ عباس تابش نے کیا خوب کہا ہے۔۔
ہمارے پاؤں الٹے تھے، فقط چلنے سے کیا ہوتا
بہت آگے گئے لیکن، بہت پیچھے نکل آئے