Mazhabi Blackmailing Ka Khatma
مذہبی بلیک میلنگ کا خاتمہ

گزشتہ دنوں میں پاکستان تحریکِ لبیک جن کے موجودہ امیر حافظ سعد حسین رضوی ہیں انہوں نے اسلام آباد کی جانب "لبیک یا اقصیٰ ملین مارچ" نکالا۔ پہلے تو لاہور ہی میں ایک رات قبل قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ایکشن لیا اور ان کے چوک یتیم خانہ کے قریب مرکز پر کاروائی کی اور اس کے بعد مسلسل دو روز تک اس مارچ کو لاہور میں روکے رکھا۔ لاہور میں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ٹی ایل پی کے درمیان کافی تصادم رہا۔ اس کے بعد کسی حد تک مظاہرین پر نرمی کی گئی جس سے مظاہرین اسلام آباد کی رواں دواں ہوئے۔ ابھی مظاہرین مریدکے پہنچے ہی تھے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ایک منظم کاروائی کی اور متعدد مظاہرین کو گرفتار کیا۔ مظاہرین کی جانب سے پولیس پر سیدھی گولیاں چلانے کا الزام لگایا گیا جبکہ پولیس کی جانب سے بھی شہادتوں کی تفصیلات سامنے آ گئیں ہیں۔ المختصر ابھی تک پولیس کے مطابق حافظ سعد حسین رضوی اور ان کے بھائی حافظ انس رضوی پولیس کے پاس نہیں ہیں اور روپوش ہیں۔
اگر دیکھا جائے تو یہ تحریکِ لبیک کا پہلا احتجاج نہیں تھا اس سے قبل جب سے یہ جماعت وجود میں آئی ہے انہوں نے ملکی سیاست میں ایک بھونچال برپا کیا ہے۔ 2015 میں حافظ خادم حسین رضوی نے اس جماعت کو تشکیل دیا اور اس کے بعد اس جماعت نے ایک کے بعد ایک احتجاج کیا۔ اس جماعت نے 2017 میں حلف برداری میں حضور اکرم ﷺ کے نام کی تبدیلی کے اوپر احتجاج کیا، 2018 میں آسیہ بی بی کی رہائی پر احتجاج کیے، 2020 میں فرانس کے سفیر کی ملک بدری پر احتجاج کیے، 2024 میں فیض آباد میں دھرنا دیا اور 2025 یعنی اس اکتوبر میں ایک اور ملین مارچ نکالنے کی جانب رواں دواں ہوئے۔ یاد رہے یہ تمام احتجاج جو میں نے یہاں بیان کیے ہیں بڑے احتجاج تھے اس کے علاؤہ بہت سارے اس جماعت نے چھوٹے چھوٹے احتجاج کیے جس میں ملک کے بڑے شہروں کو بند کیا گیا جس میں لاہور، فیصل آباد، اسلام آباد، کراچی اور ملتان کے نام قابلِ ذکر ہیں۔
اس جماعت کے کارکنان میں ایک خوبی بہت نمایاں حد تک موجود ہے وہ یہ کہ سوشل میڈیا خصوصاً ایکس (ٹوئٹر) پر گالم گلوچ میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ ایک طرف رسالت ماب ﷺ کا نام لیتے ہیں تو دوسری جانب اخلاقیات کی تمام حدیں عبور کر جاتے ہیں۔ آپ ان کے کارکنان کے علاؤہ ان کی لیڈر شپ کی باتیں سنیں تو بھی آپ حیران رہ جائیں گے کہ کس طرح یہ لوگ گالم گلوچ کرتے ہیں حالیہ دنوں میں انس رضوی کا بیان وزیراعظم شہباز شریف کے خلاف تو آپ نے سنا ہی ہوگا کہ اس میں کس طرح کے الفاظ کا چناؤ کیا گیا۔ بات یہاں ختم نہیں ہوتی جو لوگ ان کے خلاف بیان دیں ان کو یہ لوگ گالیاں نکالتے ہیں اور اس کے علاؤہ انہیں قتل تک کی دھمکیاں دیتے ہیں۔ اس میں متعدد صحافی جن میں احمد نورانی، سلمان درانی، اعزاز سید، کامران خان اور حامد میر جیسے نام قابلِ ذکر ہیں۔ بات یہاں ختم نہیں ہوتی یہ لوگ ان صحافیوں اور سیاستدانوں کے گھر کے ایڈریس انہیں وٹس ایپ کرتے ہیں اور کہتے ہیں دیکھیں ہمیں معلوم ہے کہ آپ لوگ کہاں ہیں؟
اس کے علاؤہ اگر دیکھا جائے تو اس جماعت کے کارکنان جو کہ بہت ہی زیادہ جذباتی ہوتے ہیں انہوں نے ہمیشہ مذہب کا سہارا لے کر دوسروں پر چڑھائی کی ہے۔ اب لگ یہی رہا ہے کہ ریاست نے ایک فیصلہ کر لیا ہے کہ جو کچھ بھی ہو جاہے اب اس ملک میں ہر روز کا احتجاج اور بڑے چہروں کو بند کرنے خصوصاً اسلام آباد پر چڑھائی کی قطعاً اجازت نہیں دی جائے گی۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ آج کل یہ معمول بن چکا ہے کہ ہر دوسرے دن احتجاج شروع ہو جاتے ہیں اور ریاست کو بلیک میل کیا جاتا ہے۔ ذرا آپ انہیں پر ہی نظر دوڑائیں ان کا بنیادی مقصد غزہ امن معاہدے کے خلاف مارچ تھا اور یہ لوگ فلسطین کا نعرہ لگا رہے تھے تو اگر دوسری جانب دیکھا جائے تو اہل فلسطین اس معاہدے پر خوشیاں منا رہے ہیں کیونکہ انہیں تقریباً دو سال بعد کوئی سکھ کا سانس ملنے والا ہے۔ حماس قیدیوں کو رہا کر رہا ہے اور انہوں نے بھی تقریباً تمام شرائط مان لی ہیں۔
اب انہیں ان چیزوں کا ذرا علم نہیں کیونکہ انہیں ہر ماہ دم دما دم مست قلندر کرنا ہے اور آج سے پہلے حکومت بھی ان کے ساتھ مل کر دھمال ڈالتی تھی مگر اس بار حکومت نے کچھ اور سوچ رکھا تھا۔ اب لگ یہی رہا ہے کہ حکومت مکمل طور پر تحریکِ لبیک پر پابندی کا سوچ چکی ہے اور ہو سکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں وہ پابندی لگا دی جائے۔ اب ریاست کو یہ چیز سمجھ آ گئی ہے کہ اس ملک میں مزید مذہب کارڈ کوئی نہیں کھیلے گا اور اس کارڈ کے ذریعے اپنے ذاتی دشمنوں، اقلیتوں اور حتیٰ کہ حکومت کو کوئی بلیک میل نہیں کرے گا۔

