Sunday, 22 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Arbaz Raza Bhutta
  4. Khudara Jagiye

Khudara Jagiye

خدارا، جاگیے

اس بات میں تو دو رائے ہونی بھی نہیں چاہیے کہ ہم آج بھی عبادت گاہوں، بازاروں اور گلیوں میں کٹ کٹ کر مر رہے ہیں مگر اعلیٰ حکام کے کانوں تک جوں تک نہیں رینگتی۔ آج بھی کسی نہ کسی طرح ان تمام دہشتگردوں کو تحفظ دیا جاتا ہے اور ہم اس بات سے بالکل بھی آنکھیں نہیں چرا سکتے کہ یہ دوبارہ دہشت گردی کا سلسلہ ہماری ناکامی کا ایک ثبوت ہے۔ کہا جاتا ہے کہ دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے۔ جب حکومت TTPسے امن معاہدے کرے گی تو یہی نتائج سامنے آئیں گے۔ یاد رہے وہی TTPکہ جس سے جنگ میں ہمارے 70 ہزار نوجوان شہید ہوئے۔

یہ مجھے بھی معلوم ہے کہ حملہ کی زمہ داری داعش نے قبول کی ہے مگر یہ بھی دیکھا جائے تو داعش اور TTPنے ہمیشہ ایک خاص مکتبہ فکر کو بہت زیادہ ٹارگٹ کیا ہے۔ اس لئے ان کے مفادات سے ہم ذرہ برابر بھی نظریں نہیں چرا سکتے کیونکہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔ چھوڑیئے اگر بات کریں حکومت کی تو یہ بات صاف ظاہر ہے کہ ماضی کی طرح ہماری ہر نئی حکومت، ہر دردناک سانحہ کے بعد ہی چوکس سوتی ہے کیونکہ اس سے پہلے وہ سو رہے ہوتے ہیں۔

اگر اب بھی ان کے اقدامات کا جائزہ لیا جائے تو یہ صاف ظاہر ہو جائے گا کہ یہ لوگ کیوں ان چیخوں کو بھول جاتے ہیں جو ہر سال ایسے مصیبت زدہ گھر وں سے بلند ہوتی ہیں؟ آخر کیوں یہ لوگ باپ کی لاش پر معصوم بیٹے کی آہوں کو بنا کچھ کہے سہہ جاتے ہیں؟ آخر کیوں ان لوگوں کو اس باپ کی آواز سنائی نہیں دیتی جو اپنے بیٹے کی لاش پر ماتم کرتے ہوئے کہہ رہا ہوتا ہے اے مسلمانو اس کا کیا گناہ تھا؟ اس کے سوا میرا کوئی نہیں ہے۔ میرا یہ ایک ہی بیٹا تھا۔ کیوں ان لوگوں کو ماں کے زخمی کلیجے کی درد بھری آہیں سنائی نہیں دیتی؟ جو تیار کرکے بھیجتی ہے جاؤ بیٹا جمعہ کی نماز ادا کرو اور واپسی پر لاش وصول کرتی ہے۔

تو جانیے یہ اس لیے بھول جاتے ہیں کیونکہ عوام اب ہر سال سو یا دو سو جنازوں کی عادی ہو چکی ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ ہر سال اس طرح کے حالات تو کسی نہ کسی پر معمول کے مطابق آتے ہیں۔ اس کے علاوہ اگر بات کی جائے ہمارے میڈیا کی تو بے شرمی اور بے غیرتی کی حد یہ ہے کہ وہ آصفہ بھٹو کے ڈرون سے زخمی ہونے کو ان 65 سے زائد شہداء کے خون پر برتری دی جاتی ہے۔ یہ سب اس لئے ہے کہ ہم منافق اور اعلی درجہ کے منافق ہیں۔

ہمارے ہاں سوشل میڈیا پر بھی کھل کر عوام 65 سے زائد لاشوں کو چھپانے کے چکر میں ہوتا ہے تاکہ یہ نہ ہو کہ آسٹریلیا کی سیریز خطرے میں پڑ جائے اور ہم اس بات کو رد نہیں کر سکتے کہ ان واقعات کا اندازہ ہمیں اس وقت ہوتا ہے جب ہمارے ساتھ ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ اس لیے یہاں سوال اٹھتا ہے کیا ہم اسی طرح مرتے رہیں گے؟ کیا ہم اس ملک میں کھل کر نہیں جی سکتے؟ اگر نہیں تو خدارا! اب اٹھیں اور ان دشمنانِ اسلام و پاکستان کو آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں۔

اب مذہب، ذات پات اور رنگ و نسل کو چھوڑ کر انسانیت کا علم اٹھائیں۔ ایسے واقعات کی ہر جگہ اور ہر پلیٹ فارم پر بھرپور مذمت کریں۔ اگر آج کوئی اور ہے تو کل ہم بھی ہو سکتے ہیں۔ اس لیے خدارا! جاگیے۔

About Arbaz Raza Bhutta

Arbaz Raza (known as Arbaz Raza Bhutta) is a student, journalist, and columnist. He currently works with Suno News, Dunya News, and The News International, and has previously written for Urdu Point, Daily Urdu Columns, Hamari Web, and other national newspapers. Follow him on Twitter @ArbazReza01.

Check Also

Class Mein Khana

By Rauf Klasra