Friday, 20 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Aqsa Gillani
  4. Mithai Ka Dabba

Mithai Ka Dabba

مٹھائی کا ڈبہ

راشد اور ارشد دوست تھے۔ راشد نے پانچویں کے بعد بھی سکول کی تعلیم جاری رکھی اور ارشد کے ابا نے اسے پانچویں کے بعد سکول سے ہٹا کر مدرسہ میں داخلہ دلوا دیا۔ راشد کے تعلیم مکمل کرنے تک ارشد ساتھ والے گاؤں کا امام مسجد بن چکا تھا۔

اتفاق سے جن دنوں راشد ملازمت کی تلاش کے ساتھ ساتھ مزدوری کرکے جیب خرچ نکالتا تھا، مولوی ارشد کو بھی تنخواہ نہ ملنے پہ امامت چھوڑ کر مزدوری کرنا پڑی۔

جہاں راشد کو حقارت اور افسوس سے دیکھ کر لوگ کہتے: کیا فائدہ اتنی تعلیم کا اگر اینٹیں ہی اٹھانی تھیں"۔ وہیں مولوی ارشد کو ترس اور ہمدردی سے دیکھ کر کہا جاتا: "بہت محنتی اور بھلے مانس ہے بیچارہ۔ بدبخت گاؤں والوں کے دونوں وقت بچے بھی پڑھاتا تھا، صرف بیس ہزار تنخواہ پہ۔ پھر بھی مہینے کے اختتام پر بھگا دیا۔ پیٹ تو پالنا ہے بھلے مزدوری کرنی پڑے۔ حق حلال کی کرکے کھاتا ہے بھئی"۔

چند ہی دنوں میں مولوی ارشد کو ایک اور گاؤں کی مسجد میں امام مقرر کر دیا گیا۔ راشد بھی کچھ عرصہ دھکے کھا کر بالآخر ایک پرائیویٹ سکول میں استاد ہوگیا۔

دونوں کی شادیاں ہوگئیں۔

راشد کی بیوی استانی اور شاعرہ تھی۔ دونوں نے فیصلہ کیا کہ وہ صرف دو بچے ہی پیدا کریں گے۔ دوسرے بچے کی ولادت کے بعد راشد نے بیوی سے وقفے کے سلسلے میں پوچھا تو اس کی فیمنسٹ بیوی نے مطالبہ کیا کہ راشد خود آپریشن کروا لے کیونکہ وہ دو بار زچگی کی تکلیف جھیل چکی ہے اس لیے اس بار خاندانی منصوبہ بندی کے لیے قربانی دوسرے ساتھی کا فرض بنتا ہے۔ راشد نے ٹال مٹول سے کام لیا اور بات بڑھ کر طلاق تک جا پہنچی۔

مولوی ارشد خوشحال ازدواجی زندگی بسر کر رہے تھے۔ مسجد کے ساتھ ہی گھر ملا ہوا تھا۔ شاگردوں کے گھر کچھ اچھا پکوان بنتا تو دے جاتے۔ ختم درود کی کمائی بھی اچھی تھی۔ بچے بڑے آپریشن سے پیدا ہوتے تھے لیکن مولوی صاحب یہ یقینی بناتے تھے کہ ڈاکٹر خاتون ہی ہو۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ سائنسی تعلیم کی بجائے دینی تعلیم کو زیادہ پسند کرتے تھے اور خواتین کی مدرسے اور پرائمری سکول سے زیادہ پڑھائی کے مخالف تھے۔ ان کا خیال تھا کہ تعلیمی اداروں میں پڑھنےسے بے حیائی پھیلتی ہے لڑکیوں کو بس نام لکھنا آنا چاہیے تاکہ نکاح نامے پر دستخط کر سکیں۔

ڈاکٹر سعدیہ نے ساتویں بچے کی ولادت پہ مولوی صاحب کو بہت سمجھایا کہ اتنے بچے کافی ہیں مزید بچے پیدا کرنا خطرناک ہو سکتا ہے مگر مولوی ارشد نے سنی ان سنی کر دی۔ ان کے خیال میں حمل کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا خدائی قدرت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کے مترادف ہے۔ حیرت ہے کہ اتنے فطرت پرست ہونے کے باوجود مولانا اپنے ننگے پیدا ہونے والے بچو‍ں کو کپڑے بھی پہناتے تھے اور ہر جمعے بڑے اہتمام سے اپنے ناخن اور بال بھی تراشتے، شاید خدا کی قدرت سے ایسی چھیڑ چھاڑ سے مولوی صاحب کا ذاتی مفاد جڑا تھا یا احکام خداوندی پر عمل پیرا تھے۔

آٹھویں بچے کی ولادت کے موقعے پر ایک بچی کو جنم دے کر ماں چل بسی۔

اتفاق سے راشد اور ارشد دونوں کو نوکری کی تلاش کے بعد ایک بار پھر بیک وقت دوسری بیوی کی تلاش تھی اور اس بار بھی مولوی صاحب بازی لے گئے۔ دونوں کی خواہش تھی کے بیوی پندرہ بیس برس کے درمیان ہو بھلے ہی ان کی عمر چالیس اور پچاس کے درمیان تھی۔ عمر دیکھے بغیر شادی کی خواہش پیغمبروں کی سنت ہے یوں بھی عمر ریاضی کے ایک ہندسے سے بڑھ کر کچھ نہیں ہوتی۔ نجانے بوڑھی عورت کے سرخی لگانے، شوخ رنگ پہننے یا سہیلیوں کے ساتھ گھومنے پھرنے پہ "بوڑھی گھوڑی لال لگام" کا طعنہ کیوں دیا جاتا ہے۔ اگر گھوڑی بوڑھی ہو جاتی ہے تو یہ کیوں سننے کو ملتا ہے کہ "مرد اور گھوڑا کبھی بوڑھے نہیں ہوتے"؟ حیرت کی بات ہے کہ اپنے دیس میں مردوں کی عمر عورتوں سے کم ہے بھری جوانی میں ہی مر جاتے ہیں۔ بھلا پچاس ساٹھ برس بھی کوئی عمر ہے گھوڑوں کے مرنے کی؟

حسب روایت مولوی ارشد کو جلد ہی مطلوبہ شے مل گئی۔ ایک شاگرد کی بڑی بہن سے فوری شادی کی بڑی وجہ ننھی سی بچی کی دیکھ بھال تھی۔ مولانا خدا کی رحمت سنبھالتے تو خانہ خدا کے امور دھرے رہ جاتے۔ عابدوں کی عبادت میں حرج ہوتا دیکھ کر ارشد کے سسر کا دل پگھل گیا۔ ارشد کی ساس بہت روئی پیٹی تھی کہ بیٹی سے بڑا تو اس کے دولہے کا بڑا بیٹا ہے مگر بیوی کی سنتا ہی کون ہے؟

راشد کو دوسری شادی کے لیے کئی پاپڑ بیلنا پڑے۔ کسی کو لگتا کے پہلی شادی ٹوٹی ہے تو ضرور لڑکے میں ہی کوئی نقص ہوگا۔ کسی کا خیال تھا کہ سرکاری نوکری ہے مگر استادوں کو اوپر کی کمائی نہیں ہوتی اتنی مہنگائی میں کیسے گزارا ہوگا؟

ایک تیس سالہ استانی سے بڑی مشکل سے شادی ہوئی مگر کچھ عرصے بعد ہی اسے لگنے لگا کہ وہ اس کے بچوں کا ویسے خیال نہیں رکھتی جیسے ان کی ماں رکھتی تھی۔ دوسری طرف بیوی کو اس کے شوہر کا بچوں کو پہلی ماں سے ملوانا چبھتا تھا۔ ہر وقت کی لڑائی نے دوسری شادی بھی زیادہ دن نہ چلنے دی۔

آج کل راشد دو سال سے بچوں کے ساتھ تنہا رہ رہا ہے۔ آج صبح دروازے پر دستک سے اس کی آنکھ کھلی۔ دروازے پر اس کے بچپن کے دوست مولوی ارشد کا بڑا بیٹا کھڑا تھا۔ راشد نے اسے بہت پیار سے اندر آنے کا کہا مگر اس نے کہا کہ اسے اور گھروں میں بھی مٹھائی تقسیم کرنے جانا ہے۔

لڑکا مٹھائی دے کر پلٹا تو راشد نے تیزی سے پوچھا: "ارے بھئی یہ مٹھائی کس خوشی میں بانٹ رہے ہو یہ تو بتا جاؤ؟"

"اللہ پاک نے ہمیں دو جڑواں بھائیوں سے نوازا ہے"۔ لڑکے نے ججھکتے ہوئے مڑ کر بتایا۔

"واہ بھئی واہ مبارک ہو، کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی مکمل کر لیے تمہارے ابا نے"۔ راشد نے قہقہ لگایا۔

"آہستہ بولیں ابا نے سن لیا نا تو مار مار کر میری کمر لال کر دیں گے، کہتے ہیں کرکٹ شیطانی کھیل ہے اس سے بہتر ہے مسجد کی صفائی کرو"۔ لڑکے نے بتایا۔

"تمہارے ابا بھی نا" راشد کا قہقہ اس بار بلند تھا۔ "اسے کہنا وہ دن بھول گئے جب پرائمری سکول کے گراونڈ میں آدھی چھٹی فیلڈنگ کرتے اور باری آنے کے انتظار میں مارا مارا پھرتا تھا"۔

بچے نے حیرت سے سنا اور پھر یہ کہہ کر بھاگ گیا: "نا بابا نا پچھلی بار میں نے صرف اتنا کہا تھا کہ مجھے بھی ہمسائے کے بنٹی جیسی فٹ بال لے دو تو اتنی زور سے کان مروڑا تھا کہ ایک کان بڑا ہوگیا اور ایک چھوٹا رہ گیا ہے"۔

Check Also

Liaqat Ali Ki Fasoon Sazi

By Ilyas Kabeer