Thursday, 19 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Aqsa Gillani
  4. Aik Mehfil e Milad Ka Aankhon Dekha Haal

Aik Mehfil e Milad Ka Aankhon Dekha Haal

ایک محفل میلاد کا آنکھوں دیکھا حال

ہمارے گاؤں میں بچپن سے اب تک وقتاً فوقتاً مختلف گھروں میں محفل میلاد منعقد ہوتی رہتی ہے، جس میں ہر گھر کی خاتون کی ہر حال میں شرکت ناگزیر ہے۔ بھلے آپ ایامِ ماہواری میں ہوں یا عدت میں اس پاک محفل سے غیر حاضری کا کوئی عذر قابلِ قبول نہیں۔ عدم شرکت آپ کی دین سے دوری اور بے راہ روی کی سند خیال کی جاتی ہے۔

جس گھر میں یہ محفل منعقد ہوتی ہے اس گھر کی خواتین ہر گھر سے یوں برتن اکھٹا کرتی ہیں جیسے عہد قدیم میں آمر بادشاہ غریب عوام سے ٹیکس اکھٹا کرتے تھے اور اس لوٹ مار میں آپ کی برتنوں کی الماری سے وہ برتن بھی دھر لیے جاتے ہیں جنہیں آپ اپنی اوقات سے قیمتی سمجھ کر خود بھی استعمال نہیں کرتے۔ محفل کے بعد بارہ پلیٹیں اگر دس ہو کر لوٹیں تو شکر کا مقام ہے۔ برتنوں کی گمشدگی پر اس دیس میں یوں بھی شکوہ غیر ضروری ہے کہ جہاں پر انسانی گمشدگی کا نوٹس لینے والے بھی ناپید ہیں۔

محفل میلاد کی ابتداء بھی دو قومی نظریے کی طرح گھر میں پہلے مہمان کی آمد سے ہو جاتی ہے۔ مہمان اگر خاص ہو تو تسبیح اور سورہ یاسین پیش کی جاتی ہے اور اگر کم حیثیت ہے تو چھری اور پیاز کا تحفہ ملتا ہے۔

خواتین کی آمد آمد ہے کوئی سورہ یاسین پڑھ رہی ہے اور کوئی سورہ فاتحہ لیکن سب کی آنکھوں سے آنسو بہنا مشترک ہے کہ پیاز خاص و عام کی تفریق سے قاصر ہے۔

جب تعداد درجن سے تجاوز کر جاتی ہے تو نعت خوانی کی ابتداء ہوتی ہے اور گاؤں کی جوان لڑکیاں نعت پڑھتی ہیں۔ تمام آنٹیاں پڑھنے والی کے ساتھ ساتھ پڑھتی ہیں اور جوش میں کئی حادثات رونما ہو جاتے ہیں۔ کبھی ساتھ دینے والیاں پڑھنے والی سے آگے نکل جاتی ہیں اور کبھی پڑھنے والی بھول کر ایک نعت سے دوسری نعت میں آٹومیٹک سوئچ کر جاتی ہے۔

اب تعداد پچاس کے قریب پہنچتی ہے اور بیشتر کے گلے بیٹھ چکے ہیں اتنے میں میلاد پڑھنے والی صاحبہ اپنے لاوڈ سپیکر سمیت اپنی سفید کار میں نہایت سادگی سے تشریف لاتی ہیں۔ باقی سب چٹائی پر بیٹھی ہیں لیکن میلاد پڑھنے والی کے لیے نو بیاہتا لڑکی کے جہیز کا صوفہ بطور خاص رکھا جاتا ہے۔

اب اگربتیوں کی مہک ہے، سبحان اللہ کا شور ہے اور ہر عورت اٹھ اٹھ کر میلاد والی کے سامنے دھرے میز پر پیسے رکھنے اور ہاتھ ملانے کی کوشش کرتے ہوئے کئی پیر اور ہاتھ روند ڈالتی ہے اور یہ سلسلہ گھڑی کی سوئی کی طرح تب تک نہیں رکتا جب تک سیل ختم نہ ہو جائے۔

میلاد والی باجی پیغمبر ﷺ کی بچوں سے محبت کے واقعات سنا رہی ہے اور میلاد میں بیٹھی مائیں میز پر دھرے فروٹ اور پکوانوں کی حسرت میں بلکتے بچوں کو گھورنے، مارنے اور جھاڑنے میں مشغول ہیں کہ نامراد کہیں چین نہیں لینے دیتے ہمیشہ کے بھوکے اور بے صبرے۔

آخر میلاد والی خاتون، خواتین کے دھیمے پڑتے جوش سے پیٹ میں دوڑتے چوہوں کا اندازہ لگا لیتی ہے اور سب عورتیں کھڑے ہو کر سلام پڑھتی ہیں۔ اگر کوئی نو وارد یہ منظر اچانک دیکھ لے تو یقیناً یہی سمجھے کہ یہ عورتیں نمازِ جنازہ سے ملتی جلتی کوئی رسم ادا کر رہی ہیں۔

سلام ختم ہوتے ہی میلاد والی خاتون کو فوراً کمرے میں منتقل کر دیا جاتا ہے جہاں سپیشل ست رنگے پکوان منتظر ہیں۔

دوسری طرف کچھ تجربہ کار خواتین تھال اٹھاتی ہیں اور فروٹ بانٹنا شروع کرتی ہیں۔ ایک خاتون سوجی کے برتن سے ڈھکن اٹھا کر با آواز بلند کہتی ہیں سبحان اللہ دیکھیں اس پر کلمہ لکھا ہوا ہے۔ سوجی پر کچھ لکھا جانا اس بادل کی طرح ہے جو امیجنیشن میں مبتلا کے لیے اس کا من پسند روپ دھار لیتا ہے لیکن عام اور تندرست لوگوں کو بے ہنگم بادل ہی نظر آتا ہے۔

سب کے سامنے حلیم رکھا جا چکا ہے لیکن کہیں روٹی ناپید ہے اور کہیں پانی۔

ایک خاتون روٹیاں تقسیم کر رہی ہیں اور جب ایک خاتون روٹی کے لیے ہاتھ پھیلاتی ہیں تو اچانک فروٹ بانٹتی عورت اس کے ہاتھ پر نصف کیلا رکھ دیتی ہے۔

محفل کے باقاعدہ اختتام پر خاص مہمان گھر والوں کے لیے لنگر کا پارسل دے کر روانہ کیے جاتے ہیں اور باقیوں کو چٹائی جھاڑنے اور برتن دھو کر ثواب کمانے کا شرف بخشا جاتا ہے۔

نوٹ: یہ تحریر مزاح اور آب بیتی کے ضمن میں لکھی گئی ہے جس کا مقصد کسی مذہب، فرقے یا رسم کی تضحیک یا مخالفت ہرگز نہیں (احترام اور محبت سب کے لیے)۔

Check Also

Arab Mein Molud Un Nabi (1)

By Mansoor Nadeem