Sports Maryam Nawaz Hukumat Ki Tarjeeh Hi Nahi
سپورٹس مریم نواز حکومت کی ترجیح ہی نہیں
لاہور 1985 سے مسلم لیگ ن کا گڑھ رہا ہے، پی ٹی آئی نے 2018ء میں لاہور میں اس گڑھ کو نقب لگا دی تھی جس کے بعد مسلم لیگ ن کو بہت محنت کرنا پڑی اور 2024ءکے الیکشن میں ن لیگ نے اپنا گڑھ پھر مضبوط کرلیا اور لاہور سے کافی زیادہ سیٹیں جیت کر اپنی پوزیشن مضبوط بنالی اور تاریخ میں پہلی بار پنجاب کی وزیراعلی ایک خاتون کو بنایا گیا جو کہ مسلم لیگ ن کے قائد کی بیٹی مریم نواز ہیں۔
مریم نواز کے وزیراعلی بننے کے بعد ان کا مقابلہ تحریک انصاف اور بانی پی ٹی آئی عمران خان کے وسیم اکرم پلس یعنی عثمان بزدار کو وزیراعلی بنایا گیا سے کیا جا رہا ہے حالانکہ مریم نواز کا اس ڈمی وزیراعلی سے مقابلہ ہے ہی نہیں۔ عثمان بزدار کو اس کا ماسٹر عمران خان ایک ماہ کا ہوم ورک دیکر جاتا تھا اور ہر مہینے آکر اس کا ہوم ورک چیک کرتا اور کام کے مطابق نمبر دیکر اگلا ہوم دے دیتا تھا جبکہ مریم نواز خودمختار وزیراعلی ہیں اور وہ رہنمائی اپنے والد اور تین بار ملک کے وزیراعظم رہنے والے نوازشریف سے لے رہی ہیں جس کی وجہ سے ان کے کاموں کو ملک بھر میں سراہا جا رہاہے۔
ان کی کارکردگی کی وجہ سے پیپلزپارٹی کے سندھ کے وزیراعلی سید مراد علی شاہ کی وزارت اعلی خطرے میں پڑ گئی ہے حالانکہ مراد علی شاہ ایک تجربہ کار سیاستدان ہیں، جیسا میں نے اوپر لکھا ہے کہ مریم نواز کا مقابلہ عثمان بزدار یا مراد علی شاہ سے کیا ہی نہیں جاسکتا ان کا مقابلہ اپنے چچا شہباز شریف سے ہے جو تین بار پنجاب کے وزیراعلی رہے ہیں۔ شہبازشریف نے پنجاب میں مسلم لیگ ن کو اپنے بھائی نوازشریف کے ویژن کے مطابق پارٹی کا مضبوط قلعہ بنادیا ہے جو کہ اب تک قائم و دائم ہے۔
شہباز شریف کے منصوبوں کی شہرت نہ صرف اور پاکستان بلکہ چین و دیگر ممالک میں بھی ہے۔ مریم نواز کو اپنے چچا سے بہتر کارکردگی دکھانے کا چیلنج ہے جس پر وہ ابھی تک پورا اتر رہی ہیں، پہلے دن سے ہی ان کے کام نے ثابت کردیا تھا کہ اگر وہ پانچ سال پورے کرگئیں تو لوگ پنجاب میں شہباز شریف کو بھول جائیں گے۔ مریم نواز کے مختصر عرصے کے کام کی تفصیل بتانے کی ضرورت نہیں، ایک کالم نگار کا کام حکومت اور وزیراعلی تک ان امور کی طرف توجہ مبذول کرانا ہوتا جو حکومتی وزیراعلی کی بدنامی کا باعث بن رہے ہوتے ہیں۔
درباری صحافت کبھی نہیں کی نہ ہی حکمرانوں کے دربار میں کبھی حاضری دی ہے، مریم نواز نے جب کابینہ تشکیل دی تو خوشی ہوئی کہ انہوں نے نوجوانوں کو کابینہ میں اچھی خاصی جگہ دی، اس حوالے سے میری نظر میں سب سے بہترین کارکردگی وزیرتعلیم رانا سکندر حیات ہے۔ ان کے کام سے لگ رہا ہے کہ وہ تعلیم کا شعبہ ایک دو سالوں میں بھی پٹڑی پر چڑھا دیں گے اور سرکاری سکولوں کا امیج بہتر کردیں گے۔
مریم نواز نے کھیلوں اور امور نوجوانان کی وزارت بھی ایک نوجوان کو دی جو مسلم لیگ ن کے لاہور کے صدر ایم این اے ملک سیف الملوک کھوکھر کے بیٹے فیصل کھوکھر ہیں، ان کی کارکردگی نے بہت مایوس کیا ہے، محکمہ سپورٹس کا سپورٹس بورڈ پنجاب کافی عرصہ سے مالی بحران کا شکار چلا آرہا ہے، افسران کی مالی اور انتظامی امور میں نااہلی کی وجہ سے سپورٹس بورڈ پنجاب دن بدن کمزور ہو رہا ہے۔
فیصل کھوکھر نے جب وزارت سنبھالی تو ملازمین کو دو ماہ کی نتخواہ نہیں ملی تھی جس کی وجہ سے ملازمین نے کئی روز مظاہرے کئے جس کے بعد بورڈ کو معمولی سے فنڈز دیکر ٹرخا دیاگیا۔ فنڈز ملنے کے بعد ملازمین کو دو ماہ کی تنخواہ دی گئی۔ افسران کی نااہلی کا یہ عالم ہے کہ نگران حکومت نے بنیادی تنخواہ 25 ہزار روپے سے بڑھا کر 32 ہزار روپے کردی تھی مگر ملازمین کو کافی عرصہ تک 25 ہزار روپے ہی ملتی رہی، فنڈز ملنے پر ملازمین کو بقایاجات دیدئے۔
یہاں یہ بات بھی وزیراعلی مریم نواز کیلئے باعث فکر ہے کہ انہوں نے پہلے بجٹ میں ہی عوامی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے بنیادی تنخواہ 37 ہزار روپے کردی مگر ملازمین کو پرانی تنخواہ 32 ہزار روپے ہی دی جا رہی ہے۔ وزیراعلی نے پہلی پنک گیمز میں انعامی رقم پچاس لاکھ روپے سے بڑھاکر ایک کروڑ تو کردی مگر اس تقریب میں بورڈ ملازمین کو کچھ نہ دیا جس سے ان کی مشکلات کم ہوسکتیں۔
اگست میں بھی فنڈز نہ ہونے کے باعث ملازمین کو تنخواہ دس ستمبر کو دی گئی اور اس کے ساتھ ہی سالوں پرانے 20 ملازمین کو نوکریوں سے نکال دیا گیا، اس سے قبل سفارش پر دس سے زائد ملازمین بھی بھرتی کرلئے، پرانے ملازمین کو نکال کر نئے سفارشی افراد کو بھرتی کرنا کہاں کا انصاف ہے، اب یکم اکتوبر کو سپورٹس بورڈ پنجاب نے ڈیلی ویجز، پیکیج اور انگیجمنٹ ملازمین کی کمپیوٹر پر حاضری بند کردی اور کہا گیا کہ تمام ملازمین فارغ کردیئے گئے ہیں جس پر ملازمین نے وزیر کھیل فیصل کھوکھر کے سامنے احتجاج کیا تو انہوں نے اس معاملے پر لاعلمی کا اظہار کیا بعد میں ملازمین کو کہا گیا کہ کام کریں جب فنڈز ملیں گے تو تنخواہ دے دیں گے۔
آج کے دن تک ملازمین کو تنخواہ نہیں ملی، مریم نواز کی حکومت میں سرکاری ملازمین سے ایسا سلوک انکی شہرت کو نقصان پہنچانے کی ایک سازش ہے جب پورے پنجاب کے سرکاری محکموں میں ڈیلی ویجز اور پیکیج ملازمین کام کررہے ہیں تو سپورٹس بورڈ پنجاب کے ملازمین سے امتیازی سلوک کیوں کیا جا رہا ہے۔ بورڈ افسران کی نااہلی، نالائقی اور غفلت کا یہ عالم ہے کہ ڈیلی ویجز اور پیکیج ملازمین دس، بارہ سالوں سے کام کررہے ہیں مگر ان کو نہ تو کنٹریکٹ دیاگیا نہ ہی ریگولر کرنے کیلئے کوئی کوشش کی گئی۔
بزدار حکومت کے وزیر کھیل رائے تیمور بھٹی نے سینکڑوں ملازمین کو ریگولر کیا تھا، فنڈز کا استعامل بورڈ اپنے اللے تللوں پر تو کرتا رہا، سابق ڈی جی سپورٹس پنجاب آصف طفیل نے مشیرکھیل کیلئے مختص کمرہ اپنے دفتر میں شامل کرکے اسکی تزئین و آرائش پر لاکھوں روپے خرچ کردیئے جس کی کوئی ضرورت نہ تھی مگر ملازمین کیلئے کچھ نہ کیا اور ایک سو سے زائد ملازمین کو نکال دیا جو دس، بارہ سالوں سے کام کررہے تھے۔
افسر شاہی کے ایسے نالائق اور نااہل افسروں کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے، موجودہ وزیر کھیل فیصل کھوکھر کی اپنے محکمے سے دلچسپی کا یہ عالم ہے کہ وہ ہفتے بعد دفتر آتے ہیں اور اپنے حلقے کے لوگوں سے مل کر ٹک ٹاک بنا کر چلے جاتے ہیں، اس کا ثبوت یہ ہے کہ ملازمین جب ان سے ملے اور بتایا کہ ستمبر کی تنخواہ اور حاضری بند کردی گئی تو انہوں نے اس معاملے پر لاعلمی کا اظہار کیا۔
اس وقت بورڈ ملازمین شدید پریشانی اور بے چینی میں مبتلا ہیں، ملازمین کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ن جب بھی اقتدار میں آتی ہے کہ تو عوام سے روز گار چھینتی ہے۔ ایک افسر نے بتایا کہ اکتوبر میں ملازمین کی حاضری اس لئے بند کی کہ ایسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے نوٹیفکیشن جاری کیا ہے کہ رائٹ سائزنگ کے تحت تمام ڈیلی ویجز، پیکیج اور انگیجمنٹ ملازمین کو فوری طورپر فارغ کردیا جائے، اس لئے سپورٹس بورڈ پنجاب نے یہ قدم اٹھایا ہے مگر پنجاب حکومت کی جانب سے ایسا کوئی نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا گیا اور سوائے سپورٹس بورڈ پنجاب کے کسی محکمے سے ڈیلی ویجز نکالنے کی کوئی خبر کہیں نہیں ہے۔
سپورٹس بورڈ پنجاب کو بند کرنا بہت بڑی زیادتی ہوگی کیونکہ اسی سپورٹس بورڈ پنجاب نے شہبازشریف کی وزرات اعلی کے دور میں سپورٹس کو عروج پر پہنچایا تھا اور پنجاب یوتھ فیسٹیول منعقد کرایا تھا جس میں لاکھوں بچوں نے حصہ لیا تھا جہاں سے ارشد ندیم جیسے ہیرو اور بلیئرڈ کے عالمی چیمپئن نکلے ہیں۔ سپورٹس بورڈ پنجاب کے چند افسروں کی نااہلی اور وزیرکھیل کی عدم دلچسپی کی وجہ سے سپورٹس بورڈ پنجاب کو بند کرنا یا فنڈز نہ دینا مریم نواز کی حکومت کی نیک نامی کا باعث نہیں بنے گی۔
2014ءمیں شہباز حکومت نے سپورٹس بورڈ پنجاب کو 7کروڑ روپے کے فنڈز دیئے تھے جس کے بعد کوئی خطیر رقم نہیں دی گئی اور جو رقم ملتی تھی وہ افسران اپنی موج مستی پر خرچ کرتے رہے، حال ہی میں سمر کیمپس کے انعقاد کے بعد بورڈ کے چہیتے ملازمین کو خصوصی بونس دیا گیا جس طرح فنڈر لٹایا جاتا ہے اس سے سپورٹس کو فروغ نہیں دیا جاسکتا۔ حد تو یہ ہے کہ ایک سیٹ پر دو، دوافسر کام کررہے ہیں۔
ہمارا کام تھا وزیراعلی کو ان معاملات کی نشاندہی کرنا کہ مریم نواز بے خبرے تیرے ڈوبیا ای محکمہ سپورٹس۔۔ اب وزیراعلی کا کام ہے کہ وہ اس معاملے کا نوٹس لیں اور سپورٹس بورڈ پنجاب سے نااہل افسر فارغ کئے جائیں، سپورٹس کی ترقی یقیناً مریم نواز کی حکومت کیلئے نیک نامی کا باعث بنے گی۔