Sunday, 29 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Anjum Kazmi
  4. Islami Dating APP Ya Dhanda

Islami Dating APP Ya Dhanda

اسلامی ڈیٹنگ ایپ یا دھندہ

برطانیہ سے چلائی جانے والی ایک اسلامی ڈیٹنگ ایپلی کیشن "م ز" نے پاکستان کی تاریخ میں ایک عجیب ایونٹ لاہور میں منعقد کرایا ہے جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی جس پر معاشرے میں بحث ہو رہی ہے کہ ایسا ایونٹ ہماری اسلامی اور مشرقی روایات کے مطابق ہے یا منافی، یہ ایپ مسلمان ممالک اور مسلم کمیونٹی میں زیادہ مقبول ہے، پاکستان میں مذکورہ ایپ کے استعمال کرنےوالوں کی تعداد 15 لاکھ تک ہے جو کہ مراکش کے بعد سب سے زیادہ تعداد ہے۔

"بین الاقوامی خبر رساں ادارے رائٹرز نے خبر دی کہ چند روز قبل لاہور میں ایک "منفرد" ایونٹ منعقد کیا گیا جس میں غیر شادی شدہ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں نے تنہا ایک دوسرے سے ملاقات کرکے اپنے مستقبل کا شریک سفر تلاش کرنے کی کوشش کی، ایونٹ میں 20 سے 35 سال کی عمر کے 100 لڑکوں اور لڑکیوں نے شرکت کی جو اپنے شریک حیات تلاش کرنے آئے تھے، اس ایونٹ کی منتظمین صرف خواتین تھیں، انہوں نے ایپ کے ذریعے ایونٹ میں شامل ہونے کی خواہش ظاہر کی تھی، ایونٹ میں یونیورسٹی کی طالبات سے لےکر پروفیشنل کیریئر میں تجربہ رکھنے والی لڑکیوں سمیت لڑکوں نے بھی شرکت کی اور انہوں نے ڈیٹنگ ایپ پر ملنے والے ساتھیوں سے براہ راست ملاقات کرکے مستقبل کے جیون ساتھی کو تلاش کرنے کی جانب قدم بڑھایا۔

ایونٹ میں شامل ہونے والی ایمن نامی ایک لڑکی نے بتایا کہ انہیں مذکورہ ایپلی کیشن کو استعمال کرنے کا مشورہ ان کے بھائی نے دیا تھا جو کہ امریکا میں مقیم ہیں، وہ کچھ عرصے سے ایپ پر استعمال کر رہی ہیں اور انہوں نے چند لڑکوں سے روابط بھی کیے، ایک لڑکے نے بتایا کہ وہ کچھ عرصے سے ایپلی کیشن کو استعمال کر رہے ہیں تاہم ان سے ایپ پر رابطہ کرنے والی زیادہ تر لڑکیوں نے پہلے دن سے ہی والدین کو معاملات میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا جس پر ان کی کسی سے بات نہ بن سکی، مذکورہ ایپلی کیشن کا دعویٰ ہے کہ وہ مکمل طور پر اسلامی اور پاکستانی روایات کے مطابق لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان تعلقات اور روابط کو فروغ دیتی ہے"۔

لوگ پیسہ بنانے کیلئے کیسے کیسے کام کرتے ہیں اور اس کو پاک بنانے کیلئے "اسلامی ٹچ" بھی دیتے ہیں، ایپ والوں کا دعوی ہے کہ اسلامی اور پاکستانی روایات کے مطابق تعلقات اور روابط کو فروغ دیتے ہیں، نہیں معلوم یہ کون سا اسلام ہے جس کے تحت لڑکی کو نامحرم لڑکے سے تعلقات بنانے اور روابط بنانے کی نہ صرف تبلیغ بلکہ جگہ بھی فراہم کی جاتی ہے، اس میں پاکستان کی روایات کا ٹچ بھی دیا گیا ہے، کوئی پڑھنے والا مجھے بتا سکتا ہے کہ 77 سالہ ملکی تاریخ میں ہماری کون سی ایسی روایات رہی ہیں جو کو یہ ایپ فروغ دینے کا فریضہ سرانجام دینے کی کوشش کر رہی ہے۔

شادی ایک انتہائی پاکیزہ اور محترم بندھن ہے جس میں صرف دو جسموں کا ملاپ ہی نہیں ہوتا بلکہ دو خاندان ملتے ہیں، اسی جوڑے نے نئی نسل پیدا کرنا ہوتی ہے، معاشرے میں ایک باعزت مقام بنانا ہوتا ہے، یہ کوئی ایک دو دن یا ایک دو سالوں کا بندھن نہیں ہوتا، مرتے دم تک ایک دوسرے سے پیارو محبت، دکھ، سکھ بانٹنا ہوتا ہے، پاکستانی روایات تو یہ ہیں کہ شادی سے پہلے لڑکے اور لڑکی والے ایک دوسرے کے شجرہ نسب تک کھنگال ڈالتے ہیں، خاص طور پر سادات کا بڑا مسئلہ ہے کہ لڑکی اگر سید زادی ہے تو لڑکا بھی حسبی نصبی سید ہونا ضروری ہوتا ہے، کوئی بھی خاندان اگر خالص ہوگا تو کہیں نہ کہیں ان کا شجرہ مل جائے گا، یہ ایپ والے کن روایات کی بات کرتے ہیں، اسلام نے شادی کے حوالے سے جو آزادی دی ہے ان پر بھی پاکستانی روایات کے مطابق عمل کرنا مشکل ہے۔

اسلام نے لڑکے اور لڑکی کو اپنی پسند سے جیون ساتھی چننے کی اجازت دی ہے مگر کیا پاکستانی روایات میں ایسا ممکن ہے اگرچہ بہت کچھ بدل گیا ہے مگر پاکستانی ابھی اتنے بھی نہیں بدلے، ڈان کی ویب سائٹ پر جو خبر پوسٹ کی گئی اس میں لکھا ہے کہ پاکستان جیسے اسلامی ملک میں شادیوں کے اکثر معاملات خاندانوں کے درمیان ہی طے ہوتے ہیں تاہم گزشتہ کچھ سال سے پسند کی شادیوں کے بڑھتے رجحانات کو دیکھتے ہوئے رشتے کرانے والی آنٹیاں اور میریج بیوروز دوسرا متبادل ہوتے ہیں لیکن پہلی بار لڑکوں اور لڑکیوں نے اپنے شریک حیات کے انتخاب کے معاملات براہ راست اپنے ہاتھ میں لیے ہیں۔

بات یہ ہے کہ یہ نوبت کیوں آئی، رشتہ والی ایپ اور ویب پر بھی والدین ہی بات چیت کرتے ہیں، آج تک یہ نہیں ہوا کہ کوئی ایپ والا یا ادارہ اس طرح لڑکے اور لڑکیوں کو تنہائی میں ملنے کا موقع فراہم کرے، جدید دور میں سوشل میڈیا پر کئی معاملات سیٹ ہوجاتے ہیں اور اکثر دیکھا گیا ہے کہ پھر والدین کو شامل کرکے شادی کے معاملات طے کرلئے جاتے ہیں، خبر میں ایک لڑکا ہی اعتراف جرم کررہا ہے کہ بات چیت چلی مگر والدین کو شامل کرنے کی شرط پر بات آگے نہیں بڑھ سکی۔

ایپ نے جو کام کیا ہے وہ کوئی سماجی بھلائی (سوشل ویلفیئر) کا نظر نہیں آتا، یہ ایک سیدھا سیدھا ایک دھندہ لگتا ہے جس کی اسلامی کوٹنگ کی گئی ہے، خبر میں یہ نہیں بتایا گیا کہ ایپ انتظامیہ نے ڈیٹنگ کیلئے "جگہ" دینے کیلئے کتنی رقم وصول کی، لڑکی یا لڑکے سے یا پھر دونوں سے الگ الگ وصول کی، ظاہر ہے کہ یہ کام فی سبیل اللہ تو نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ایک سو جوڑوں کو تنہائی فراہم کرنا اتنا آسان نہیں جہاں ان کی پرائیویس میں خلل نہ پڑے اور اگر فی سبیل اللہ کیا بھی ہے تو بہتر تھا کہ شرط یہ رکھی جاتی ہے کہ لڑکا اور لڑکی اپنے معاملات طے کرلیں اور ایپ والے دونوں کے والدین کے ساتھ ملنے کیلئے جگہ فراہم کریں گے اس صورت میں یہ کچھ قابل قبول ہوسکتا تھا۔

کہتے ہے گندا ہے مگر دھندہ ہے، دھندے میں گندا اچھا نہیں دیکھا جاتا بس کمائی ہونی چاہئے، ڈیٹنگ کرانے والے عملہ میں تمام خواتین شامل تھیں یہ اور بھی گھناؤنا کام ہے، کئی فلمیں اور ڈرامے بن چکے ہیں کہ دارلامان میں پناہ لینے والی لڑکیوں سے دھندہ کرایا جاتا ہے اور وہاں کی ایڈمنسٹریٹر خاتون ہی ہوتی ہے، اس "دھندے" پر پوری کتاب لکھ سکتا ہوں، کیونکہ

عمر گزری ہے اس دشت کی سیاہی میں۔۔

بطور صحافی بہت سے واقعات اپنی آنکھوں سے دیکھے اور بہت سی خبریں شائع کیں کہ کس طرح ملاقات جدید دور کا لفظ ڈیٹنگ کے لئے کیا کیا کام کرتے ہیں، شاید پڑھنے کی والوں کی بڑی تعداد اس بات سے بے خبر ہو کہ اس دھندے میں لڑکیاں، لڑکے اور دوسرے شہروں میں ملازمتیں کرکے خود مختار رہنے کی شوقین خواتین شامل ہیں، اس دھندے سے کئی تو ماہانہ لاکھوں روپے کماتی ہیں، ان کیلئے یہ نام نہاد اسلامی ڈیٹنگ ایپ بہت کارآمد ثابت ہوسکتی ہے مگر پاکستانی معاشرے کیلئے نہیں۔

آج کے دور میں ہر گھر کے بچے اور بچی کے ہاتھ میں موبائل ہے، اس طرح کے گھناؤنے کام کرنیوالی ایپس نئی نسل کو تباہی کی طرف لے جائیں گی، ایپ انتظامیہ بتا سکتی ہے کہ "ملاقات" کرنے کیلئے آئی لڑکیاں گھر میں والدین سے اجازت لیکر آئی تھیں اور ان کو مطلع کیا تھا، ایپ انتظامیہ نے جہاں جگہ فراہم کی وہاں سے نئی نئی کہانیاں جنم لے سکتی ہےں کیونکہ معاشرے میں ایسی بہت سی کہانیاں موجود ہیں کہ شادی کا بہانہ بنا کر لڑکی کے جسم سے مزے لیتا رہا پھر مُکر گیا تو لڑکی نے لڑکے کیخلاف مقدمہ درج کرادیا، یہاں ایک خبر بتادوں کہ کئی سال قبل پاکستان کے ایک بڑے ٹی وی چینل کی ایک نیوز اینکر اپنے ہی ڈائریکٹر نیوز کے خلاف مقدمہ درج کرانے کراچی کے تھانہ پہنچ گئی تھی جس میں الزام لگایا تھا کہ ڈائریکٹر نیوز شادی کا لارا لگا کر کئی سالوں سے میری عزت سے کھیل رہا ہے جس پر ٹی وی انتظامیہ نے معاملہ دبا دیا اور دونوں کو نوکریوں سے نکال دیا تھا۔

ایسی کہانیاں سنانے لگ گیا تو بلاگ ختم نہیں ہوا، پاکستان ابھی اتنا ترقی یافتہ نہیں ہوا کہ لڑکی اپنے والدین سے کہے کہ وہ اپنے بوائے فرینڈ کیساتھ ڈیٹ پر جارہی ہے، سماج کا درد رکھنے والے ان حرکتوں کے علاوہ کوئی اور فلاحی کام کرسکتے ہیں، ایسی ایپس کا پاکستان میں کھلے عام کام کرنا نہ صرف اسلام اور پاکستان کیخلاف ناپاک سازش ہے بلکہ ہماری بچیوں کو بے راہ روی کی جانب راغب کا مکروہ فعل ہے جس پر حکومت کو نوٹس لینا چاہئے اور ایسی ایپس پر پابندی لگانا چاہئے، والدین کو بھی اپنے بچوں پر گہری نظر رکھنی چاہئے تاکہ عمر بھر کا پچھتاوا نہ ہو۔

Check Also

Adam Tawazun (2)

By Rao Manzar Hayat