Ye Assembly Hai, Machli Bazar Nahi
یہ اسمبلی ہے، مچھلی بازار نہیں
اسمبلی کسی بھی جمہوری نظام کا سب سے اہم اور باوقار ادارہ ہوتا ہے، جسے قانون سازی، عوامی مسائل کے حل، اور حکومتی کارکردگی پر نظر رکھنے کے لیے بنایا جاتا ہے۔ گلگت بلتستان اسمبلی بھی انہی مقاصد کے تحت قائم ہوئی، اور ترقی کے منازل طے کرتے کرتے 2018 میں"گلگت بلتستان اسمبلی" کا نام پا گئی، تاکہ عوام کے مسائل کو اسمبلی کے پلیٹ فارم پر پیش کیا جائے اور ان کے حل کے لیے سنجیدہ اور متوازن قانون سازی کی جائے۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ بعض اوقات گلگت بلتستان کی اسمبلی کا ماحول ایسا منظر پیش کرتا ہے جو جمہوریت کی روح اور اسمبلی کے تقدس کے بالکل برعکس ہوتا ہے۔
اسمبلی میں منتخب نمائندوں کے جھگڑے، گالم گلوچ اور ہنگامہ آرائی نہ صرف عوام کی نظر میں ان کی ساکھ کو نقصان پہنچاتی ہے بلکہ اسمبلی جیسے اہم فورم کے وقار کو بھی مجروح کرتی ہے۔ آج کے جدید دور میں، ممبران اسمبلی کے سارے جھگڑے، لڑائیاں، ہاتھا پائیاں، گالم گلوچ اور غیر شائستہ رویوں پر مبنی افعال، ویڈیو کلپ بن کر سوشل میڈیا کے ذریعے پوری دنیا میں پھیل جاتے ہیں، جس سے ممبران اسمبلی سمیت پورے گلگت بلتستان کی تضحیک ہوجاتی ہے۔
میں گزشتہ کئی سالوں سے گلگت اسمبلی کے ماحول کا جائزہ لے رہا ہوں۔ کھبی کوئی کہتا ہے کہ اسمبلی کو بم سے اڑا دونگا تو کوئی راگ الاپتا ہے کہ اسمبلی کو تالا لگا دیا جائے گا، اس طرح کے تماشے ہر سیشن میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ان حالات میں یہ کہنا بجا ہوگا کہ بزرگو! "یہ اسمبلی ہے، مچھلی بازار نہیں! "
اسمبلی کا بنیادی مقصد عوام کے مسائل پر غور و خوض کرنا، قوانین بنانا، اور حکومتی کارکردگی کا جائزہ لینا ہے۔ یہ فورم اس بات کا ضامن ہے کہ عوام کی نمائندگی صحیح طریقے سے ہو اور ان کے مسائل کو حل کرنے کے لیے مناسب قانون سازی ہو۔ اسمبلی کے چند اہم مقاصد و ذمہ داریاں درج ذیل ہیں۔
قانون سازی: علاقے کی بہتری اور عوامی فلاح کے لیے نئے قوانین بنانا اور پرانے قوانین میں ضروری ترامیم کرنا۔
حکومتی پالیسیوں کا جائزہ: حکومتی منصوبوں اور پالیسیوں کی کارکردگی پر نظر رکھنا اور ان میں اصلاحات کے لیے تجاویز دینا۔
بجٹ کی منظوری: عوامی وسائل کے درست استعمال کے لیے بجٹ کی منظوری دینا اور اس کی نگرانی کرنا۔
عوامی مسائل پر بحث و مباحثہ: اسمبلی میں مختلف عوامی مسائل پر بحث کی جاتی ہے، جیسے امن و امان، مہنگائی، بے روزگاری، اور توانائی کے مسائل۔ اس مباحثے کا مقصد مسائل کو اجاگر کرنا اور ان کے حل کے لیے مؤثر اقدامات تجویز کرنا ہوتا ہے۔
وزراء کا احتساب: اسمبلی وزراء سے ان کی وزارتوں اور محکموں کے معاملات پر سوالات کرتی ہے اور ان کا احتساب کرتی ہے تاکہ عوامی مفاد میں بہتر حکمرانی کو یقینی بنایا جا سکے۔
انتظامی امور کی نگرانی: اسمبلی مختلف سرکاری اداروں اور محکموں کی کارکردگی کی نگرانی کرتی ہے، تاکہ یہ ادارے اپنے فرائض درست طریقے سے انجام دیں اور عوام کو بہتر سہولیات فراہم کریں۔
قومی پالیسیز کی تشکیل: اسمبلی میں مختلف پالیسیز کی تشکیل کی جاتی ہے جو ملک اور صوبے کی ترقی، اور عوامی مفاد کے لیے ضروری ہوتی ہیں، جیسے صنعتی پالیسی، تعلیمی پالیسی، اور زرعی پالیسی وغیرہ۔
تحقیقات اور کمیٹیاں: اسمبلی خصوصی کمیٹیوں کے ذریعے مختلف مسائل پر تحقیقات کرتی ہے، جیسے کرپشن کے معاملات یا اہم قومی منصوبوں کی کارکردگی کا جائزہ۔
عوامی درخواستیں اور شکایات: اسمبلی میں عوامی درخواستوں اور شکایات پر غور کیا جاتا ہے اور ان کے ازالے کے لیے اقدامات کیے جاتے ہیں۔
اس کے علاوہ بھی کئی اہم کام ہں جو ممبران اسمبلی نے انجام دینے ہوتے ہیں۔
اسمبلی کا وقار اور تقدس اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اس میں بیٹھنے والے ممبران اپنے رویے میں شائستگی، تحمل، اور سنجیدگی کو اپنائیں۔ عوام نے انہیں اس لیے منتخب کیا ہے کہ وہ ان کی آواز بنیں اور ان کے حقوق کا تحفظ کریں، نہ کہ ذاتی جھگڑوں اور سیاسی اختلافات کو بڑھاوا دیں اور اسمبلی کو لڑائی خانہ بنا دیں۔
اگر اسمبلی کے ممبران کسی قانون پر اختلاف رائے رکھتے ہیں، تو انہیں اپنی رائے پیش کرنے کا مکمل حق ہے، لیکن اس اختلاف کو شائستگی اور دلیل کے ساتھ پیش کیا جانا چاہیے۔ اسمبلی کے تقدس کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہر اختلاف رائے کو احترام سے سنا جائے اور ممبران ایک دوسرے کی بات کو سمجھنے کی کوشش کریں، نہ کہ ایک دوسرے پر ذاتی حملے کریں۔
تاریخ میں ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں جہاں سیاسی رہنماؤں نے اپنے شدید اختلافات کے باوجود شائستگی اور وقار کا مظاہرہ کیا۔ مثلاً، قائد اعظم محمد علی جناح اور پنڈت جواہر لال نہرو کے درمیان سیاسی نظریات میں واضح اختلافات تھے، لیکن دونوں رہنماؤں نے اپنے اختلافات کو شائستہ انداز میں پیش کیا اور کبھی ذاتی حملے نہیں کیے۔
ایک اور مثال برطانیہ کی پارلیمنٹ کی ہے، جہاں حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے درمیان شدید سیاسی اختلافات ہوتے ہیں، لیکن اس کے باوجود پارلیمنٹ میں ہمیشہ ایک خاص شائستگی اور وقار کو ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ برطانوی پارلیمنٹ میں ممبران اپنی تقریروں میں نہایت سنجیدگی اور دلیل کے ساتھ اپنے نقطہ نظر کو پیش کرتے ہیں اور دوسرے ممبران کو سننے کا حق دیتے ہیں۔
گلگت بلتستان اسمبلی کے لیے بھی ضروری ہے کہ ممبران اپنے اختلافات کو شائستگی کے ساتھ پیش کریں۔ جب ممبران اسمبلی کسی مسئلے پر اختلاف کریں تو دلیل اور منطق کا استعمال کو اپنا ہتھیار بنا لیں، ہر ممبر کو اپنی بات دلائل کے ساتھ پیش کرنی چاہیے، نہ کہ جذباتی اور غیر سنجیدہ انداز میں۔
شخصی حملے سے گریز لازم ہے۔ اختلاف رائے کو ذاتی دشمنی میں تبدیل نہیں کرنا چاہیے۔ ہر ممبر کو دوسرے کی شخصیت کا احترام کرنا چاہیے، چاہے وہ سیاسی مخالف ہی کیوں نہ ہو۔ تحمل اور بردباری بھی ضروری ہے۔ اختلافات کے باوجود تحمل کا مظاہرہ کرنا انتہائی اہم ہے۔ کسی ممبر کی رائے سے اتفاق نہ کرنے کے باوجود اسے سننا اور سمجھنا ایک اہم جمہوری اصول ہے۔
اسمبلی کے وقار کی بحالی کے لیے کچھ تجاویز، ممبران اسمبلی کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں تاکہ اس معزز ایوان کے وقار میں کمی نہ آئے۔ ان تجاویز پر عمل درآمد کے بعد ممکن ہے کہ یہ محترم ایوان اپنی افادیت کو قائم رکھ سکے۔
تربیتی ورکشاپس: اسمبلی کے ممبران کے لیے تربیتی ورکشاپس کا انعقاد کیا جائے، جن میں انہیں قانون سازی کے اصول، پارلیمانی آداب، اور عوامی خدمت کے فرائض سے آگاہ کیا جائے۔
نظم و ضبط کے قوانین: اسمبلی میں نظم و ضبط برقرار رکھنے کے لیے سخت قوانین بنائے جائیں تاکہ کوئی ممبر ذاتی مفادات کی خاطر اجلاس کا ماحول خراب نہ کرے اور اگر قوانین پہلے سے موجود ہیں تو ان پر یقینی طور پر عملدرآمد کروایا جائے۔
مثالی رہنما: اسمبلی کے قائدین کو اپنا کردار مثالی بنانا ہوگا تاکہ وہ دیگر ممبران کے لیے مشعل راہ ثابت ہوں۔ اگر قائدین خود شائستگی اور سنجیدگی کا مظاہرہ کریں گے تو دیگر ممبران بھی ان کے نقش قدم پر چلیں گے۔ اگر اہم قائدین خود گرمی ماحول کی ریت ڈالیں گے تو ممبران بھی اسی نہج پر چلیں گے۔
ضابطۂ اخلاق کی پابندی: ممبران اسمبلی کو ضابطۂ اخلاق کی سختی سے پیروی کرنی چاہیے تاکہ اسمبلی کی کارروائی باوقار اور مہذب رہے۔ پارلیمانی آداب کا احترام ضروری ہے۔
حاضری کو یقینی بنانا: ممبران کو اپنی ذمہ داری کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے اسمبلی اجلاسوں میں باقاعدگی سے شرکت کرنی چاہیے تاکہ اہم مسائل پر بحث و مباحثہ میں ان کا کردار مؤثر ہو۔
تعمیری مباحثہ: ممبران کو سیاسی مخالفت سے بالا تر ہو کر تعمیری بحث و مباحثے میں حصہ لینا چاہیے تاکہ اسمبلی کے فیصلے عوامی فلاح و بہبود کے مطابق ہوں اور ملک کی ترقی میں معاون ثابت ہوں۔
بلا جواز ہنگامہ آرائی سے گریز: اسمبلی کے وقار کو برقرار رکھنے کے لیے ممبران کو بے مقصد ہنگامہ آرائی یا اسمبلی کی کارروائی میں رخنہ ڈالنے سے گریز کرنا چاہیے۔
عوامی مسائل پر توجہ دینا: ممبران کو ذاتی یا جماعتی مفادات کے بجائے عوامی مسائل اور قومی مفاد کو ترجیح دیتے ہوئے اپنی تقاریر اور اقدامات کو موثر بنانا چاہیے۔
معلومات اور تحقیق کی بنیاد پر بات کرنا: اسمبلی میں زیر بحث آنے والے مسائل پر گہرائی سے تحقیق اور معلومات کی بنیاد پر بات کرنی چاہیے تاکہ بحث تعمیری اور مفید ہو۔
باہمی احترام اور تعاون: اسمبلی کے ممبران کو ایک دوسرے کا احترام کرتے ہوئے باہمی تعاون اور گفتگو کے ذریعے معاملات کو حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، تاکہ اسمبلی کا ماحول خوشگوار اور وقار والا ہو۔
شفافیت اور جوابدہی: ممبران کو عوام کے سامنے اپنی کارکردگی کے حوالے سے جوابدہ رہنا چاہیے اور اپنے فیصلوں اور اقدامات میں شفافیت کو یقینی بنانا چاہیے۔
تعلیم اور تربیت: اسمبلی کے ممبران کو پارلیمانی طریقہ کار اور قانون سازی کے عمل میں مزید بہتری کے لیے مزید تعلیم اور تربیت حاصل کرنی چاہیے تاکہ وہ اپنے فرائض کو بہتر طریقے سے نبھا سکیں۔
میڈیا کے ساتھ مثبت تعلقات: ممبران کو میڈیا کے ساتھ مثبت اور تعمیری تعلقات استوار کرنے چاہئیں تاکہ اسمبلی کی کارکردگی اور فیصلے عوام تک مؤثر طریقے سے پہنچ سکیں۔
یہ چند تجاویز محترم ممبران اسمبلی کو نہ صرف اپنی ذمہ داریوں کو بہتر طریقے سے نبھانے میں مدد دے سکتی ہیں بلکہ اسمبلی کے وقار کو بھی بڑھا سکتی ہیں۔ امید ان باتوں کو سنجیدگی سے لیا جائے گا۔
اسمبلی ایک مقدس اور جمہوری ادارہ ہے، جس کا تقدس اور وقار ہر ممبر کی ذمہ داری ہے۔ اگر اسمبلی میں گالم گلوچ، ایک دوسرے پر حملے، جھگڑے، اور غیر شائستہ رویے جاری رہے تو عوام کا اس ادارے پر سے اعتماد اٹھ جائے گا۔ عوام اپنے منتخب نمائندوں سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ ان کے مسائل کو حل کرنے کے لیے سنجیدگی اور شائستگی سے کام کریں گے، نہ کہ ذاتی اختلافات کو بڑھاوا دیں گے۔
معزز ممبران اسمبلی کو یاد رکھنا چاہئے کہ یہ اسمبلی ہے، مچھلی بازار نہیں!