Wafadari Ke Badle Insaf Ki Zaroorat
وفاداری کے بدلے میں انصاف کی ضرورت
گلگت بلتستان کے لوگوں کے لیے ایک اہم سوال یہ ہے کہ ان کا وطن کہاں ہے؟ اگرچہ وہ خود کو پاکستان کا حصہ تصور کرتے ہیں اور پاکستان کے ساتھ اپنی وابستگی اور محبت کا اظہار کرتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ گلگت بلتستان ان کا اصل وطن ہے۔ یہ وہ سرزمین ہے جہاں وہ پیدا ہوئے، پلے بڑھے، اور جہاں ان کے آبا و اجداد کی قبریں ہیں۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں کی مٹی، دریا، پہاڑ اور ہوائیں ان کی شناخت کا حصہ ہیں۔ گلگت اور بلتستان کے لوگوں کا ہزاروں سال سے اپنی وطن مالوف کیساتھ گہرا تعلق اور جذباتی وابستگی ہے اور یہ وابستگی کسی مفاد یا معاہدہ کا مرہون منت نہیں، یہ مکمل فطری ہے۔
پاکستان کی ریاست سے ان کا تعلق ایک مفاداتی تعلق ہے، یہ تعلق ریاست پاکستان کے وجود ممیں آنے کے بعد بنا ہے۔ پاکستان ایک قومی ریاست ہے جس کا وجود 1947 کو ممکن ہوا ہے اور گلگت بلتستان کا پاکستان کے ساتھ ساتھ تعلق نومبر 1947 اور اگست 1948 کو کچھ امیدوں، مفادات اور ھمدردی اور دینی جذبے کی بنیاد پر قائم ہوا ہے۔
قومی ریاستوں کے ساتھ ان کے شہریوں اور یونٹس کا تعلق آئینی معاہدہ کے تحت طے پاتا ہے۔ اس معاہدے کے تحت ریاست اپنے شہریوں کے حقوق تسلیم کرتی ہے، اور بدلے میں شہری اپنی کچھ آزادیاں اور وفاداریاں ریاست کے ساتھ جوڑتے ہیں۔ تاہم، گلگت بلتستان کی ایک منفرد حیثیت ہے، کیونکہ وہ اب تک پاکستان کے آئینی ڈھانچے میں شامل نہیں ہے۔ یہ ایک معاہدہ کی غیر موجودگی کا نتیجہ ہے، جو گلگت بلتستان کے لوگوں کو تحریری حقوق سے محروم رکھتا ہے اور ان کی وفاداریوں کو تسلیم کرنے میں تاخیر کا باعث بنتا ہے۔ گلگت بلتستان کا پاکستان کے آئینی ڈھانچے میں شامل نہ ہونے کی کچھ وجوہات بین الاقوامی ہیں، کچھ انڈیا کی ہٹ دھڑمی ہے اور کچھ اپنوں کی بے رعنائیاں ہیں۔
اس صورتحال میں، یہ ریاست پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ گلگت بلتستان کے عوام کے دلوں کو جیتے اور ان کی خدمات اور قربانیوں کا اعتراف کرے۔ صرف وفاداری اور قربانیوں کی توقع کرنا اور بدلے میں لولی پاپ دینا ناانصافی ہے۔ گلگت بلتستان کے لوگ پاکستان کے لیے جانیں قربان کرتے ہیں، لیکن ان کے بدلے میں ان کے حقوق کی عدم تسلیم، ان کی قربانیوں کو بے وقعت بناتا ہے۔
ریاست پاکستان کو اس معاملے کو سنجیدگی سے لینا ہوگا اور گلگت بلتستان کے لوگوں کو وہ سہولیات اور مراعات فراہم کرنی ہوں گی جو وہ مستحق ہیں۔ یہ نہ صرف ان کے حقوق کا اعتراف ہوگا بلکہ ان کی وفاداریوں کا صحیح معنوں میں اعتراف بھی ہوگا۔ پاکستان کے ساتھ گلگت بلتستان کا تعلق مضبوط تر تبھی ہوسکتا ہے جب ریاست اپنے شہریوں کی فلاح و بہبود کو اولین ترجیح دے اور ان کے جذباتی تعلقات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کی ضروریات کا خیال رکھے۔
گلگت بلتستان کے لوگوں کی دلجوئی اور ان کی فلاح و بہبود کے لیے ضروری ہے کہ ان کو قانونی، آئینی اور عملی طور پر پاکستان کے شہری کے طور پر تسلیم کیا جائے۔ یہ ایک نہایت اہم اقدام ہوگا جو نہ صرف گلگت بلتستان کے لوگوں کو ان کا حق دلائے گا بلکہ ریاست پاکستان کی ساکھ کو بھی مستحکم کرے گا۔ اگر سردست ایسا کرنا ناممکن ہے تو بہترین سہولیات اور گڈ گورننس اور گلگت بلتستان کے لوگوں کی معیار زندگی بہتر بنانے میں تو انڈیا یا بین الاقوامی طاقتیں رکاوٹ نہیں، لہذا اس پر فوکس کیا جائے۔
یہ وقت ہے کہ ریاست پاکستان گلگت بلتستان کے عوام کے ساتھ اپنے تعلقات کو از سر نو دیکھے اور ان کو وہ مقام دے جو وہ حق رکھتے ہیں۔ صرف زبانی وفاداریوں کی توقع رکھنا اور ان کی خدمات کو نظرانداز کرنا ایک ایسی ناانصافی ہے جو ریاست کی ساکھ اور گلگت بلتستان کے عوام کی عزت نفس کو مجروح کرتی ہے۔ اس کے لیے فوری طور پر عملی اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ دونوں طرف سے ایک مضبوط اور پائیدار رشتہ قائم ہو سکے۔