Tuesday, 24 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Amirjan Haqqani
  4. Seerat e Nabi Aur Dawat e Islam

Seerat e Nabi Aur Dawat e Islam

سیرت نبی ﷺ اور دعوت اسلام

رسولِ کائنات ﷺ کو اللہ رب العزت نے نسل انسانی کے لیے ایک کامل نمونہ اور اسوہ حسنہ بنا کر دنیا میں مبعوث فرمایا۔ آپ ﷺ کی پوری زندگی کو قیامت کی صبح تک کے لیے معیار بنادیا۔ سیرت طبیہ ﷺ کا ہر گوشہ تابناک اور ہر پہلو روشن ہے۔ آپ ﷺ کی ولادت باسعادت سے لے کر رحلت تک کا ہر ہر لمحہ اللہ تعالی کی منشاء سے آپ ﷺ کے جانشینوں نے محفوظ کیا۔

رسول اللہ کی سیرت مکمل کاملیت پر مبنی ہے۔ کسی انسان کی کاملیت اس وقت تک ہمارے لیے نمونہ نہیں بن سکتی جب تک اس کے جملہ پہلو بلاکم و کاست ہمارے سامنے نہ آئے۔ یہ آئیڈل صورت صرف اور صرف ہمارے نبی اکرم ﷺ میں پائی جاتی ہے۔ آپ کی سیرت کا کوئی لمحہ ہماری آنکھوں سے اوجھل نہیں۔ رسول اللہ کی سیرت کی کاملیت کا اندازہ لگانے کے لیے چند ایک کتب کا مطالعہ بھی کافی رہتا ہے۔ امام ترمذی کی"شمائل ترمذی"، حافظ ابن قیم کی "زادالمعاد" اور قاضی عیاض کی سیرت پر معروف کتات "الشفا" ہی ہماری تشفی کے لیے کافی و شافی ہیں۔ ان کتب اور دیگر سیرت کی مستند کتب میں آپ ﷺ زندگی کے بڑے بڑے واقعات کو تو چھوڑیں جزوی باتوں کو بھی کمال احتیاط سے قلمبند کیا گیا ہے۔

مثلاً آپ کی شکل وصورت، اسماے گرامی، عمرشریف، بال، کنگھی، خضاب، سرمہ، لباس، عمامہ، پائجامہ، موزے، پاپوش، انگوٹھی، خاموشی، انداز گفتگو، تبسم، مزاح، خوشبو، تلوار، زرہ، خود، رفتار، نشست، تکیہ و بستر، وضو، پیالہ، کیا اور کیسے کھاتے پیتے، رات کو باتیں کرنے، سونے اور عبادت کرنے کے طریقے، گریہ، اخلاق، حجامت، خواب، خطبہ، سواری، سفر، جہاد، معمولاتِ عیادت و ملاقات، مجالس، اپنے اور دوسروں کے گھروں میں جانے کا انداز اور طریقہ، یادِِ الٰہی، اللہ پر توکل، صبر وشکر، استقامتِ عمل، حسن معاملہ، عدل و انصاف، سخاوت، ایثار، مہمان نوازی، تحفے قبول کرنا، احسان نہ قبول کرنا، عدمِ تشدد، مساوات، شرم وحیا، اپنے ہاتھ سے کام کرنا، ایفاے عہد، دشمنوں سے عفو و درگزر، غلاموں اور قیدیوں سے سلوک، اہل کتاب، منافقین اورغیرمسلموں سے برتاؤ، غریبوں سے محبت، بچوں پر شفقت، عورتوں سے برتاؤ، اولاد سے محبت، نکاح، بیویوں سے سلوک، ازدواجی تعلقات کا طریقہ، خرید و فروخت، حوائجِ ضروریہ کے آداب اور جانوروں سے سلوک اور اُن پر رحم وغیرہ۔ اس اجمالی تفصیل سے اندازہ لگالیں کہ جب ان جزئیات کو محفوظ رکھا گیا ہے تو بڑی اور اہم باتوں کی کیا کچھ تفصیل ہو گی۔ (ملخص: از سیرۃ البنی، سید سلیمان ندوی)۔

آپ ﷺ کی سیرت جس طرح کامل و اکمل ہے اسی طرح جامع و مانع بھی ہے۔ جناب سید سلیمان ندوی نے اس کی زبردست وضاحت فرمائی ہے:

"کسی مذہب کے حلقۂ اطاعت میں شامل اشخاص مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں حکمران، رعایا، سپہ سالار، سپاہی، فاتح، مفتوح، جج، مفتی، غریب، دولتمند، عابد، زاہد، مجاہد، اہل وعیال، دوست و احباب، تاجر، خریدار، امام، مقتدی، اُستاد، شاگرد، جوان، بچے، شوہر اور باپ سب شامل ہیں جنہیں عملی نمونہ کی ضرورت ہے۔ اسلام اُنہیں اتباعِ سنّتِ نبوی کی دعوت دیتا ہے۔ پیغمبرِ اسلام کی سیرت میں ہر انسان کے لیے نمونے اور مثالیں ہیں۔

انسان مختلف لمحوں میں مختلف افعال کرتا ہے: چلنا، پھرنا، اُٹھنا، بیٹھنا، کھانا، پینا، سونا، جاگنا، ہنسنا، رونا، پہننا، اُتارنا، نہانا، دھونا، لینا، دینا، سیکھنا، سکھانا، مرنا، مارنا، مہمان بننا، میزبانی کرنا، عبادت، کاروبار، راضی ہونااور ناراض ہونا، خوش اور غمزدہ ہونا، کامیاب اور ناکام ہونا، شجاعت، بزدلی، غصہ، رحم، سخت گیری، نرم دلی، انتقام، معافی، صبر، شکر، توکل، رضا، قربانی و ایثار، عزم واستقلال، قناعت واستغنا، تواضع وانکساری، نشیب و فراز اور بلند و پست وغیرہ ان تمام افعالِ انسانی اور احساساتِ قلبی کی راہنمائی کے لیے ایک عملی نمونہ کی ضرورت ہے۔

ایک ایسا عملی نمونہ جس میں سیدنا موسیٰؑ کی صرف شجاعانہ قوتیں یا سیدنا عیسیٰؑ کا صرف نرم اخلاق ہی نہ ہو بلکہ یہ دونوں صفات معتدل حالت میں موجود ہوں۔ سیدنا نوحؑ، سیدنا ابراہیمؑ، سیدنا موسیٰؑ، سیدنا عیسیٰؑ، سیدنا سلیمانؑ، سیدنا داؤدؑ، سیدنا ایوبؑ، سیدنا یونسؑ سیدنا یوسفؑ اور سیدنا یعقوب علیہم السلام سب کی زندگیاں سمٹ کر محمدعربی ﷺ کی ذات اقدس میں سما گئی ہیں۔ " (ملخص:سیرۃ النبی از سلیمان ندوی)

جناب نبی اکرم ﷺ سے پہلے تمام انبیاء کرام کی دعوت مخصوص علاقوں، قوم اور وقت کے ساتھ محدود تھی۔ وہ اپنی قوم، نسل اور علاقہ کے حدود میں دعوت توحید او دعوت الی اللہ کا فریضہ سرانجام دیتے تھے۔ ایک کے انتقال کے بعد یا ایک کی معاونت و نصرت کے لیے اللہ دوسرے پیغمبر مبعوث فرماتے تھے۔ جبکہ نبی آخری الزمان جناب محمد ﷺ کی نبوت و دعوت کسی علاقہ، قوم یا وقت کے لحاظ سے محدود نہیں ہے۔ آپﷺ کی نبوت و دعوت دنیا کے تمام علاقوں اور اقوام کے لیے ہے اور قیامت تک کے وقت کے لیے ہے۔ آپ ﷺ کے انتقال کے بعد بھی آپ ﷺ کی امت کے افراد نے پوری دنیا میں دعوت کا یہ سلسلہ تا قیامت چلانا ہے۔

یہ ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دنیا میں اسلام واحد دعوتی مذہب ہے۔ اس کی دعوت جملہ انسانیت کے لیے ہے۔

رسول اللہ ﷺ سے خود رب العزت نے فرمایا: "قل یا ایھا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعًا" (سورۃ الاعراف ۱۵۸)

ترجمہ: (اے پیغمبر) کہہ دیجیے کہ اے لوگو! میں تمام انسانوں کے لیے اللہ کا رسول ہوں۔

اس آیت کریمہ سے ہمیں یہ بات سمجھ آتی ہے کہ نبی ﷺ کی دعوت کا پیغام عالمگیریت پر مبنی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پانچ چیزیں رسول اللہ کو ایسی دی ہیں جو ماقبل کے کسی نبی کو نہیں دی گئی۔ ان میں سے ایک دعوت کے عالمگیر اور دائمی پروگرام کے حوالے سے ہے۔ حدیث شریف کا وہ جملہ آپ کو سنانا چاہتا ہوں۔ آپ ﷺ نے خود ارشاد فرمایا:

أُعْطِيتُ خَمْسًا لَمْ يُعْطَهُنَّ أَحَدٌ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ قَبْلِي

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ مجھے پانچ ایسی چیزیں عطا کی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے انبیاء کو نہیں دی گئی تھیں۔ ان پانچ میں ایک یہ ہے:

وَكَانَ النَّبِيُّ يُبْعَثُ إِلَى قَوْمِهِ خَاصَّةً، وَبُعِثْتُ إِلَى النَّاسِ كَافَّةً

پہلے انبیاء خاص اپنی قوموں کی ہدایت کے لیے بھیجے جاتے تھے۔ لیکن مجھے دنیا کے تمام انسانوں کی ہدایت کے لیے بھیجا گیا ہے۔ (بخاری:ح، 438)

رسول اللہ کا دعوتی پیغام صرف انسانوں کے ساتھ خاص نہیں۔ جملہ مخلوقات کے لیے ہے۔ انسانوں کے ساتھ جنات بھی رسول ﷺ کے پیغام اسلام کو قبول کرکے فرمانبردار بن جاتے ہیں۔ اس لیے دعوت اسلام کے مکلف انسانوں کے ساتھ جنات بھی ہیں۔

اللہ کے پیارے حبیب ﷺ کی پوری زندگی دعوتی کام پر مشتمل تھی۔ ہزاروں واقعات ہیں جو صرف اور صرف دعوتی پروگرام کو بیان کرتی ہیں۔ اللہ نے خود ہی دعوتی کام کو بھرپور کرنے کا حکم صادر فرمایا تھا:

یَا أَیُّہَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَیْکَ مِن رَّبِّکَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ (سورۃ المائدہ: ۶۷)

ترجمہ: اے رسول آپ کے رب کی طرف سے آپ پر جو نازل کیا گیا ہے وہ لوگوں تک پہنچادیجئے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو گویا آپ نے اس کی پیغمبری کا حق ادا نہ کیا۔

اللہ تعالی نے رسول اللہ کو دعوت اسلام کا اسلوب و میتھڈ بھی بتایا اس کے متعلق بھی خود اللہ نے ارشاد فرمایا:

اُدْعُ إِلیٰ سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْہُم بِالَّتِیْ ہِیَ أَحْسَنُ۔ (سورۃ النحل: ۱۲۵)

ترجمہ: اے نبی! اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھے وعظ کے ساتھ دعوت دیجئے اور ان سے احسن طریقے سے بحث کیجئے"۔

یہ ہمارا ایمان ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا دعوتی اسلوب کامل واکمل تھا اور اسی کی پیروی آج کے پرآشوب دور میں ہم تمام مسلمانوں پر لازم ہے۔ دعوت و تبلیغ کا فریضہ انجام دینے کے لئے ضروری ہے کہ سیرت نبوی کے دعوتی پہلوؤں پر غور و فکر کیا جائے اور حالات و واقعات کا پاس و لحاظ رکھ کر سیرت نبوی کی روشنی میں دعوت اسلام کا کام جاری رکھا جائے۔

رسول داعی ﷺ کا دعوتی منہج و اسلوب یہ تھا کہ دعوت دینے والے کے اپنے دل میں تڑپ ہو کہ میں نے ضلالت و گمراہی میں گری انسانیت کو جہنم کی آگ سے بچانا ہے اور راہ مستقیم پر لا کھڑا کرنا ہے۔ اس کے لیے داعی، حضرت انسان کو اپنا بھائی سمجھے اور خود اس کا ہمدرد بن جائے۔ ہم میں سے جو بھی انسان دعوت اسلام دے اس کا انداز گفتگو رسول اللہ والا ہو۔ زبان میں مٹھاس ہو، اور خیرخواہی اس کے انگ انگ سے ٹپکتی ہو۔

رسول اللہ ﷺ انسانیت کے بھلائی و خیرخواہی کے معاملے میں انتہائی حریص تھے۔ آپ ﷺ کے دل میں یہ خواہش حرص کے درجے کی تھی۔ حرص خواہش کا آخری درجہ ہوتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی انتہائی خواہش تھی کہ پوری دنیا اور پوری انسانیت اسلام، ہدایت اور دارین میں کامیابی کے راستے پر آجائے۔ قرآن میں موجود ہے "حریص علیکم" (سورۃ التوبہ ۱۲۸) کہ تمہاری بھلائی میں وہ حریص ہیں۔ رسول اللہؐ دین کے معاملے میں، دعوت کے معاملے میں اور لوگوں کے ایمان قبول کرنے کے معاملے میں حریص تھے۔ ہمیں بھی اسی انداز و اسلوب اور درد کے ساتھ دعوت اسلام کا کام جاری و ساری رکھنا ہوگا۔

دعوت دیتے وقت ہمارے اندر یہ کیفیت ہونی چاہیے۔ پہلی بات یہ کہ دعوت دینے والے کے دل میں نسل انسانی کے لیے ہمدردی اور بھلائی ہو اور ان کو مسلمان بناکر راہ ہدایت پر لانے کے لیے تڑپ ہو۔ دوسری بات یہ کہ داعی و مبلغ کا لب و لہجہ نرم اور اندازِ گفتگو شفیقانہ، ہمدردانہ ہو تا کہ جسے دعوت دی جارہی ہو، وہ داعی کو اپنا خیرخواہ سمجھے۔ تیسری بات یہ کہ جس شخص، افراد یا گروہ کو دعوت دی جا رہی ہے اس کی ذہنی سطح اور نفسیات اور اس کے سماجی پہلووں کا لحاظ کیا جائے اور یہ تسلی کی جائے کہ مخاطب تک اصل بات پہنچ گئی ہے۔

امید ہے کہ اگر ہم دعوت اسلام کے منہج نبوی ﷺ کو اختیار کریں گے تو پوری انسانیت حق کی راہ پر گامزن ہوگی۔

Check Also

Heera Mandi Se Cafe Khano Tak Ka Safar

By Anjum Kazmi