Sawal To Uthay Ga
سوال تو اٹھے گا
پانچ دن پہلے چلاس ہڈر کے مقام پر ایک مسافر بس پر، رات کے اندھیرے میں حملہ ہوا۔ جس میں کئی لوگ زخمی ہوئے اور گیارہ لوگ اللہ کو پیارے ہوئے، جن میں اہل سنت، اہل تشیع اور اسماعیلی برادری کے افراد شامل ہیں۔ پاک آرمی کے جوان بھی تھے۔ یہ حملہ نہیں ایک انتہائی بزدلانہ اور ظالمانہ اقدام تھا جس کی حمایت کوئی باشعور شخص کرہی نہیں سکتا۔
کیا درندگی کی حمایت بھی ممکن ہے؟ اس سانحہ فاجعہ کو لے کر حسب ترتیب بہتوں نے سیاست شروع کی اور مذہبی تعصب بھی، اور دیامر اور اہلیان دیامر کو رگیدنا فرائض منصبی سمجھا، جو افسوسناک ہے۔ سمجھ دار معاشرے، ادارے، پارٹیاں اور افراد ایسا نہیں کرتے۔ ایسا کرنے والے بھی موقع پرست بلکہ مفاداتیے اور سہالت کار ہوتے ہیں۔
جی بی انتظامیہ اور مقتدر اداروں نے فورس کمانڈر اور وزیراعلیٰ کی سرپرستی میں دیامر میں ایک جرگہ کیا۔ اس مکالماتی جرگے پر یار لوگ معترض بھی ہیں اور معترضین کو جواب دینے والے بھی۔
بنیادی طور پر دونوں انتہاؤں پر ہے۔ سنجیدہ سوال کوئی نہیں اٹھاتا؟ سوائے تنقید برائے تنقید کے۔
یہ ذہن میں رہے کہ کتنا ہی خطرناک مسئلہ کیوں نہ ہو اس کا حل مکالمہ اور مذاکرات میں ہے۔ یہ بین الاقوامی اصول بھی ہے روایت بھی۔ دنیا کے بڑے مسائل ایسے ہی حل ہوئے ہیں۔
تاہم بنیادی سوال یہ ہے کہ مکالمہ یا مذاکرات کن سے کیا جارہا ہے؟ کیا گرینڈ جرگے میں تقاریر فرمانے والے دیامر کے لوگ فریق ہیں؟ کیا وہ اس حملے کی ذمہ داری قبول کررہے ہیں؟
اگر وہ فریق ہیں اور حملہ کو تسلیم کررہے ہیں اور ان کے ڈیمانڈز ہیں تو یقیناً ان کے ساتھ مکالمہ و مذاکرات ہونے چاہیے اور کسی حتمی نتیجے پر پہنچنا چاہیے۔
اگر جرگے میں شریک عمائدین و علماء اور دیگر لوگ نہ فریق ہیں اور نہ ہی حملے میں ملوث ہیں اور نہ ہی تسلیم کرتے ہیں کہ حملہ انہوں نے کیا ہے اور نہ حملہ آوروں کے حمایتی ہیں، بلکہ وہ تو دہشت گردوں کیساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کی بات کرتے ہیں تو ان سے مذاکرات یا مکالمہ و جرگہ چہ معنی دارد؟ یہ تو ڈھکوسلہ ہوا۔
چلیں مان لیتے ہیں کہ ان عمائدین اور علماء سے مذاکرات و مکالمہ ہو۔
تو پھر سوال اٹھیں گے۔ کیا وہ گارنٹی دیں گے کہ آیندہ کوئی حملہ نہیں ہوگا؟ یا انتظامیہ اور عمائدین جرگہ کسی منطقی انجام تک پہنچیں گے کہ آئندہ ایسے حوادث نہیں ہونگے؟
اگر ان دونوں سوالات کا جواب مثبت ہے تو ایک بار نہیں بار بار، مکالمہ و مذاکرات اور جرگے ہونے چاہئیں، اگر جواب نفی میں ہے تو کم از کم انتہائی پارلیمانی الفاظ میں اس گرینڈ جرگہ کو ڈھکوسلہ ہی کہا جاسکتا ہے۔۔
آخر یہ ڈھکوسلا سازی کب تک؟ پھر کیا کرنا چاہیے؟
انتہائی سادہ الفاظ میں حملہ آوروں کو گرفتار کرکے کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ کیفرکردار تک پہنچانے کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ مذاکرات و مکالمہ کے ذریعے ہمیشہ کے لئے توبہ تائب ہوتے ہیں اور ہر قسم کی گارنٹی دیتے ہیں تو انہیں محبت اور قانون کی زبان سے سلوک کیا جائے۔
اگر نہیں تو پھر سیدھا سیدھا ڈنڈا اور قانون استعمال ہو۔
سو باتوں کی ایک بات، مذاکرات، مکالمہ یا جرگہ کرناہے تو اصل فریق / مجرم سے کیجئے۔
عام آدمی کو تنگ کیوں کرتے ہو؟ اور ہاں دیامر کا عام آدمی بھی تو ایسے ڈھکوسلوں کے لئے ہمہ وقت دستیاب رہتا ہے۔ کھبی علماء و عمائدین کی شکل میں، کھبی یوتھ موتھ کی شکل میں۔
کہیں ان کا "رزق حلال" بھی ان مذاکرات، ڈائیلاگ اور جرگوں یعنی ان ڈھکوسلوں میں پوشیدہ تو نہیں؟
ویسے ایک سوال یہ بھی اٹھ سکتا ہے کہ آخر اصل فریق کون ہوسکتا ہے؟ یعنی اصل مجرم
سوال تو اٹھے گا۔ آپ بھی سنجیدہ سوال اٹھائیے گا۔
مذہبی و علاقائی تعصب نہ برتیں پلیز۔ کام کی بات کیجئے۔ ہم بھی آپ کیساتھ ہونگے۔