Sadpara Jheel Ki Ranaiyan
سدپارہ جھیل کی رعنائیاں
آنکھوں کو خیرہ کر دینے والی سدپارہ جھیل اب سدپارہ ڈیم کہلاتا ہے۔ استور دیوسائی روڈ سے بھی سد پارہ جھیل تک موسم سرما میں آسانی سے پہنچا جاسکتا ہے تاہم کسی بھی موسم بالخصوص موسم سرما میں اسکردو شہر سے ہی سدپارہ جایا جاسکتا ہے۔ میں اپنے ایک پروفیشنل تدریسی دورے پر اسکردو آیا ہوں۔ اسکردو پہنچتے ہی عشروں سے دل میں دبی خواہش جاگ اٹھی، دماغ میں یہ بات بیٹھ ہی گئی تھی کہ سدپارہ دیکھنا ہے۔
اس خواہش کی تکمیل کا سبب برادرم ایس ایس ناصری بنے۔ ناصری صاحب اسکردو روندو سے تعلق رکھتے ہیں۔ سینئر صحافی ہیں۔ وائس آف گلگت بلتستان کے بانی چیف ایڈیٹر ہیں۔ ہم طالب علمی کے دور میں کراچی سے اس میگزین میں لکھا کرتے تھے۔ آج کل میگزین تعطل کا شکار ہے۔ ناصری صاحب SUNO ایف ایم 89 بلتستان ریجن کے کرتے دھرتے ہیں۔
کراچی میں ہم جی بی کے صحافیوں کا ایک گروپ تھا۔ ہمارے احباب مجھے قاری صاحب سے یاد کیا کرتے تھے۔ ڈاکٹر رفیع عثمانی، منہاج موسوی، امین اظہر، عباس وفا، واجد علی یاسینی، ریاض علی یاسینی، انو ثاوین، قاسم بلتی، حب علی ثانی، ایس ایس ناصری، ریاض الدین، فیروز خان، اسلم ہنزائی، صادق حسین اور بہت سارے احباب تھے۔ بڑی اچھی یادیں ہیں۔ تب سے اب تک ہم گلگت بلتستان یونین آف جرنلسٹ کراچی کے احباب کے لیے "قاری صاحب" ہیں۔ یہ احباب اب تک قاری صاحب ہی کہتے ہیں۔
میں ڈگری کالج اسکردو میں اپنی پریزینٹیشن سے فارغ ہوا ہی تھا، ناصری صاحب ٹھیک وقت پر دوپہر ایک بجے قیصر علی کی معیت میں پہنچ گئے اور ہم نے سدپارہ جھیل چل دیا۔ ہمارے دوست ناصری صاحب اسکردو بازار میں اہم مقامات اور اداروں کا تعارف کرواتے ہوئے سدپارہ کی طرف رواں دواں ہیں۔ راستے میں مختلف چوک آتے ہیں۔ پریشان چوک کو کراس کرکے ہی سدپارہ جانا ہوتا ہے۔ ہم نے بہت سارے چوک کراس کیے۔ کچھ پوش ایریاز ہیں۔ کہیں آرمی پبلک سکول ہے، کہیں پبلک سکول اینڈ کالج، کہیں SCO کا ٹیکنالوجی پارک نظر نواز ہورہا ہے تو کہیں مرکز اہلحدیث اور مرکز اہل سنت نظر آرہے ہیں۔ اور اسوہ سکول کے دروازے پر بھی رش لگا ہوا ہے۔
یہ موسم سرما ہے اس لیے سیاحوں کا رش کم ہے۔ ہم آسانی سے سدپارہ جھیل کی طرف جارہے ہیں۔ سیاحت کے اعتبار سے روڈ بہت تنگ ہے۔ ویسے بھی گلگت بلتستان کے تمام مرکزی شہروں کی سڑکیں بہت تنگ ہیں۔ سدپارہ کے راستے میں بڑے بڑے ہوٹل بنے ہیں اور کافی سارے زیر تعمیر ہیں۔ چیف سیکرٹری جی بی کا کیمپ آفس بھی وہی ہے۔ سابق سی ایم اور موجودہ گورنر مہدی شاہ صاحب نے سدپارہ جھیل کی طرف جانے والی سڑک، منٹھل کے پاس ایک محفل نما گھر بنایا ہے۔ شاید اس کو پی پی ہاوس کا نام دیا گیا ہے۔
وسط اسکردو سے سدپارہ لیک تک تقریباً دس کلومیٹر کا سفر ہے۔ سدپارہ کو لوکل زبان میں"ستپَرَہ سر" کہا جاتا ہے۔ ستپَرَہ سر کا مطلب سات ندیوں کی جھیل۔ نام صد پارہ ہو، سد پارہ یا ستپرہ، اس سے فرق نہیں پڑتا، یہ جھیل سطح سمندر سے آٹھ ہزار پانچ سو فٹ کی بلندی اور سکردو شہر سے تقریباً دس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
سنا تھا کھبی اس جھیل تک پہنچنے کے لیے تگڑی جیپ کی ضرورت پڑتی تھی لیکن آج تو ہم ناصری صاحب کی وٹز کار میں جارہے تھے۔ اسکردو سے جھیل تک روڈ بنایا گیا ہے تاہم دیوسائی سے روڈ اب تک خستہ ہی ہے۔ سنگلاخ پہاڑیوں کے دامن سے گزرتے ہر لمحہ یہی خیال کھایا جارہا تھا کہ اب سدپارہ جھیل نظر نواز ہوگی مگر اگلا موڑ سامنے آجاتا اور پھر بندہ جھیل کے خیالوں میں کھو جاتا۔
جیسے ہی دس کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے سدپارہ جھیل کے ماہ انور پر نظر پڑتی ہے تو انسان بے اختیار قدرت کی صناعیوں پر سبحان اللہ کہہ جاتا ہے۔ میرے جسم کا ہر ہر عضو بھی قدرت الہی کا معترف تھا۔ لاریب! اللہ تیری ذات بڑی کاریگر ہے۔
سدپارہ جھیل اب جھیل کم ڈیم زیادہ ہے۔ اس جھیل پر 2003 میں ڈیم بنانے کا عمل شروع ہوا تھا۔ ڈیم بننے سے شاید جھیل کی قدرتی رعنائیوں میں کمی نہ آئے مگر پھر بھی بہت ساری آلودگیاں، ماحولیاتی نظام اور قدرتی حسن کو برباد کرنے کے لئے دُر آتی ہیں۔ اب تو جھیل کنارے بہت سارے ہوٹل بننے شروع ہوئے، اگر ان بے ہنگم تعمیرات کو مناسب انداز میں منیج نہ کیا گیا تو مستقبل قریب میں بڑھتی عمارتیں اور فضائی و انسانی آلودگیاں بہت سے خوفناک مسائل پیدا کرسکتی ہیں۔ ارباب اختیار کو اس پر سنجیدگی سے سوچنے اور پلاننگ کرنے کی ضرورت ہے۔
ایس ایس ناصری کے مطابق اس سال(2022 اور 23) جھیل خشک ہے۔ پانی کی بڑی قلت ہے۔ پہلی دفعہ اسکردو شہر میں پانی کی لوڈ شیڈنگ کردی گئی۔ ہم نے بھی محسوس کیا کہ واقعی پانی بہت کم ہے۔ جھیل کا حجم بہت بڑا نظر آرہا ہے۔ اس جھیل میں ٹروٹ مچھلیاں بھی ہوتی ہیں۔
جھیل پر نظر پڑتے ہیں درمیان میں واقع ٹیلہ نما چھوٹے سے جزیرے پر نظر پڑتی ہے۔ اس تک پہنچنے کے لیے چھوٹی کشتی کی ضرورت ہوتی ہے یا بہترین تیراکی کی۔ ہم موسم سرما میں گئے تھے، نہ وہاں تیراک تھے اور نہ ہی کشتیاں، البتہ پنجاب سے آئے ہوئے کچھ سیاح اور ایک فوجی پریمی جوڑا تھا۔ ان کی اٹھکھیلیاں دل ساز تھی بلکہ یوں کہیے دل سوز تھی۔ لاہور سے آئے ہوئے مہمانوں نے جھیل پر ڈرون کمیرہ چھوڑا ہوا تھا، جو جھیل کے پورے منطر کو فلما رہا تھا۔ ہم بھی ڈرون کیمرہ کی پھرتیاں دیکھ کر بہت محظوظ ہورہے تھے۔
سدپارہ گاؤں اور جھیل کے ساتھ کئی دیومالائی کہانیاں اور اساطیر جڑی ہوئی ہیں۔ طوالت کا خوف نہ ہوتا تو دیومالائی کہانیاں لکھ دیتا۔ ہم نے جھیل کنارے دیر تک انجوائے کی، تصاویر لی، سیاح مہمانوں سے ان کے تاثرات لیے۔ وہ پورے جی بی میں گھومے پھرے تھے۔ انہوں نے گلگت بلتستان کے شہریوں اور پولیس والوں کی بڑی تعریف کی۔ ہمارے ساتھ تصاویر بھی بنائی اور ڈرون کیمرے سے ویڈیو بھی بنائی۔
ڈیم پانیوں سے بھر جائے تو اس کی بلندی 133 فٹ تک ہوجائے گی۔ ڈیم کی فزیبلٹی رپورٹ کے مطابق اسکردو کو لگ بھگ 13 میگا واٹ اضافی پن بجلی ملنی ہے۔ اور اسکردو کےشہریوں کو یومیہ 30 لاکھ گیلن پینے کا پانی ملنے کے علاوہ 20 ہزار کنال زرعی رقبہ بھی زیر کاشت لایا جا سکنا تھا۔ ایسا ہوا کہ نہیں کوئی باخبر ہی بتا سکتا ہے۔
سدپارہ ڈیم منصوبے کے مطابق ڈیم کو بھرنے کے لیے پانی کا سورس، ڈیم کے دائیں بائیں اور قریب ترین چوٹیوں میں برف جو موسم سرما میں پگھل کر ڈیم کا حصہ بنتا ہے۔ اس کے علاوہ سدپارہ کو بھرنے کے لیے دیوسائی نیشنل پارک میں بہنے والے قدرتی نالے جسے شتونگ کہا جاتا ہے، کا رخ موڑ کر ایک نالہ ڈیم تک لایا جانا تھا مگر یہ کام نہ ہوسکا۔ ہمارے رفیق ایس ایس ناصری کے مطابق اب تک یہ کام نہ ہونا افسوسناک ہے، اس کے نہ ہونے کی وجہ سے ڈیم اپنی افادیت کھو رہا ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ شاید دیوسائی سائڈ سے بہتے پانیوں بالخصوص شتونگ نالے کو سدپارہ کی طرف موڑنے پر مختلف وجوہات کیساتھ ایک بڑی وجہ انڈیا کی مخالفت اور کچھ انٹرنیشنل معاہدات رکاوٹ بنے ہیں۔ کمزور معیشت والے ملکوں کے ساتھ ایسے بڑے منصوبوں میں اکثر یہی کچھ ہوتا ہے۔
بصارتوں کو خیرہ کر دینے والی یہ خوبصورت جھیل شفاف اور میٹھے پانی سے بڑی حد تک لبریز ہے لیکن لب دوز بالکل بھی نہیں، اور اس کے دو تین طرف سنگلاخ چٹانیں ہیں۔ اور یہی جھیل کنارے سے اسکردو سے استور کا مشہور زمانہ دیوسائی روڈ ہے۔ سدپارہ جھیل سے چند گھنٹوں کی مسافت پر دیوسائی نیشنل پارک اور دیوسائی جھیل ہے۔
ہم جھیل کے ابتدائی سرے سے تین چار کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع سدپارہ گاؤں بھی گئے۔ یہ محمد علی سدپارہ کا گاؤں ہے۔ محمد علی سدپارہ پاکستان کا نامور کوہ پیما گزرے ہیں۔ انہوں نے کوہ پیمائی کے ذریعے اپنے نام اور سدپارہ گاؤں کو ہمیشہ کے لئے امر کر دیا ہے۔ ایسے نامور افراد بہت کم پیدا ہوتے ہیں۔ ہمیں سدپارہ جھیل کے دیکھنے سے زیادہ خوشی سدپارہ گاؤں دیکھنے سے ہوئی جہاں محد علی جیسے انسان پیدا ہوئے ہیں۔ کچھ افراد کچھ علاقوں کو ہمیشہ کے لیے پہچان دیتے ہیں۔ محدعلی نے بھی سدپارہ کو پہچان دیا۔
بہر حال واپسی پر بھی خوب انجوائے کیا۔ سدپارہ جھیل کے لیے بہتے پانیوں سے لطف اندوز ہوا۔ وضو بنایا اور شفاف پانی پی کر اللہ کا شکر ادا کیا۔ واپسی پر ناصری صاحب اگلے دن کا پلان بنا رہے تھے اور ہم اپنے خیالات میں گھم سم تھے۔ ایسے مواقعوں پر ہمیں بعض انجانے خیالات بڑے ڈسٹرب کرتے ہیں۔ انسان فطری حسن سے لطف اندوز ہوتا ہے تو پھر اس کی فطرت بھی جاگ جاتی ہے اور وہ دل کی لطافتوں کو بہت گہرائی سے محسوس کرتا ہے۔ اور یہی محسوسات سدپارہ جھیل سے واپسی پر ہمیں کھائی جارہی تھی۔
دل مچل رہا تھا کہ وہاں کہیں کھو جائے بلکہ جھیل کے نیلے پانیوں میں ڈبکیاں لگا کر ٹروٹ مچھلیوں کے ساتھ ہمیشہ کے لیے بسیرا کرے لیکن ہم نے بڑی کوشش سے اس کو سنبھالا، ساتھ لیا اور سدپارہ جھیل کو خدا حافظ کہا۔ اور ساتھ گرمیوں میں آنے کا وعدہ بھی کیا۔