Practical Bano Aur Banao (1)
پریکٹیکل بنو اور بناؤ (1)
گزشتہ دو سال سے میں بہت زیادہ پریکٹیکل ہوگیا ہوں۔ مجھے دو چیزوں نے پریکٹیکل بنا دیا ہے۔ ایک حالات نے، دوسرا مدرسہ کی تعلیم اور زندگی نے۔ یہ درست بات ہے کہ میرا بیگ گراونڈ دیہاتی ہے۔ دیہاتی زندگی حقیقی معنوں میں عملی زندگی ہوتی ہے۔ لوگ سال بھر کام کرتے ہیں، میں گاؤں میں زیادہ نہیں رہا، مڈل تک، نصف تعلیم چلاس شہر میں تکمیل ہوئی اور نصف گاؤں گوہرآباد میں۔ چلاس میں، میں اور میرا کزن تنویر احمد حقی، دوسری، تیسری، ساتویں اور آٹھویں جماعت میں اپنے کپڑے خود دھوتے تھے اور روٹی سالن بھی خود پکاتے تھے اور برتن بھی خود دھوتے تھے۔
تایا کے علاوہ سب گھر والے گوہر آباد میں ہوتے تھے تب۔ یوں میں بہترین کک بھی ہوں۔ کمال کی روٹیاں بھی پکا سکتا۔ مجھ سے اچھا چائے کوئی نہیں پکا سکتا جو میرے قربت میں ہیں۔ اپنی فیملی کی شادیوں میں باقاعدہ سالن خود بناتا اور دیگر تمام پکائیوں کی نگرانی کرتا۔ چلاس میں اپنے تایا ابو عذرخان صاحب اور کچھ عرصہ بھائی سلیم کے کپڑے دھونا اور استری کرنا بھی ہم نے اپنے ذمہ لیا ہوا تھا۔ یہ بھی بچپن میں ایک پریکٹیکل لائف تھی۔ ہمارے دادا جان بھی کھیتی باڑی کے چھوٹے چھوٹے کام ہمیں سکھایا کرتے تھے۔ کبھی کبھی جنگل سے کاٹ کر لکڑی لانا، ماموں لوگوں کی بکریاں چرانا، ان کا دودھ نکالنا میرے پسندیدہ مشاغل تھے۔
بہر حال آٹھویں پاس کرنے کے بعد ہم کراچی سدھار گئے۔ مختلف مدارس میں تعلیم حاصل کی۔ مدارس میں بہت سارے کام طلبہ کرتے ہیں۔ مثلاً اپنے کپڑے دھونا، استری کرنا، اور باری باری طلبہ کو کھانا کھلانا، مطعم کی صفائی کرنا، مدرسہ کے لان کی صفائی، مسجد کی صفائی، درسگاہوں کی صفائی، واش رومز کی صفائی طلبہ کرتے ہیں۔ چھوٹے مدارس میں ہر طالب علم یہ کام کرتا ہے۔ یہ سب کام میں نے بھی کیے ہیں اور اس پر مستزاد کئی سال اپنے اساتذہ کے کپڑے دھوئے اور استری کی۔ جامعہ فاروقیہ میں داخلے کے بعد اساتذہ کے کپڑے اور مسجد اورمدرسے کی صفائی کی توفیق نہ مل سکی۔
باقی سارے کام وہاں پر بھی کیے۔ مدارس کے طلبہ اساتذہ کے کام اور خدمت فخریہ کرتے ہیں۔ بڑے مدارس میں طلبہ زیادہ ہوتے ہیں اور صفائی وغیرہ کے کاموں کے لئے ملازمین ہوتے ہیں اور اساتذہ گھروں میں فیملی کیساتھ ہوتے ہیں اس لیے طلبہ کو اساتذہ کی خدمت کا موقع کم ملتا، تاہم میری خوش قسمتی ہوئی کہ مجھے فاروقیہ جیسے بڑے ادارے میں بھی کئی اساتذہ کی مسلسل خدمت کا موقع ملا جن میں استاد ابن الحسن عباسی مرحوم، استاد عبداللطیف معتصم، استاد حبیب اللہ زکریا، استاد منظور یوسف کے چھوٹے چھوٹے کام کئی سال کیے۔ ان کے گھر جامعہ میں ہی تھے اس لیے زیادہ کام نہ ہوسکے۔
عملی زندگی میں آیا تو اللہ نے اچھا سرکاری عہدہ دیا۔ پہلی ہی نوکری سترہ گریڈ کی ملی مگر اس آرام دہ نوکری کیساتھ مدرسہ نصرۃ الاسلام کے ساتھ جڑ گیا۔ جامعہ نصرۃ الاسلام گلگت میں تدریس و رسالہ کی ادارت کے ساتھ کئی سال بہت سے کام کیے۔ مثلاً میگزین آفس کی مسلسل سات سال صفائی خود کی۔ بہت دفعہ طلبہ کے واش رومز صاف کیے۔ شروع کے سالوں میں سالانہ تعطیلات میں دو دو ماہ میں ہی پورے واش رومز صاف کرتا۔ مدرسہ خالی ہوتا تھا۔ تب جون جولائی میں سالانہ تعطیلات ہوتی تھی، جامعہ کا چار حصوں پر مشتمل لان کو پانی دیا کرتا تھا۔ نلکوں سے چار حصوں پر مشتمل بڑے لان کو پانی دینا جان جوکھوں کا کام تھا جو بڑے ذوق سے کیا کرتا تھا۔ یہ تربیت مجھے دینی مدارس سے ہی ملی تھا اور یہ ثواب کی نیت سے کیا کرتا ہوں۔ کیونکہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔
جامعہ نصرۃ الاسلام سے باہر شفٹ ہونے کے بعد جوٹیال جانا ہوا۔ وہاں بھی بہت سارے کام کیا کرتا۔ مثلا گائے کے لیے تازہ چارہ چاہیے ہوتا۔ کوئی کھیت خریدتا اور پورا سیزن چارہ خود کاٹتا تھا۔ بہن بھائی بھی ساتھ دیتے تھے۔ ہمارے ہاں شہروں میں عموماً ان کاموں کو معیوب سمجھا جاتا ہے اور بالخصوص جن کے پاس سرکار میں اچھا عہدہ ہو، اس کو ایسے معمولی کام کرنے پر طعنے دیے جاتے ہیں۔ مجھے بھی یہ طعنے درجنوں لوگوں نے دیے مگر اللہ کا فضل ہے کہ مجھے فرق نہیں پڑا۔
گزشتہ دو سال سے پڑی بنگلہ میں مکان کا تعمیراتی کام کروا رہا ہوں، مزدوروں کیساتھ باقاعدہ کام کرتا۔ بہت سارے کام خود کیے، کافی باجرہ جمع کیا، اس کو چھانی لگایا۔ پلاٹ کافی بڑا ہے۔ آج کل مزدور کیساتھ مل کر روڑا جمع کررہا ہوں۔ اپنے اسٹور کا چھت پر لکڑی خود لگایا۔ مٹی بھی چھان کرکے خود ہی اوپر لگا لیا۔ یوں تعمیراتی کاموں کا بڑا علم اور تجربہ حاصل ہوا ہے۔ مزدوروں، ٹھیکیداروں اور مستریوں کے دھوکوں سے بچ رہا ہوں اور ان کی چالیں سمجھتا بھی ہوں۔ نئے تجربات بھی ہورہے ہیں تعمیراتی امور میں۔
اپنے پلاٹ میں باغیچہ بنایا ہے۔ ایک سال میں چار سو کے قریب درخت لگائے ہیں۔ دسمبر سے ہی شجرکاری شروع کرتا ہوں۔ یہ دوسرا سال ہے شجرکاری کا۔ گائے کے لیے چارہ بھی کاشت کیا ہے۔ سال بھر پودوں اور چارہ کو پانی دیتا رہا۔
بہر حال ان تمام کاموں میں اپنا آٹھ سالہ بیٹا عمر علی بھی ساتھ رکھتا۔ وہ بڑے شوق سے میرے ساتھ لگا رہتا ہے۔ میری چھوٹی چھوٹی بیٹیاں بھی زور زبردستی روز میرے ساتھ پلاٹ جاتی ہیں۔ بہنیں اور بیویاں بھی پلاٹ یاتری کرتی رہتی ہیں۔ کوئی نہ کوئی کام کرتی ہیں۔ سبزیاں اُگاتی، ان کی صفائی کرتی ہیں اور بےکار بوٹیاں نکال دیتی ہیں۔ کیاریاں بناتی ہیں۔ پھول اور گلاب لگاتیں ہیں۔ سبزیوں کو پانی دیتی ہیں میرے ساتھ۔ گھر میں بھی خوب سبزیاں اگائی ہوئی ہیں۔
یہ عملی زندگی کی تربیت ہے۔ یہاں بھی کئی لوگ ترچھی نگاہوں سے ہمیں دیکھتے ہیں کہ اتنا بڑا آفیسر کام کرتا ہے اور چمہ گوئیاں بھی کرتے ہیں۔ انہیں کیا معلوم میرے نبی ﷺ نے کام کیے ہیں اور جن اساتذہ سے ہم نے کسب فیض کیا ہے وہ سب بھی کام کرتے تھے۔۔ بہت بڑے بڑے علماء و مشائخ کی سوانح عمریاں پڑھی ہیں۔ بڑے بڑے دنیا داروں اور دینداروں کی لائف کا مطالعہ کیا ہے۔ وہ اپنے گھر کے بہت سارے کم خود کرتے تھے۔
یہ میرے وہ کام ہیں جو پروفیشنل ذمہ داریوں، دینی کتب کی تدریس، مستقل مطالعہ، کالم نگاری اور کاروبار کے علاوہ ہیں۔ ان کاموں کے ساتھ گھر والوں کو بھی ٹائم دیتا اور قریبی رشتہ داروں کو بھی۔
قارئین، اس ساری تفصیل کے پیچھے میرا فکر و خیال ہے۔ میں نے سینکڑوں بڑے لوگوں کی آپ بیتیاں پڑھی ہیں میں نے ان کے لائف اسٹائل کو پرکھنے کی کوشش کی ہے۔ مسلم ہو یا غیر مسلم، یہ سب لوگ اپنے ہاتھ سے کام کیا کرتے تھے۔ ان کے درمیان کچھ اقدار میں یہ قدر بھی مشترک تھی۔ کام کرنے کے حوالے سے میرا وژن علمی اور عملی طور پر بالکل کلیر ہے۔ اس لئے مجھے ان سب کاموں میں مزہ آتا ہے اور کام کو انجوائے کرتا ہوں اور کام سے محبت بھی۔ جب کام سے محبت ہو تو آدمی تھکتا نہیں اور میں بھی نہیں تھکتا۔
آپ رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ کا مطالعہ کیجیے۔ سیرت النبی ﷺ کی کوئی سے مستند کتاب اٹھا لیجیے، آپ کو حیرت ہوگی کہ رسول اللہ ﷺ کیسے کا کیا کرتے تھے۔ آپ کے صحابہ اور متبعین نے بھی خود کام کیا۔ رسول اللہ ﷺ کے پاس لاکھوں جانثار تھے مگر اپنے کام خود کرتے تھے۔ یہی معمول اصحاب و ائمہ کا بھی رہا ہے۔ رسول اللہ اپنے کپڑے خود صاف کرتے، جوتے خود گانٹھتے تھے۔ اپنے کپڑوں کا رفو خود کرتے۔ اور بہت سارے کام کرتے تھے۔