Peer
پیر
میں نے پیر صاحب سے اجازت چاہی، پیر صاحب کا کہنا تھا "کچھ دن مزید رکو، اگر چالیس دن نہیں رک سکتے تو"۔ خانقاہ کا ماحول ایسا پرنور تھا کہ چالیس دن کیا چالیس سال رہنے کی بھی کشش موجود تھی لیکن گھریلو مجبوریاں اور پروفیشنل ذمہ داریوں کی وجہ سے مزید ٹھہرنے کی گنجائش موجود نہیں تھی۔
دو دن کے بعد پھر اجازت چاہی۔ واپسی سے دو دن پہلے پیر صاحب کے حجرہ میں گیا تھا۔ وہاں ایک نوجوان پڑھا لکھا مرید بھی پیر صاحب سے اجازت لینے کے لئے موجود تھا۔ پیر صاحب نے ان کو کچھ عنایت کیا۔ اتنے میں پیر صاحب نے ان سے کہا۔ ان واسکٹ میں سے جو پسند آئے لیتے جاؤ۔ شاید اس نے پیر صاحب سے ڈیمانڈ کی ہوئی تھی۔ وہ واسکٹ پیر صاحب کی استعمال شدہ تھیں۔ بالکل نئی لگ رہی تھیں۔
میں نے بھی ڈرتے ہوئے ایک واسکٹ لینے کی اجازت چاہی۔ پیر صاحب نے انتہائی سادگی سے کہا: "ایک نہیں جتنی چاہیے اٹھا لیں"۔ میں نے خاموشی سے ایک واسکٹ اٹھا لی۔
اگلے دن پیر صاحب کے درس قرآن کے بعد اجازت چاہی اور ساتھ ہمت کر کے کہا، حضرت جن قلموں سے تفسیر لکھ رہے ہو ان میں ایک دو عنایت کیجئے گا۔ پیر صاحب نے اجازت دے دی لیکن پھر تھوڑی دیر بعد بلاوا آ گیا۔ حجرہ کے پاس پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں پیر صاحب اپنے ایک پنجابی مرید کے ساتھ کھڑے ہیں، انہیں روغن زیتون کی ایک بوتل تھما رہے اور ساتھ ارشاد بھی کر رہے ہیں۔ پابندی سے استعمال کریں۔ تم پرہیزی کھانا کھاتے ہو جو شاید یہاں خانقاہ میں نہ ملتا ہو۔
انہیں رخصت کیا اور میرا ہاتھ پکڑ کر، اپنے حجرہ کے دروازے تک لے گئے، دفعتاً جیب سے کچھ پیسے (جو کئی ہزار تھے) نکالے اور مجھے تھما دیے۔ پیر صاحب نے، ساتھ کھڑے خادم کو اشارہ کیا۔ انہوں نے ایک سفید جوڑا مجھے تھما دیا۔ پھر پیر صاحب نے کہا۔ آپ لکھاری ہو۔ آپ کو قلم بھجوا رہا ہوں اور کتابیں بھی۔ میں انتہائی حیران کھڑا تھا۔ یہ کیسا پیر ہے جو عنایت ہی عنایت کرتا ہے۔ جو نذرانے لینے کی نہیں دینے کی کوشش کر رہا ہے۔
مجھ ایک کو نہیں، بہت ساروں کو دے رہا ہے۔ بہت ساروں نے پیر صاحب سے وصولی کے قصے سنائے تھے۔ ایک خلیفہ مجاز نے تو یہاں تک کہا کہ بھائی ہم تو انتظار میں رہتے ہیں کہ حضرت کچھ عنایت کریں۔ خیر تھوڑی دیر میں ایک اور خادم خاص (سیف اللہ) آیا اور کئی قلم، کچھ نئے اور کچھ استعمال شدہ تھے، پکڑا دیے اور ساتھ کہا کہ حضرت نے اپنی پوری کتابوں کا سیٹ تمہیں تحفہ دینے کا حکم دیا ہے۔ کچھ کتابیں دستیاب نہیں، ان کا بعد میں انتظام کرتا ہوں جو دستیاب ہیں وہ لیتے جائے گا صبح۔
بہرحال اگلی صبح کتابوں کا توڑا لیتے ہوئے روانہ ہوا۔ آج تک پیر صاحب کو یاد کر رہا ہوں۔ اور ہدایات لے رہا ہوں۔ اور یہ پیر صاحب مصروفیت کا بہانہ نہیں بناتے، بلکہ میرے لمبے لمبے واٹس ایپ مسیجز کا جواب بھی دیتے ہیں اور تزکیہ کا اگلا سبق بھی عنایت کرتے ہیں۔
بلاشبہ اس صدی میں ایسے پیر کا ہونا غنیمت ہی ہے۔ اور ہاں پیر صاحب کا علم بھی مسلم ہے اور نسبت بھی۔ قرآن سے خصوصی دلچسپی ہے۔ انتہائی سلیس انداز میں عام فہم تفسیر لکھ رہے ہیں۔ بعض مقامات پر انتہائی عالمانہ بحثیں بھی کی ہیں۔ ایک آیت کی تفسیر تو تشریح کئی صفحات پر مبنی ہے۔ مجھے دو جلدیں حرف بہ حرف پڑھنے کا موقع ملا ہے۔
آج ایک پیر کی کہانی سنی جو اپنے مرید سے دو روپیہ کے سکے وصول کر رہا تھا، مرید پیر کو بتا رہا تھا کہ 200 کا مقروض ہوں۔ پیر صاحب نے دو سکے قبول لیے اور مرید کا قرضہ 202 ہوا۔ پیر نے ان کے لیے دعا کی، پیر صاحب علامہ اقبال کے مہمان تھے۔ اقبال دعا میں شریک نہیں ہوئے بلکہ حقہ پیتے رہے۔ جب یہ کہانی پڑھی تو اپنے پیر یاد آئے۔
پھر دل نے گواہی دی۔ ٹھیک جگہ پر جا پہنچا ہوں۔ پیر ہو تو ایسا ہو۔
(سید مختارالدین شاہ صاحب مدظلہ)۔