Mehman Nawazi Seerat e Rasool Ki Roshni Mein
مہمان نوازی سیرت الرسول ﷺ کی روشنی میں
رسولِ کائناتﷺ کو اللہ رب العزت نے نسل انسانی کے لیے ایک کامل نمونہ اور اسوہ حسنہ بنا کر دنیا میں بیجا۔ آپﷺ کی پوری زندگی کو قیامت کی صبح تک کے لیے معیار بنادیا۔ سیرت طبیہﷺ کا ہر گوشہ تابناک اور ہر پہلو روشن ہے۔ آپﷺ کی ولادت باسعادت سے لے کر رحلت تک کا ہر ہر لمحہ اللہ تعالی کی منشاء سے آپﷺ کے جانشینوں نے محفوظ کیا۔
ہم اگر عہد رسالت کی بات کریں تو اآپﷺ کے تمام حالات زندگی، معمولات زندگی، طرز حکومت، طرز تعلیم، طرز تبلیغ، انداز و اطوار، مزاج و رجحان، حرکات و سکنات، نشست و برخاست اور عادات وخیالات غرض ہر چیز اس میں شامل ہوگی۔ تاہم ہم کوشش کریں گے کہ اختصار کیساتھ ددینی تعلیمات اور محمد مدنی العربی ﷺ کی سیرت کی روشنی میں مہمان نوازی اور اکرام مسلم کے حوالے سے چند اہم نکات آپ سامعین کی خدمت میں پیش کریں۔
دنیا کی تمام مہذب قوموں کا شعار ہے کہ وہ مہمانوں کی آمد پر ان کا پرتپاک استقبال کرتی ہیں۔ مہمانوں کو خوش آمدید کہا جاتا ہے۔ اور ان کی خاطر مدارت کی جاتی ہے۔ ہر ملک اور قوم کے مہمان نوازی کے انداز و اطوار اور طریقے الگ الگ ہیں۔ تاہم یہ بات ایک جیسی ہے کہ دنیا کی تمام مہذب قومیں مہمان کی عزت اپنی عزت اور مہمان کی توہین اپنی توہین سمجھتی ہیں۔
دین اسلام میں مہمان نوازی کے متعلق جو بہترین اصول و قواعد ہیں اور جس شاندار انداز میں مہمان نوازی کا حکم دیا گیا ہے اسکا ذکر قرآن کریم میں بھی ہے اور اس کی مثالیں ہمیں آپ ﷺ کی سیرت میں بے تحاشا ملتی ہیں۔ کتب احادیث بھری پڑی ہیں۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اور علماء امت کی سیرت بھی اس حوالے سے بہت واضح ہے۔ اور مسلمانوں نے مہمان نوازی کو اپنا شعار بنا رکھا ہے۔
مہمان نوازی علامات ایمان میں سے ہے۔ اور تمام انیباء علہیم السلام کی سنت ہے۔ اللہ رب العزت نے قرآن میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی مہمان نوازی کا ذکر کیا ہے۔ سیدنا ابراہیم بڑے مہمان نواز تھے۔ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے: وَلَقَدْ جَاۗءَتْ رُسُلُنَآ اِبْرٰهِيْمَ بِالْبُشْرٰي قَالُوْا سَلٰمًا، قَالَ سَلٰمٌ، فَمَا لَبِثَ اَنْ جَاۗءَ بِعِجْلٍ حَنِيْذٍ (ھود: 69)
ترجمہ: اور ہمارے فرشتے(انسانی شکل میں) ابراہیم کے پاس (بیٹا پیدا ہونے) کی خوشخبری لے کر آئے۔ انہوں نے سلام کیا۔ ابرہیم علیہ السلام نے بھی سلام کہا۔ اور بغیر کسی تاخیر کے گائے کا بھنا ہوا بچھڑا لے آئے۔ (ان کی مہمان نوازی کے لیے)۔ "اس سے معلوم ہوا کہ فرشتے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہاں انسانی صورت میں پہنچے تھے اور ابتداء انہوں نے اپنا تعارف نہیں کرایا تھا۔ اس لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خیال کیا کہ یہ کوئی اجنبی مہمان ہیں اور ان کے آتے ہی فورا ان کی ضیافت کا انتظام فرمایا۔" (تفہیم القرآن)
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا معمول یہ تھا کہ کبھی تنہا کھانا نہ کھاتے، بلکہ ہر کھانے کے وقت تلاش کرتے تھے کہ کوئی مہمان آجائے تو اس کے ساتھ کھائیں۔ (قرطبی) حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی عادت مہمان نوازی کے مطابق بشکل انسان آنے والے فرشتوں کو انسان اور مہمان سمجھ کر مہمان نوازی شروع کی اور فوراً ہی ایک تلا ہوا بچھڑا سامنے لا کر رکھ دیا۔ آنے والوں کی مہمانی کرنا آداب اسلام اور مکارم اخلاق میں سے ہے، انبیاء و صلحاء کی عادت ہے۔
آپ ﷺ نے مہمان کے اکرام اور ضیافت کا واضح حکم دیا ہے۔ آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: "جو شخص اللہ جل شانہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے مہمان کا اکرام کرے۔ مہمان کا جائزہ (خصوصی اعزاز و اکرام) ایک دن ایک رات ہے، اور مہمانی تین دن تین رات ہے۔ اور مہمان کے لیے یہ بات جائز نہیں کہ وہ اتنا طویل قیام کرے کہ جس سے میزبان مشقت میں پڑجائے۔"(بخاری ح/6019)
آپ ﷺ کے الفاظ دھرا رہا ہوں: "ومن کان یومن باللہ والیوم الآخر فلیکرم ضیفہ"۔ مہمان نوازی انسانی اور معاشرتی اخلاق کا ایک اہم اور بہترین خلق ہے۔ تعلیمات اسلامی میں مہمان نوازی پر خوب زور دیا گیا ہے۔ سیرت کی کتب میں آتا ہے: جب آپﷺ غار حرا سے واپس آئے تو سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو ڈھارس بندھائی اور فرمایا "اللہ کبھی آپ کو رسوا نہیں کرے گا۔ آپ تو اخلاق فاضلہ کے مالک ہیں۔ مفلسوں کے لیے آپ کماتے ہیں "۔ اور خصوصیت کے ساتھ آپ ﷺ کی مہمان نوازی کے متعلق سیدہ نے فرمایا: "وتقری الضیف " آپ مہمان نوازی کرتے ہیں اورمہمان نوازی میں آپ ﷺ بے مثال ہیں۔ (بخاری ح 3)
جو لوگ مہمان نوازی اور اکرام مسلم سے کتراتے ہیں ان کے لیے وعیدیں ہیں۔ آپ ﷺ نے ایک موقع پر فرمایا "لَا خَيْرَ فِيمَنْ لَا يُضِيف" " جو شخص مہمان نوازی نہ کرے اس میں کوئی خیر نہیں۔ (مسند احمد، ح/ 9087) یعنی اس شخص میں کوئی بھلائی نہیں جو مہمان نوازی نہیں کرتا۔
آپ ﷺ نے فرمایا: تم اپنے مہمان کے ساتھ کھانا کھالو۔ کیونکہ مہمان اکیلے کھانے سے شرماتا ہے۔ (شعب الایمان ح/9186)۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ آپ ﷺ صرف مسلمانوں اور جاننے والوں کی مہمان نوازی نہیں کرتے تھے بلکہ کفار کی بھی مہمان نوازی فرماتے تھے۔ مہمان نوازی صرف مسلمانوں کے ساتھ خاص نہیں بلکہ اگر کوئی کافر بھی دروازے پر آجائے تو اس کی ضیافت کرنی چاہئے اور اسے پیٹ بھر کھلانا پلانا چاہئے:
"حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، کہ نبیﷺ کے پاس ایک مہمان آیا وہ شخص کا فر تھا رسول اللہﷺ نے اس کے لیے ایک بکری کا دودھ دوہنے کا حکم دیا اس نے دودھ پی لیا پھر دوسری بکری کا دودھ دوہنے کا حکم دیا اس نے اس کو بھی پی لیا، پھر ایک اور (بکری کا دودھ دوہنے) کا حکم دیا اس نے اس کا بھی پی لیا، حتی کہ اس نے اسی طرح سات بکریوں کا دودھ پی لیا پھر اس نے صبح کو اسلام لے آیا رسول اللہﷺ نے اس کے لیے ایک بکری کا دودھ دوہنے کا حکم دیا اس نے وہ دودھ پی لیا پھر دوسری بکری کا دودھ دوہنے کا حکم دیا، وہ اس کا سارا دودھ نہ پی سکا تو رسول اللہﷺ نے فرما یا: مسلمان ایک آنت میں پیتا ہے جبکہ کافر سات آنتوں میں پیتا ہے۔ مسلم، کتاب الاشربہ، ح 5379)۔
اسی طرح ایک مرتبہ آپ ﷺکے پاس ایک مہمان آیا تو آپﷺنے ایک یہودی کے پاس اپنی زرہ رہن (یعنی گروی) رکھ کر اس کی ضیافت فر مائی۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: مہمان کو دروازہ تک رخصت کرنے جائے(شعب الایمان ح/ 9202)۔
آپ ﷺ کی بارگاہ میں جو بھی وفود آتے تھے ان کی خوب مہمان نوازی فرماتے تھے۔ احادیث کی کتب میں آتا ہے کہ آپ ﷺ کی خدمت میں جو وفود آتے آپ ﷺ ان کی خاطر داری اور مہمان نوازی کا فرض صحابہ رضوان اللہ علیہم کے سپرد فرماتے۔ ایک دفعہ قبیلہ عبدالقیس کے مسلمانوں کا وفد آپ ﷺ کی خدمت حاضرہوا۔ تو آپ نے انصار کو ان کی مہمان نوازی کا ارشاد فرمایا چنانچہ انصار ان مہمانوں کو اپنے ساتھ لے گئے۔ صبح کے وقت وہ لوگ حاضر ہوئے تو آپ نے دریافت فرمایا کہ تمہارے میزبانوں نے تمہاری خاطر مدارت کیسی کی۔ انہوں نے کہا یا رسول اللہ بڑے اچھے لوگ ہیں۔ ہمارے لیے نرم بستر بچھائے، عمدہ کھانے کھلائے اور پھر رات بھر کتاب و سنت کی تعلیم دیتے رہے۔
بعض علماء کرام نے لکھا ہے کہ دیہاتوں اور گاؤں والوں پر میزبانی واجب ہے کہ جو شخص ان کے گاؤں میں ٹھہرے اس کی مہمانی کریں ؛ کیوں کہ وہاں کھانے کا کوئی دوسرا انتظام نہیں ہوسکتا اور شہر میں ہوٹل اور دیگر رہنے اور کھانے پینے وغیرہ سے اس کا انتظام ہوسکتا ہے، اس لیے شہر والوں پر میزبانی واجب نہیں بلکہ سنت اور مستحب ہے۔
انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آپ ﷺ اور صحابہ کرام و بزرگوں کے اتنے شاندار اسوہ ہونے کی باوجود بھی مسلمانوں میں مجموعی طور پر مہمان نوازی کی صفت ختم ہوتی جارہی ہے۔ اور جو لوگ مہمان نوازی میں تکلفات میں پڑتے ہیں دراصل انہوں نے تمدن اسلامی کی سادگی کو کھو دیا ہے۔ہمیں مہمان نوازی میں وضعداری اور بے جا تکلفات نے بری طرح جھکڑ لیا ہے۔
ہمیں چاہیے کہ وضعداری کی بجائے گھر میں جو ماحضر ہے اس کو مہمان کے سامنے خندہ پیشانی سے پیش کریں تاکہ مہمان نوازی بھی ہو اور ثواب بھی ملے۔ گھر میں کچھ خاص نہ ہونے کی وجہ سے مہمان نوازی کو ترک کرنا مناسب نہیں، آپ ﷺ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام و اہل بیت کی سیرت ہمارے سامنے ہے۔ آپ ﷺ نے کبھی بھی مہمانوں کو بغیر مہمان نوازی اور اکرام کے نہیں جانے دیا۔
آپ ﷺ نے ہمیں وہ طریقے بھی سکھائے کہ کس طرح مہمان کی مہمان نوازی کرنی ہے اور کتنے دن تک کرنی ہے۔ اور ساتھ یہ بھی بتایا کہ میزبان کو کیا کرنا چاہیے اور ان تمام حرکات و سکنات سے بچنے کی ترغیب دی جن سے مہمان کو تکلیف کا احساس ہوا۔ یقینا ایسا کرنے سے باہمی محبت کم ہوکر مہمان نوازی ایک رسم بن جاتی ہے جس سے اسلامی اخوت ومحبت کا رشتہ کم ہوجاتا ہے اور معاشرہ تباہی کی طرف جاتا ہے۔
یہ ہمارے لیے باعث اطمینان ہے کہ گلگت بلتستان کے لوگ بہت مہمان نواز ہیں۔ آپ گلگت بلتستان کے کسی بھی کونے میں چلے جائیں لوگ انتہائی خلوص کیساتھ آپ کی مہمان نوازی کریں گے۔ گلگت بلتستان کے لوگوں کی مہمان نوازی کا سارا کا سارا صلہ تعلیمات اسلامی، آپ ﷺ، اہل بیت کرام اور صحابہ رضوان اللہ علیہم کے طفیل اور مرہون منت ہے۔