Manzil Muntazir Hai
منزل منتظر ہے
میرا ایک مولوی دوست تھا۔ جو مجھ سے کچھ جونیئر بھی تھا۔ کافی پہلے وہ مجھے غامدی وغیرہ کے طعنے بھی دیا کرتا تھا۔ اور اشاروں کنایوں میں مجھے اکابر سے ٹوٹا ہوا تارہ سمجھتے تھے۔ پھر انہوں نے یونیورسٹی کے دروازے پر دستک دی اور عصری کسی اکیڈمی کے ملازم بھی ہوئے۔ تب وہ دوست ایک طرف سے اپنے اساتذہ(مدرسہ والے) سے جڑے جانے کی کوشش کرتے اور دوسری طرف غامدیت(عصری معاملات) میں دلچسپی لے رہے ہوتے۔
تب میں نے ان سے عرض کیا تھا۔ اب دنیا دیکھنے لگے ہو تو اعراف میں کھڑے ہو۔ کسی بھی وقت کسی بھی سائیڈ پر گر سکتے ہو۔ وہ بیچارہ کافی عرصہ کشمکش میں رہا۔ پھر یوں ہوا کہ غامدی تو کیا غامدی کے تلامذہ کو بھی استادمحترم استادمحترم کے لاحقے و سابقے لگانے لگا۔
مجھے اس دوست پر قطعا اعتراض نہیں۔ یہ تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔ لیکن ان تبدیلیوں کے آڑ میں اپنے مدارس کے اساتذہ کی تضحیک نہیں ہونی چاہیئے اور نہ ہی ان پر طنز، جیسے پہلے غامدی و مودودی نما لوگوں اور عصری جامعات سے وابستہ دینی اسکالرز پر طعن و تشنیع اور طنز و تضحیک ہوا کرتا تھا۔ البتہ دلیل و شائستگی کیساتھ علمی تنقید و اختلاف ہر حال میں جاری رہنا چاہیے۔
یہ میرے لیے باعثِ اطمینان ہے کہ بنیادی عقائد و نظریات کے باب میں اپنے اکابر و منہج سے اختلاف کا سوچا تک نہیں اور نہ ہی اپنے مدارس و اکابر کی آڑ میں کسی اور مسلک کے اکابر اور عصری معاملات کو دینی نکتہ نظر سے دیکھنے والے مذہبی اسکالرز کو گالیاں دی اور نہ ہی انہیں تضحیک و طعن کا نشانہ بنایا بلکہ ان کی علمی کاوشوں سے بھرپور استفادہ بھی کیا بلکہ جاری ہے۔ ہاں انتظامی و انصرامی معاملات میں اپنے عصری و دینی اساتذہ اور اداروں کی پالیسیوں سے خوب اختلاف کیا اور آئندہ بھی احترام کے دائرے میں رہ کر کیا جاتا رہے گا۔ اور جہاں کہیں علمی اختلاف کی ضرورت پڑی بھی تو دلیل وبرہاں کیساتھ مکمل احترام و شائستگی کو ملحوظ خاطر رکھا جائے گا۔ ان شاء اللہ
مدارس و جامعات میں تعلیمی سال کا اختتام ہونے کو ہے۔ ہزاروں طلبہ تکمیلِ درس نظامی کی خلعت فاخرہ پہن کر سماج میں نکلنے والے ہیں۔ اگر آپ نے تھوڑی سی وسعت ظرفی کا مظاہرہ کیا تو یقین جانیں پوری دنیا آپ کا استقبال کرے گی۔ زندگی کا ہر شعبہ آپ کو ویلکم کرے گا، لیکن اس سے پہلے آپ اپنے آپ سے یہ سوال ضرور کیجے گا کہ کیا آپ شعبہ ہائے زندگی کے ہر شعبے بلکہ کسی خاص شعبہ میں رہنمائی کرنے کی صلاحیت سے بہرہ ور ہیں؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو پھر جہاں آپ کا دل کرتا ہے اور جس شعبہ میں آپ بہتر کام کرسکتے ہیں وہی قدم رکھیے اور دین و دنیا کی ترقی کرتے جائیں۔ اگر جواب نفی میں ہے تو یہ جان لیں۔ ابھی آپ نے مزید بہت کچھ سیکھنا ہے۔
اگلا سوال یہ ہے کہ آپ نے کیا سیکھنا ہے، تو اس کے لیے سب سے پہلے اپنے وسائل ومسائل (صلاحیت، ذوق و ذہانت، وقت، عمر، گھریلو مسائل، مالی صورت حال) کا اچھی طرح جائزہ لیں اور جس کام و شعبے کے لیے آپ فٹ ہیں اس کی بنیادیں مزید دو چار سال پختہ کرلیں اور خوب سیکھ کر مطلوبہ صلاحیت پیدا کیجےاور اللہ کا نام لے کر میدان عمل میں اتر جائیں۔ مجھے امید ہے زندگی آپ کا استقبال کرے گی۔ منزل آپ کی راہیں تک رہی ہوگی۔
ایک گزارش ضرور ہے۔ آپ جس بھی شعبے میں قدم رکھیں، براہ کرم دیگر شعبوں اور اپنے روایتی انداز فکر سے اختلاف کرنے والوں کو طعن و تشنیع اور طنز و تضحیک کا نشانہ نہ بنائیں۔ کل جب آپ کی زندگی معتدل ہوجائے گی، اللہ آپ کو بطور معتدل عالم دین اور امت وسط کے فرد، خدمات کی توفیق عطا کرے، تب آپ کے کہے اور لکھے ہوئے الفاظ اور تقاریر آپ کا پیچھا نہ کریں۔ یہ کہا ہوا مصبیت بن کر ہمیشہ پیچھا کرتا رہتا ہے۔ لہذا احتیاط کیجے۔
خدارا! صرف مسجد و مدرسہ کو لازم قرار مت دو، بلکہ پوری دنیا کو مسجد و مدرسہ اور درسگاہ سمجھ کر کود جاؤ، اور جہاں تک اصلاح و درستگی کا اقدام کرسکو، کرتے جاؤ۔ سچ یہ ہے کہ پوری دنیا آپ کے لیے تجربہ گاہ ہو۔ اور آپ بہتر سے بہتر تجربہ کرنے میں کامیاب ہوں۔ آپ بطور فاضل، علم ودانش، تحقیق و تالیف، سائنس و ٹیکنالوجی، ابلاغ و تشہیر، تحریر و تقریر، عمل و اصلاح، تجارت و معیشت، خدمت و طریقت، سیاست و سیادت غرض ہر جگہ جھنڈے گاڑھ سکتے ہیں۔
بس اس کے لیے اپنا جائزہ اچھی طرح لیں، اپنے چاہنے والوں سے مشاورت کریں۔ جس فیلڈ میں جانا چاہتے ہیں اس کے ماہرینِ اور ناموروں سے بھرپور مشورہ اور استفادہ کریں، ان کی آپ بیتیاں اور سوانح پڑھ لیں۔ پھر اپنی فیلڈ منتخب کریں، منتخب فیلڈ/شعبہ کی بنیادیں دو چار سال مزید سیکھ کر پختہ کرلیں اور پھر سفر کا آغاز کیجے۔ بس منزل آپ کا انتظار کررہی ہوگی۔ بلکہ آپ کو بلا رہی ہوگی۔ آپ منزل(سماج) کی ضرورت اور آواز کو پہچان لیں بلکہ لبیک کہیں۔
اپنی منزل تک پہنچنے کے لیے محبت و احترام کے جملہ راستوں پر سفر کریں اور تضحیک و تذلیل اور طنز و تشنیع کی جھاڑیوں سے گریز کرتے ہوئے نکل جائیں۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔