Madaris Ki Registration Ka Qazia
مدارس کی رجسٹریشن کا قضیہ
پاکستان میں دینی مدارس کی رجسٹریشن کا مسئلہ ہمیشہ ایک پیچیدہ اور متنازع موضوع رہا ہے۔ تاریخی طور پر یہ مدارس سوسائٹی ایکٹ کے تحت رجسٹر ہوتے رہے ہیں، جو وزارت صنعت و تجارت کے ماتحت آتے ہیں۔ مدارس کے اکابرین نے بارہا یہ مؤقف اپنایا کہ چونکہ یہ ادارے خالصتاً تعلیمی خدمات انجام دے رہے ہیں، لہٰذا انہیں وزارت تعلیم کے ماتحت ہونا چاہیے، نہ کہ صنعت و تجارت کے۔ یہ ایک جائز اور منطقی مطالبہ تھا، جو کئی دہائیوں تک حکومتی سرد مہری کا شکار رہا۔
بالآخر، عمران خان کے دورِ حکومت میں یہ دیرینہ مطالبہ تسلیم کر لیا گیا اور دینی مدارس کو وزارت تعلیم کے تحت رجسٹر ہونے کی اجازت دی گئی۔ اس فیصلے کو دینی و تعلیمی حلقوں میں مثبت پیش رفت کے طور پر دیکھا گیا، کیونکہ یہ مدارس کے تعلیمی تشخص کو تسلیم کرنے کے مترادف تھا اور انہیں قومی دھارے کے مین اسٹریم اداروں میں شامل کرنے کی علمی کوشش تھی۔ مزید برآں، تمام مسالک کے نئے تعلیمی بورڈ بھی اسی وزارت کے ماتحت رجسٹر ہوئے، جو پاکستان میں دینی و عصری تعلیم کے انضمام کی طرف ایک بڑا قدم تھا۔
یہ سوال اٹھ سکتا ہے کہ کیا مدارس ابھی تک نان قومی دھارے میں شامل تعلیمی ادارے ہیں؟ تو ماہرین یہی کہتے ہیں کہ مدارس قومی اداروں میں شامل تعلیمی ادارے نہیں بلکہ نان قومی دھارے میں شامل ادارے کہلائیں گے۔
ان دونوں میں تھوڑا فرق کیا جاتا ہے۔ قومی دھارے میں شامل تعلیمی ادارے اور نان قومی دھارے میں شامل تعلیمی اداروں میں بنیادی فرق ان کے نصاب، تعلیمی مقاصد اور حکومتی نگرانی کے پیمانے پر ہوتا ہے۔
1۔ قومی دھارے میں شامل تعلیمی ادارے:
یہ وہ تعلیمی ادارے ہیں جو حکومت کے زیرِ انتظام یا حکومت سے منظور شدہ نصاب کے تحت کام کرتے ہیں اور یہ ادارے وزرات تعلیم کے ماتحت ہوتے ہیں۔
ان اداروں کی خصوصیات درج ذیل ہیں کہ۔۔
حکومت کی جانب سے منظور شدہ نصاب پڑھایا جاتا ہے یا تعلیمی پالیسی کے مطابق اپنا سلیبس تیار کرتے ہیں۔
تعلیمی بورڈز یا جامعات سے الحاق ہوتا ہے۔
ڈگریاں اور اسناد سرکاری طور پر تسلیم شدہ ہوتی ہیں۔
نصاب میں عصری علوم جیسے سائنس، ریاضی اور سماجی علوم شامل ہوتے ہیں۔
تعلیمی پالیسیوں اور قوانین کی پیروی کرتے ہیں۔ مثلاً سرکاری اسکولز، کالجز اور یونیورسٹیاں اور نجی تعلیمی ادارے جو حکومت کے وزرات تعلیم کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں۔
2۔ نان قومی دھارے میں شامل تعلیمی ادارے:
یہ وہ ادارے ہیں جو حکومت سے منظور شدہ نصاب کی بجائے اپنا مخصوص نصاب پڑھاتے ہیں اور اکثر حکومتی نگرانی سے آزاد ہوتے ہیں۔
ان کی خصوصیات یہ ہیں:
حکومت کے شعبہ تعلیم سے باضابطہ منظوری ضروری نہیں ہوتی۔
زیادہ تر مذہبی یا مخصوص تعلیمی مقاصد کے لیے قائم ہوتے ہیں۔
اپنے نصاب اور نظامِ امتحان کے تحت کام کرتے ہیں۔
بعض اوقات ان کی ڈگریاں سرکاری طور پر تسلیم نہیں کی جاتیں۔
مثلاً دینی مدارس (جو سرکاری نصاب کے ساتھ الحاق نہیں رکھتے) اور غیر رسمی تعلیمی ادارے (اسکلز سینٹرز، ٹریننگ انسٹی ٹیوٹس) ان دو قسم کے اداروں میں مقاصد، قانون اور سرٹیفکیٹس میں کچھ بنیادی فرق ہے۔
قانونی حیثیت کے اعتبار سے قومی دھارے کے ادارے حکومت کے تعلیمی نظام کا حصہ ہوتے ہیں جبکہ نان قومی دھارے کے ادارے آزادانہ طور پر کام کرتے ہیں۔
مقاصد کے اعتبار سے قومی دھارے کے اداروں کا مقصد طلبہ کو قومی اور عالمی تقاضوں کے مطابق تعلیم دینا ہوتا ہے، جبکہ نان قومی دھارے کے ادارے مخصوص مذہبی یا نظریاتی تعلیم فراہم کرتے ہیں۔
سرٹیفکیشن کے اعتبار سے قومی دھارے کے اداروں کی اسناد قومی اور بین الاقوامی سطح پر تسلیم کی جاتی ہیں، جبکہ نان قومی دھارے کے اداروں کی اسناد محدود پیمانے پر قابلِ قبول ہوتی ہیں۔ مدارس کے اسناد کی حد تک محدود پیمانے میں بھی قابلِ قبول بنانے کے لیے ایک گھن چکر سے گزرنا پڑتا ہے۔
نیا مسئلہ: خود مختاری یا نظام کا خوف؟
تاہم، جب وفاق المدارس العربیہ اور تنظیمات المدارس سے منسلک مدارس کے مہتممین کو وزارت تعلیم کے تحت کام کرنے کے بعض اصول و ضوابط سخت محسوس ہوئے، تو انہوں نے اپنے خدشات کا اظہار کیا۔ انہیں یہ اندیشہ ہوا کہ وزارت تعلیم کے ماتحت آنے سے ان کی خود مختاری محدود یا سلب ہو سکتی ہے اور حکومتی مداخلت کا امکان بڑھ جائے گا۔
یہی وجہ تھی کہ وفاق کی قیادت اور مہتممین صاحبان نے مولانا فضل الرحمن کی ایکٹیو کیا اور انہی کی قیادت میں انہوں نے سوسائٹی ایکٹ کے تحت دوبارہ رجسٹریشن کا مطالبہ کیا، تاکہ تعلیمی اداروں کی خود مختاری کو محفوظ کیا جا سکے۔ ان کی یہ کوشش کامیاب رہی اور نیا قانون پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظور ہو کر صدارتی منظوری کے لئے پیش کیا گیا جو صدر پاکستان نے منظور نہیں کیا بلکہ اعتراضات لگا کر واپس بھیجا۔ اس کے بعد ملک بھر میں ایک ہیجان اور ہنگامہ آرائی شروع ہوئی اور بالخصوص مولویوں نے ایک دوسروں کو کٹہرے میں کھڑا کرنا شرع کر دیا جو بہرحال مناسب نہیں۔
نئے قانون کے نافذ ہونے سے، وزارت تعلیم کے ماتحت رجسٹر شدہ تمام مدارس خود بخود سوسائٹی ایکٹ کے تحت وزارت صنعت و تجارت کے ماتحت آئیں گے۔ یہ تبدیلی ان مدارس کے لیے تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے جو وزارت تعلیم کے تحت تین چار سال سے بہتر تعلیمی نظام اور جدید سہولیات کے ساتھ کام کر رہے تھے اور اپنے آپ کو قومی دھارے کے تعلیمی اداروں میں شامل کروا رہے تھے۔ اس ایکٹ کے نافذ العمل ہونے سے یہ مدارس نہ صرف اپنی سابقہ قانونی حیثیت کھو بیٹھیں گے بلکہ دوبارہ رجسٹریشن کا پیچیدہ اور طویل عمل بھی ان کے لیے درد سر بن جائے گا۔
یہ صورت حال تقاضہ کرتی ہے کہ مدارس کی رجسٹریشن کے حوالے سے ایک متوازن، جامع اور دیرپا حل نکالنا ضروری ہے۔ بہتر ہوتا کہ حالیہ ایکٹ میں وزارت تعلیم اور وزارت صنعت و تجارت دونوں کے تحت رجسٹریشن کا اختیار دیا جاتا۔ اس سے مدارس اپنی تعلیمی حیثیت اور انتظامی خود مختاری دونوں کو برقرار رکھ سکتے اور کسی بھی فریق کو اعتراض کا موقع نہ ملتا اور نہ ایک دوسرے کو لعن و طعن کرنے کی ضرورت پڑتی۔
تقابلی جائزہ: وزارت تعلیم یا وزارت صنعت؟
اصولی طور پر دیکھا جائے تو مدارس بنیادی طور پر تعلیمی ادارے ہیں، جن کا اولین مقصد دینی تعلیم و تربیت فراہم کرنا ہے۔ لہٰذا، انہیں وزارت تعلیم کے ماتحت ہونا چاہیے تاکہ:
ان کی تعلیمی خدمات کو سرکاری طور پر تسلیم کیا جا سکے۔
طلبہ کے لیے جدید تعلیمی مواقع پیدا ہوں۔
مدارس کو قومی و بین الاقوامی تعلیمی معیار کے مطابق ترقی دی جا سکے۔
مدارس کی اسناد کو تسلیم کیا جاسکے۔
مدارس کو دنیا بھر میں بالخصوص تعلیمی اداروں کے طور پر تسلیم کیا جاسکے۔
دنیا بھر سے دینی تعلیم حاصل کرنے والوں کو مدارس میں تعلیمی اسکالرشپ کی آفر پر آسانی سے طویل المدت ویزہ دیا جاسکے۔
دوسری طرف، وزارت صنعت و تجارت کے ماتحت ہونے سے مدارس کو انتظامی خود مختاری ضرور ملتی ہے، (اگر اس انتظامی خودمختاری کو شفاف الفاظ میں بیان کیا جائے تو پھر لوگ اکابر یا مدارس دشمنی کا طعنہ دیں گے) لیکن یہ انہیں قومی تعلیمی دھارے سے الگ کر دیتی ہے۔ یہ رجسٹریشن کا طریقہ مدارس کو محض ایک تنظیم یا صنعتی یا رفاہی ادارہ سمجھ کر ان کے تعلیمی تشخص کو محدود کرتا ہے اور پھر ان کے فضلاء کو صرف سند کے تسلیم کروانے کے لئے دسیوں چونچلے برداشت کرنے پڑتے ہیں اور بہت سارے مسائل جو ان کے حقیقی مقصد کے ساتھ ناانصافی کے مترادف ہے۔
مدارس کی رجسٹریشن کا مسئلہ محض قانونی بحث نہیں بلکہ پاکستان کے تعلیمی نظام کا ایک حساس اور اہم پہلو ہے۔ مدارس کے لیے ایک ایسا نظام تشکیل دینا ناگزیر ہے جو ان کے تعلیمی و انتظامی تشخص کو تسلیم کرے، ان کی خود مختاری کو محفوظ رکھے اور قومی ترقی کے لیے ان کے کردار کو مزید مستحکم کرے۔ اس طرح پاکستان میں تعلیم کے دو الگ الگ دھاروں کو ایک مشترکہ منزل کی طرف گامزن کیا جا سکتا ہے۔