Kiu Ka Maali Bohran Aur Hal
قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کا مالی بحران اور حل
قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی (KIU) گلگت بلتستان کی علمی و تحقیقی خدمات کا مرکز ہے، کسی حد تک گلگت بلتستان کی تعلیمی ضرورتوں کو پورا کرتی ہے۔ یہ یونیورسٹی صدر مشرف کا تحفہ ہے۔ گزشتہ بیس سال میں قراقرم یونیورسٹی بہت سے نشیب و فراز سے گزری ہے، تاہم اب کی بار شاید یونیورسٹی شدید مالی بحران کا شکار ہے۔ یونیورسٹی کے اس حال تک پہنچنے میں کچھ اپنوں کی بے رعنائیاں ہیں اور کچھ اندر والوں کی ریشہ دوانیاں، جو بہرحال افسوسناک ہے۔
حالیہ مالی بحران اور فنڈز کی کمی کی وجہ سے یونیورسٹی کے دیامر، غذر اور ہنزہ کیمپسز کی بندش کا اعلامیہ ایک افسوسناک واقعہ ہے جو علاقے کی تعلیمی ترقی پر منفی اثرات مرتب کر سکتا ہے۔ قراقرم یونیورسٹی کے ساتھ بلتستان یونیورسٹی بھی کرائسس کا شکار ہے۔
اس سنگین صورتحال سے نمٹنے کے لیے کچھ تجاویز پیش کی جا رہی ہیں جو دونوں یونیورسٹیوں کو مالی بحران سے نکالنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔ سردست ہم دونوں یونیورسٹیوں کی کمزوریوں اور خامیوں اور ان کے کارپردازوں کی رنگینیوں اور لاپرواہیوں کو ڈسکس نہیں کریں گے۔ وہ پھر کبھی، سردست ہمیں اپنے ان اداروں کو مشکلات سے نکالنا ہے۔ یہ ادارے ہم سب کے ہیں اور فرض بھی سب کا ہے۔ تجاویز ملاحظہ ہوں۔
حکومت پاکستان اور حکومت گلگت بلتستان سے تعاون لینا بہت ضروری ہے۔ وفاقی حکومت کو قراقرم یونیورسٹی کے لیے خصوصی فنڈز جاری کرنے چاہئیں تاکہ یونیورسٹی کے مختلف کیمپسز کو فعال رکھا جا سکے۔ اس کے لیے تعلیمی بجٹ میں اضافی مختصات کی ضرورت ہے۔
گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت کو بھی دونوں یونیورسٹیوں کی مالی مدد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہئے۔ خصوصی گرانٹس، سبسڈیز اور تعلیمی پروگرامز کے ذریعے مالی معاونت فراہم کی جائے۔ اور بہت سارے طریقے ہوسکتے ہیں جن کے ذریعے دونوں یونیورسٹیوں کو اس نزاعی حالت سے نکالا جاسکتا ہے۔
ایچ ای سی ایک ذمہ دار آئینی ادارہ ہے۔ گلگت بلتستان کی دو ہی یونیورسٹیوں کو اس طرح بے یار و مددگار نہیں چھوڑنا چاہیے۔ ایچ ای سی کو چاہیے کہ قراقرم یونیورسٹی اور بلتستان یونیورسٹی کے لئے خصوصی فنڈز کی بحالی کا کوئی فیصلہ لیں۔ اس کی بھی کئی صورتیں ہوسکتی ہیں۔
1۔ فوری اور ہنگامی اپیل:
یونیورسٹی انتظامیہ کو ہائر ایجوکیشن کمیشن (HEC) سے فنڈز کی بحالی اور اضافی گرانٹس کی درخواست کرنی چاہئے۔ اس سلسلے میں وفاقی حکومت کی مداخلت بھی کارگر ثابت ہو سکتی ہے اور دیگر ذمہ دار ادارے بھی کردار ادا کرسکتے ہیں۔
2۔ طویل مدتی منصوبہ بندی:
ایچ ای سی کو قراقرم اور بلتستان یونیورسٹی کے ساتھ مل کر طویل مدتی فنڈنگ پلان تیار کرنا چاہئے تاکہ مستقبل میں ایسے بحران سے بچا جا سکے۔ قراقرم یونیورسٹی اور بلتستان یونیورسٹی کے پروفیسروں اور منتظمین کے پاس ایسے پلان مرتب شکل میں ہونے چاہئے جو HEC کے ساتھ طویل مدتی فنڈنگ کے لیے کیے جاسکتے ہیں۔
دنیا بھر میں ہزاروں ایسے ادارے ہیں جو تعلیمی اداروں بالخصوص تیسری دنیا کے تعلیمی اداروں کو مضبوط کرنے اور انہیں مدد دینے میں پیش پیش رہتے ہیں۔ عالمی اداروں اور رفاہی تنظیموں سے فنڈ ریزنگ کے لیے بھی بلتستان اور قراقرم یونیورسٹی کو ورک پلان تیار کرنا چاہیے۔ دونوں یونیورسٹیوں کو عالمی اداروں جیسے ورلڈ بینک، یونیسکو، اور دیگر بین الاقوامی تعلیمی فنڈنگ اداروں سے رابطہ کرنا چاہئے۔ انہیں یونیورسٹیوں کی اہمیت اور اس کے مالی بحران کی صورتحال سے آگاہ کیا جائے۔
ملکی اور غیر ملکی رفاہی تنظیموں سے مالی مدد حاصل کرنے کے لیے جامع حکمت عملی تیار کی جائے۔ اس میں انڈوومنٹ فنڈز، سکالرشپس، اور تعلیمی پروجیکٹس کے لیے گرانٹس شامل ہو سکتی ہیں۔
سوشل میڈیا اور عوامی حمایت بھی بہت ضروری ہے۔ جب سے یونیورسٹی نے مالی بحران کا اعلامیہ جاری کیا ہے سوشل میڈیا میں غم و غصہ پایا جاتاہے۔ طنزیہ پوسٹیں زیئر ہورہی ہیں۔ سوشل میڈیا پر جاری غم و غصہ کو مثبت انداز میں استعمال کیا جائے۔ ایک مربوط سوشل میڈیا کیمپین کے ذریعے عوام کو یونیورسٹی کی اہمیت اور مالی بحران سے آگاہ کیا جائے تاکہ عوامی حمایت حاصل کی جا سکے۔ اس کے لئے یونیورسٹی ماس کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ کو ہنگامی ٹاسک تفویض کریں۔
حکومت کے تمام ادارے عوامی ٹیکس سے ہی چلتے ہیں۔ ایسی بحرانی کیفیت میں دونوں یونیورسٹیوں کو چاہیے کہ عوام اور مختلف کاروباری اداروں سے عطیات جمع کرنے کے لیے آن لائن اور آف لائن مہمات شروع کریں۔ اس میں یونیورسٹی کے سابق طلباء، مقامی کمیونٹی اور کاروباری حلقے شامل ہو سکتے ہیں۔
مقامی کمیونٹی اور کاروباری اداروں کے ساتھ پارٹنرشپ قائم کی جائے تاکہ یونیورسٹیوں کے مختلف منصوبوں میں مالی معاونت حاصل کی جا سکے۔ اسی طرح مقامی اور ملکی صنعتوں سے تعاون حاصل کرنے کے لیے موٴثر حکمت عملی تیار کی جائے، تاکہ انڈسٹری اور یونیورسٹی کے مابین تحقیقی و تعلیمی منصوبوں کے ذریعے مالی معاونت حاصل کی جا سکے۔
اور سب سے بڑھ کر دونوں یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر صاحبان اور دیگر انتظامی و اکیڈمیا کے لوگوں کو کفایت شعاری سے کام لینا چاہیے۔ سچ یہ ہے کہ آپ کے بے جا شاہ خرچیوں اور غیر مربوط پالیسیوں کی وجہ سے یہ تعلیمی ادارے اس کیفیت میں مبتلا ہوئے ہیں۔ دوسروں سے مدد اور قربانی طلب کرنے سے پہلے خود شروع کریں تو ان شا اللہ بہتری آئے گی۔
مختصراً عرض ہے کہ قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی اور بلتستان یونیورسٹی کی بقاء اور ترقی کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ حکومت پاکستان، حکومت گلگت بلتستان، ایچ ای سی، عالمی ادارے، رفاہی تنظیمیں، اور عوامی حمایت کا حصول دونوں یونیورسٹیوں کو موجودہ مالی بحران سے نکال سکتا ہے۔ اس مقصد کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کو مل جل کر جامع حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ یونیورسٹیوں کا روشن مستقبل یقینی بنایا جا سکے۔ اللہ سے دعا ہے کہ ان قومی اداروں کو مشکلات سے نکالے۔