Thursday, 18 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Amirjan Haqqani/
  4. Karbogha Sharif Ki Muattar Hawain

Karbogha Sharif Ki Muattar Hawain

کربوغہ شریف کی معطر ہوائیں

تزکیہ نفس انسان کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ تزکیہ نفس کا سادہ اور مکمل مفہوم یہی ہے کہ انسان میں موجود شر اور خرابی کے فطری جذبے اور غلبے کو ختم کرکے، ہر قسم کی آلودگیوں اور آلائشوں سے دل و دماغ اور جسم کوپاک کرکے، انسان کو انسان اور انسانی دنیا کے لیے خیر اور سود مند ثابت کیا جائے۔ اوردنیاوی اعمال و خدمت کے ذریعے اُس دنیا میں اللہ کی رضا اور خوشنودی کو پالیا جائے۔ اسلام کے بیان کردہ نیاوی اور اخروی تمام معاملات واحکام میں فوز و فلاح کا نام تزکیہ ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بھی اس کو فلاح سے ہی تعبیر کیا ہے(الاعلی/14)۔ لازمی بات ہے کہ انسان دنیاوی اور اخروی تمام امور و اخلاق اور عبادات میں اسلامی احکام کی رعایت اور پابندی کرے گا تو فلاح پائے گا۔

میری خوش قسمتی یہ ہوئی کہ دینی جامعات کیساتھ عصری دانش گاہوں سے بھی پڑھنے کا موقع ملا اور ساتھ ہی مدارس وجامعات اور کالج میں تدریس کی توفیق ہوئی اور سوشل ورک کا بھی موقع ملا۔ یوں معاشرہ کے تمام طبقات کیساتھ نہ صرف گھل ملنے کا موقع ملا بلکہ بہتوں کیساتھ کام کرنے کے مواقع ملا اور ان سے سیکھنے اور سمجھنے کے لمحات میسر آئے۔

ایک طویل عرصہ سے میں کسی ایسے شخص کی تلاش میں تھا جسے اصلاح احوال بالخصوص تزکیہ نفس اور روح کی پاکیزگی کی تربیت حاصل کی جائے۔ بہت سے بزرگوں سے اصلاحی تعلق قائم کرنے کا سوچا لیکن پھر دل مطمئن نہیں ہورہا تھا۔ دل ناداں میں خیالات بھی ناداں ہی تھے۔ کچھ بزرگوں کو خطوط بھی لکھے لیکن پھر سلسلہ ٹوٹ گیا۔ کچھ احباب نے مفتی سید مختارالدین شاہ صاحب کی طرف رہنمائی کی۔ حضرت کے متعلق معلومات بھی لیتا رہا پھر 2016ء میں حضرت مفتی صاحب گلگت تشریف لائے تھے تو ان کی زیارت بھی ہوئی۔ حضرت کیساتھ مفتی عدنان کاکاخیل صاحب بھی آئے تھے۔ دل نے فیصلہ دے دیا کہ حضرت سے ہی تزکیہ نفس اور اصلاحی تعلق جوڑ دیا جائے۔ بہت سے احباب سے مختلف وقتوں میں کربوغہ شریف ساتھ لیجانے کی درخواست بھی کرتا رہا مگرکچھ خاص شنوائی نہ ہوئی۔ وہ ازخود جانے کا مشورہ دیتے اور مجھے جھجک سی ہوتی کہ نہ دعا نہ سلام کیسے جایا جائے۔ بالآخر کربوغہ شریف جانے کا عزم مصمم کرلیا اور گلگت سے نکلتے ہی اپنے دوست مولانا حبیب اللہ راشدی سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ وہ بھی کربوغہ شریف میں موجود ہیں اور گلگت کے کچھ اور احباب بھی۔

انہیں بتلایا کہ میں بھی ان شاء اللہ یکم جنوری کو کربوغہ پہنچ جاونگا۔ یوں نئے سال کا آغاز ایک انتہائی مبارک سفر سے کیا۔ روالپنڈی سے کربوغہ کی طرف نکلا۔ ٹل دوابہ میں اترتے ہی ایک طالب علم محمد رسول سے کربوغہ متعلق پوچھا تو انہوں نے ہاتھ پکڑ کرایک گلی کی طرف رخ موڑ دیا اور کہا کہ میں جامعہ زکریا کا طالب علم ہوں حضرت مفتی صاحب دامت برکاتہم کا خادم ہوں۔ گلی میں مڑتے ہیں ہمارے سامنے ا یک شریف آدمی کھڑا تھا۔ محمدرسول نے کہا کہ یہ حضرت جامعہ مسجد کربوغہ کے امام بھی ہیں۔ پھر پشتو میں ان سے کہا کہ استاد جی یہ مہمان بھی کربوغہ جارہے ہیں۔ یوں میری پہلی ملاقات جامعہ زکریا کے طالب علم اور اگلی ملاقات دارالایمان کربوغہ کے امام صاحب مولانا زکریا سے ہوئی۔ ہم ویگن میں بیٹھ گئے اور کربوغہ کی طرف روانہ ہوئے۔ کربوغہ میں جیسے ہی گاڑی داخل ہوتی ہے تو سامنے کربوغہ شریف اور دارالایمان کا حسین وجمیل منظر نظرنواز ہوجاتا ہے اور انسان ایک معطر خوشبو محسوس کرتا ہے۔ کربوغہ شریف کی مسجد و جامعہ اور خانقاہ کے طائرانہ نظر نوازی نےدل میں کیفیات کی ایک لہر پیدا کردی اور کچھ سکون کی کیفیت محسوس کی گئی۔

گاڑی سے اترتے ہیں مولانا زکریا کے پہلے عمل نے دل میں مزیدمحبت کے اثرات پیدا کردیے۔ یوں چلتے چلتے ہم دارالایمان کربوغہ پہنچ گئے اور مولانا زکریا نے وضو بنانے کا کہہ کر کمرہ سے باہر نکلے اور نماز کے لیے میرا انتظار کرنے لگے۔ نماز کے بعد مولانا حبیب اللہ راشدی اور برادرم ضیاء الرحمان نے خوش آمدید کہا اورخانقاہ کےمہمان کھانے میں بیٹھتے ہی کچھ احباب نے چائے لایا اور کچھ احباب نے ڈرائی فروٹ پیش کیا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ میرا کوئی خاص اکرام ہورہا ہے اور یہ سارے میرے منتظر تھے۔ اتنے میں خانقاہ کے ذمہ دار مولانا ابراہیم تشریف لائے اور یوں معانقہ کیا جیسے برسوں سے شنائی ہے۔ بہت محبت سے بٹھایا اور جلدی جلدی سے کچھ کاغذی بادام بجھوادیے۔ شام کا کھانا جامعہ کے مدرس مولوی سیف اللہ داریلی کے ہاں تھا جو انتہائی لذیذ تھا۔ اور مجھے خصوصی مہمان خانے میں قیام اللیل کے لیے کہا گیا۔ میراخیال تھا کہ یہ امتیازی سلوک صرف میرے ساتھ کیا جارہا ہے لیکن اگلے پانچ دنوں کے تجربات نے یہ بات غلط ثابت کردی۔ کربوغہ شریف میں آنے والا ہر مہمان انتہائی قابل احترام اور معزز ہے۔ کسی بھی مہمان کی آمد کے بعد اسے، اس کا مذہب نہیں پوچھا جاتا نہ ہی اس کی زبان، علاقہ اور رنگ کو دیکھا جاتا ہے۔ نہ اس کے منصب کا سراغ لگایا جاتا ہے۔ نہ امیری اور غریبی کی طرف توجہ مبذول کی جاتی ہے۔ بس ایک شاندار مسکراہٹ کیساتھ اس کو ویلکم کیا جاتا ہے۔ چائے پلائی جاتی ہے۔ کھانے کا وقت ہو یا نہ مگر پہنچنے والے مہمان کو کھانا پیش کیا جاتا ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ مہمان بہت دور سے آیا ہے۔ پہلے دن تو آنے والے مہمانوں کی الگ خاطر مدارت ہوتی ہے۔

میری بھی خوب خاطر مدارت اور تواضع کی گئی جو میرے وہم وگمان میں بھی نہ تھا۔ ابھی جامعہ اور خانقاہ کو دیکھا بھی نہیں تھا کہ نماز مغرب کی صدائیں دارالایمان کی میناروں سے پورے کربوغہ کو معطر و منور کیے جارہی تھی اور ہم ایک عالی شان مسجد میں داخل ہوئے۔ اورنماز مغرب ادا کی۔ یہ پہلی نماز تھی جس نے ہمیں خانقاہی معمولات کیساتھ جوڑ دیا۔ جامعہ کربوغہ میں مختارالامہ حضرت مولانا سید مختارالدین شاہ صاحب دامت فیوضہم کی سربراہی میں باقاعدہ خانقاہی نظام موجود ہے۔ حضرت مفتی صاحب شیخ الحدیث مولانا زکریا رحمہ اللہ کے خلیفہ مجاز ہیں۔ خانقاہ کے معمولات رات کے آخری پہر میں نماز تہجد سے شروع ہوتے ہیں۔ تہجد سے نماز فجر تک ڈیڑھ گھنٹے میں نماز تہجد، تلاوت اور انفرادی اعمال و دعائیں ہوتی ہیں۔ نماز فجر کےاجتماعی ذکر اور سورہ یسین کی تلاوت کے بعد پھر اشراق تک انفرادری معمولات اور ناشتہ ہوتا ہے۔ نماز اشراق کے بعدحضرت کے کسی مرید کا کسی اصلاحی اور فقہی موضوع پر بیان ہوتا ہے۔ ساڑھے اٹھ سے ساڑھے نو تک مفتی مختارالدین صاحب حفظہ اللہ کا درس قرآن ہوتاہے جو عموما اصلاحی موضوعات اور تزکیہ و سلوک اور طریقت کے احکام و مسائل اور رموز و معارف پر ہوتا ہے۔ اس کے بعد نماز چاشت ہوتی ہے۔ اور حضرت کی کتاب، کتاب العقائد سے بنیادی عقائد کی تعلیم ہوتی ہے۔ کوئی نہیں پوچھتا کہ آپ کا عقیدہ کیسا ہے، نہ کوئی یہ کہتا ہے کہ آپ کا عقیدہ تو غلط ہے اور آپ تو دین سے ہٹے ہوئے ہیں، بلکہ کمال سادگی کیساتھ عقائد نبوی ﷺ بتلائے جاتے ہیں پھر بنیادی اعمال یعنی نماز، روزہ، زکواۃ اور دیگر عبادات پر مختصر مذاکرہ ہوتا ہے۔ خانقاہ میں آنے والے احباب کو نماز سکھائی جاتی ہے وضوبنانے کا طریقہ بتایا جاتا ہے۔ نہ ان کے لباس کو چھیٹرا جارہا ہے نہ ہی آنے والے کی وضع و قطع کو۔ بس خلوص سے محبت و طریقت کے گر سکھائے جاتے ہیں پھر بہت قلیل وقت میں بندہ ان کے رنگ میں رنگ جاتا ہے۔

ظہر کی نماز کے بعدختم خواجگان ہوتا ہے اور پھر مختارالامہ کی "ظریفانہ مجلس" ہوتی ہے جس میں تصوف و سلوک اور دیگر معاشرتی موضوعات پر حضرت انتہائی خوشگوار اور شگفتہ انداز میں بیان فرماتے ہیں۔ لطائف سناتے ہیں اور ساتھ یہ ضرور فرماتے ہیں کہ دن بھر کے معمولات کے بعد تنشیط الاذہان ضروری ہے۔ یہ محفل اس لیے سجائی جاتی ہے کہ احباب ذہنی طور پر ترو وتازہ ہوں۔ اس کے بعد جو احباب بیعت کے لیے آئے ہوتے ہیں ان کی بیعت فرمائی جاتی ہے۔ بروز ہفتہ 2 جنوری کو ہم بھی حضرت سے بیعت ہوئے اور ہمیں روزانہ کے معمولات و اذکار عطا کیے گئے۔ اس محفل میں مریدین کے خطوط کے جوابات اور انہیں سلوک وتصوف کے اگلے اسباق بھی عنایت کیے جاتے ہیں۔ نماز عصر کے بعداجتماعی ذکر ہوتا ہے، نماز مغرب کے بعد چھ رکعت اوابین اور سورہ واقعہ کی تلاوت ہوتی ہے اور پھر خانقاہ کے ہال میں محفل درود شریف ہوتی ہے۔ سینکڑوں شرکاء ہزاروں دفعہ آپ ﷺ پر درود وسلام بھیجتے ہیں اور اس کے بعد ایک وجد آفریں دعا ہوتی ہے۔ اس دعا میں شرکاء دھاڑیں مار کررورہے ہوتے ہیں۔ تمام انسانوں، مسلمانوں، دینی اداروں و تحریکات اور مملکت پاکستان کی سلامتی کے لیے خصوصی دعا کی جاتی ہے۔ آپ ﷺ کی ذات اقدس سے محبت و اطاعت کے لیے خاص دعاؤں کا اہتمام ہوتا ہے۔ نماز عشاء کے بعدسورہ ملک کی تلاوت کے بعد احباب اپنے وظائف اور دیگر انفراداری معمولات کرتے ہیں۔

حضرت مفتی مختارالدین صاحب نے تصوف و سلوک اور تزکیہ و طریقت کو کسی مخصوص پیرائے میں منحصر نہیں کیا ہے بلکہ تصوف کو پورے کے پورے دین اسلام کے ساتھ جوڑ دیا ہے۔ اس خانقاہی نظام میں شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ہر آدمی کے ذوق کے لیے تمام اسباب موجود ہیں۔ حضرت کی شخصیت عجز و انکساری کی صحیح معنوں میں پرتو ہے۔ سالکین کے لیے "رہنمائے سالکین، مناجاۃ الفقیر، بیعت و اصلاح، راہ محبت"، تفسیر و قرآن و تحقیق کے لیے حضرت کی محقق تفسیر "البرہان"، سماجی حقوق کے لیے" حقوق و آداب"، مسائل و احکام کے لیے کئی کتابیں اور عقائد و نظریات کے لیے "اسلامی عقائد و نظریات اور کتاب العقائد"، دینی تحریکات سے وابستہ افراد کے لیے "اسرار العروج، مسلک اعتدال، دین کے شعبے اور تحریک ایمان و تقوی وقت کا اہم تقاضا" اعتدال و توازن اور اتحاد امت کے لیے " مسلک اعتدال، اسلام اور آج کا مسلمان، دہریت سے اسلام تک" اور ان جیسے دیگر موضوعات پر حضرت مفتی صاحب کی کئی کتب منصہ شہود پر آچکی ہیں۔

حضرت مفتی صاحب کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے ان تمام چیزوں کو اپنی ذات میں منحصر کرنے کی بجائے ایک تحریکی شکل دی ہے۔ مفتی صاحب کے صاحبزادے مولانا سید زبیر شاہ بھی انتہائی فعال انداز میں ان تمام شعبوں کی نگرانی فرمارہے ہیں۔ آپ بھی خاموشی سے تشریف لاسکتے ہیں۔ کسی ریفرنس اور تعلق کی ضرورت نہیں۔ کسی مذہب و مسلک کا سرٹیفکیٹ، کسی زبان و رنگ کی قید، کسی امیر و غریب کی تمیز، کسی چھوٹے و بڑے کا لحاظ، کسی عالم و جاہل میں فرق اور کسی ذات پات اور سفارش کے بغیر آپ کا استقبال کیا جائے گا اور آپ کو مکمل آپنائیت محسوس ہوگی۔ کیا آپ کو سچ اور فطرت کی تلاش نہیں؟ بہر صورت علم و اصلاح کی اس عالمگیر تحریک اور حضرت مفتی صاحب کی شخصیت پر جو وسعت دل و دماغ میں ہے وہ کاغذ کے ان صفحات میں کہاں؟ بقیہ کیفیات اگلی محفل کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔

Check Also

Sarmaya Minton Se Nahi Aata

By Javed Chaudhry