Hazrat Abu Bakr Siddiq Ba Haisiyat Khalifa
حضرت ابوبکر صدیق بحیثیت خلیفہ
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلیفہ اول ہیں۔ آپ ﷺ نے ہی اپنی زندگی میں ایسے کئی اشارات و اقوال ارشاد فرمائے جن سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت ثابت ہوتی ہے۔ آپ ﷺ آخری دنوں میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ مبارک میں مقیم تھے۔ بیماری کی وجہ مسجد تشریف نہیں لے جاسکتے تھے۔ تو مسجد نبویﷺ میں نماز کی امامت کے لیے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو منتخب کیا۔
موذن رسول حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے آکر آپ ﷺ کو نماز کی اطلاع دی تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "مروا ابابکر، فلیصل بالناس" ابوبکرکو کہا جائے کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ (بخاری)۔ ایک عورت آپ ﷺ کے پاس آئی تو آپ ﷺ نے انہیں اب کی بار لوٹ جانے کا کہا اور دوبارہ آنے کو کہا۔ اس عورت نے فرمایا کہ اگرآپ کو نہ پاؤں تو کس سے ملوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ان لم تجدینی فاتی ابابکر(بخاری)، اگر تو مجھے نہ پا سکتے تو ابوبکر کے پاس آجانا"۔
آپ ﷺ کے مرض الوفات میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ نے سترہ نمازوں میں تمام مسلمانوں کی امامت فرمائی۔ اسی طرح آپ ﷺ نے اس عورت کو اپنی زندگی کے بعد ابوبکر صدیق سے رجوع کرنے کا حکم دیا۔ ان دونوں احادیث سے حضرت ابوبکر صدیق کی خلافت ثابت ہوتی ہے۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: " واجمع اصحاب النبی ﷺ واستخلفوا ابابکر رضی اللہ عنہ" (مستدرک حاکم) نبی کریم ﷺ کے صحابہ نے اتفاق و اتحاد کی اور سیدنا ابوبکر کو خلیفہ بنایا"
نصوص صحیحہ حضرت ابوبکر صدیق کی خلافت کی صحت اور ثبوت اور اللہ و رسول اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ان سے راضی ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔ تمام صحابہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیعت کی تھی۔ اس بیعت میں کسی قسم کی کوئی سختی نہیں تھی بلکہ اللہ کے پیارے حبیب ﷺ کے تربیت یافتہ غیور صحابہ نے اپنی مرضی اور خوشی سے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیعت کی تھی۔ سیدنا علی المرتضٰی کرم اللہ وجہہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی فضیلیت میں بہت سارے اقوال ارشاد کیے۔ ان ارشادات سے دونوں کی باہمی محبت و تعلق اور احترام روز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے۔
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کا زمانہ بہت قلیل ہے۔ آپ ﷺ نے ہی اس کم عرصہ خلافت کی طرف اشارہ کیا تھا۔ حضرت ابوبکر صدیق کا دور خلافت بہت ہی بابرکت تھا۔ آپ ﷺ کی رحلت کے بعد مسلم معاشرت اور اسلامی ریاست کی تمام ذمہ داریاں ان کے سرپر آں پڑی تھی۔ یہ بہت مشکل اور نازک وقت ہوتا ہے۔ اس مشکل اور نازک دور میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بہت سارے کارنامے انجام دیے جن میں چند ایک کا ذکر کردیتے ہیں:
1۔ آپ ﷺ کی نماز جنازہ و تدفین احسن انداز میں کی۔
2۔ آپ ﷺ کی انتقال پر صحابہ کرام پر قیامت کا سماں تھا ایسے میں حضرت ابوبکر حجرہ مبارک میں گئے اور فرمایا:اے میرے نبی، اے میرے دلی دوست، اے میرے برگزیدہ رفیق) بس یہ کہہ کر باہر تشریف لے آئے۔ ان الفاظ سے صحابہ کرام کو حوصلہ ملا۔
3۔ آپ ﷺ کی وفات کے بعد بہت سے لوگ مرتد ہوئے، بغاوتیں کی۔ جھوٹے نبوت کے دعوے کیے۔ ان سر کی بیخ کنی کے لیے حضرت ابوبکر صدیق نے قتال کیے۔
4۔ آپ ﷺ کی وصیت کے مطابق حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کا لشکر ملک شام روانہ کیا جس سے اسلام دشمن قوتوں کی کمرٹوٹ گئی اور مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی۔
5۔ منکرین زکواۃ کا قلع قمع کردیا۔
6۔ جہالت کی رسمیں مٹادی۔
7۔ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا اہتمام کیا۔
8۔ اخلاق حسنہ اور عادات سئیہ کی ترغیب و ترہیب کی۔
9۔ آپ ﷺ جن سے محبت کرتے تھے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی ان سے محبت کرتے تھے۔
10۔ آپ ﷺ کی سیرت اور آپ ﷺ کے اقوال و احکام کو اپنی زندگی اور ریاستی زندگی کا جز لاینفک بنایا۔
آپ ﷺ کی رحلت کے بعد ارتداد کی جو لہر اٹھی تھی وہ مسلمانوں کی اجتماعیت اور نئے تشکیل پانے والے اسلامی معاشرہ کا شیرازہ بکھیرنے کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ تھا۔ حضرت ابوبکر صدیق نے ایسے مشکل حالات میں تمام صحابہ کرام سے تفصیلی مشاورت کی۔ مرتدین اور فساد فی الارض کے خلاف فوری کاروائی نہ کرنے کی بات بھی ہوئی مگر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بطور خلیفہ اس امر کو بہت سیریس لیا اور فساد فی الارض بپا کرنے والوں کے ساتھ نمٹنا شروع کیا۔ آپ رضی اللہ عنہ کا موقف الہامی تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ اگرچہ بہت نرم دل اور محبت کرنے والے انسان تھے مگر مرتدین کے متعلق سختی کا مظاہرہ کرکے مسلم امہ اور اسلامی معاشرے کوشدید نقصان اور ہزیمت سے بچا لیا۔ اس سختی کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ لوگ دوبارہ جاہلی معاشرت کی طرف لوٹنے اور فتنہ و فساد بپا کرنے میں ناکام ہوئے۔
بہر صورت اس قلیل مدت میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ نے جو عظیم الشان کارنامے انجام دیے اس سے انسانی عقل ورطہ حیرت میں غرق ہوجاتی ہے۔ اندرونی اور بیرونی دشمنوں سے نمٹا۔ ملکی نظم و نسق بہتر بنایا۔ یہ سب آپ ﷺ وسلم کی محبت، قوت ایمانی، تدبر و فراست، عزم و ہمت اور للہیت و خداترسی کی وجہ سے ممکن ہوا۔