Green Northern Areas Company Aur Khwab
گرین ناردرن ایریاز کمپنی اور خواب
کیا آپ نے کبھی سنا ہے کہ کوئی کمپنی حکومت سے مل کر عوام کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہے: "بھائی، یہ سب کچھ ہمیں دے دو، ہم تمہیں خوبصورت خوابوں کے ساتھ سستے داموں بہت ساری انجوائیاں دیں گے"؟
اگر نہیں، تو پھر آپ کو" گرین ناردرن ایریاز کمپنی" کی کہانی ضرور سننی چاہیے۔ یہ بڑی دلچسپ کہانی ہے۔ یہاں صرف ایک رخ دکھایا جارہا ہے ورنا تو اس کی اندوہ ناکیاں بہت ساری ہیں۔
یہ کہانی گلگت بلتستان کی ہے، جہاں خوبصورت جھیلوں کے کنارے بیٹھے ہزاروں معصوم بکریاں چر رہی تھیں۔ گھنے جنگلات میں سنولیپرڈ اور ہرن کی کشتی ہو رہی تھی اور برفانی تودوں پر بھورے اور کالے ریچھ ناچ رہے تھے۔ اور پیچھے بلند و بالا پہاڑوں کے دامن میں، نرم گرم کرسیوں اور دیار کی لکڑی کی کارنگ سے مزین دفتروں میں یہ سازش پنپ رہی تھی۔ جی ہاں! ایسی ہی ایک جاودائی زمین پر، گرین ناردرن ایریا کمپنی نے حکومت سے ساز باز کرکے وہاں کے مہنگے ترین ریسٹ ہاوسز اور دیگر قیمتی املاک کو چوری چھپے، سستے داموں لیز پر حاصل کر لیا۔
اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ حکومت کیسے مان گئی؟ ارے بھئی، بات ہی ایسی تھی کہ خود حکومت بھی ہنسی نہ روک سکی۔ ایک دن کمپنی کے نمائندے ایک سرکاری ایوان میں پہنچے اور کہا: "بھئی، ہم ایک ایسا پلان لے کر آئے ہیں جس سے گلگت بلتستان کی معیشت کو چار چاند لگ جائیں گے۔ بس آپ ہمیں یہ ریسٹ ہاوسز اور املاک سستے داموں دے دیں۔ پھر ہمارا تماشا دیکھ لیں"۔
سرکاری ممبران و افسران نے ہنستے ہنستے کہا: "کیا آپ واقعی سنجیدہ ہیں؟"
نمائندے نے کہا: "جی ہاں، ہم نہ صرف سنجیدہ ہیں بلکہ مزاحیہ بھی ہیں۔ ہم یہاں بہت کچھ کرنے والے ہیں۔ ہمارے پلان تو بہت دیرپا ہیں۔ ٹھیک ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح۔ مثال کے طور پر دیکھیں، صرف ایک چیز شئیر کرتے ہیں۔ ایسے سینکڑوں پراجیکٹ ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ ہمیں یہ سب کچھ دے دیں گے تو ہم ہر سال یہاں ایک بڑا فیسٹیول منعقد کریں گے، جس میں دنیا بھر سے ہزاروں سیاح آئیں گے، تاہم اس فیسٹیول میں ہم جی بی والوں کو فری ٹکٹ دیں گے! "
حکومتی افسران کی آنکھیں چمک اٹھیں، انہوں نے سوچا: "فری ٹکٹ؟ ہم؟ واہ! یہ تو سنہری موقع ہے! " اور یوں بغیر کسی ہچکچاہٹ کے، معاہدہ طے پا گیا۔ معاہدہ کیا تھا، کروڈوں کی املاک سستے ترین کرایوں پر دے دی گئی۔ اتنے بڑے فیسٹیول میں فری ٹکٹ اور سہانے خواب کوئی معمولی چیز تھوڑی تھی۔
"گرین ناردن ایریاز کمپنی" نے جیسے ہی ریسٹ ہاوسز پر قبضہ کیا، انہوں نے جی بی کے کسی معروف سیاحتی مقام پر "عالمی سیاحتی فیسٹیول" کے نام پر ایک ایسا شو شروع کیا جس میں داخلہ فیس اس قدر مہنگی رکھی کہ عوام کی جیبیں کھنکھناتی رہ گئیں۔
ایک دن گلگت بلتستان کا ایک شہری آیا اور کمپنی کے نمائندے سے پوچھا: "بھائی، یہ داخلہ فیس اتنی زیادہ کیوں ہے؟"
نمائندے نے جواب دیا: "ارے بھئی، یہ فیس نہیں، یہ تو آپ کی تفریح کے لئے ایک چھوٹا سا ٹیکس ہے۔ بس یوں سمجھیں کہ یہ آپ کی طرف سے معمولی کنٹریبیوشن ہے اس قوم کے لئے۔ اور ہم نے تو خود حکومت سے یہی کہا تھا کہ عوام کی جیبوں کا خیال رکھیں گے! "
شہری نے ہنس کر کہا: "ہاں، لگتا ہے آپ نے ہماری جیبوں کا خیال رکھا ہے اور ہمیں خالی جیبوں کے ساتھ چھوڑا ہے! "
یوں ہی، " گرین ناردرن ایریا کمپنی" نے اپنی سازشوں سے عوام کو خوب ہنسنے اور رونے کے مواقع فراہم کیے، اور خود موجیں مارتی رہی۔ اکثر کمپنیاں ایسا ہی کرتی ہیں۔ سہیل وڑائچ نے خوب کہا تھا کہ یہ کمپنی نہیں چلے گی، مگر ہمارے ہاں تو کمپنی نے دوڑنا شروع کیا ہے۔
تو جناب، یہ تھی کہانی "گرین ناردرن ایریاز کمپنی" کی، جو اپنے نام کی طرح سبز باغ دکھا کر عوام کو الو بناتی رہی اور حکومت سے ساز باز کرکے اپنے دن بہار بناتی رہی۔!
خواب میں یہ سب دیکھا اور بڑبڑاتے ہوئے جاگا اور فیس بک اوپن کیا تو احباب گرین ٹورزم کمپنی پر برس رہے تھے۔ میں حیران تھا کہ کچھ خوابوں کی تعبیر فوری طور پر اتنی بھیانک کیوں ہوجاتی ہے۔ میں نے خواب میں جو کمپنی دیکھا تھا وہ "گرین ناردرن ایریاز کمپنی" تھی۔
خواب دیکھنا ہر آدمی کا حق ہے، چاہے خواب اچھا ہو یا بھیانک، اور سیاحت کے شعبے میں تو خواب دیکھنے کا ایک الگ ہی مزہ ہے۔ یہ خواب ہم خود دیکھیں یا کمپنی دکھائیے ایک بات ہے۔ جی بی کی سیاحت پر دکھائے جانے والے ان سب خوابوں کی حقیقت شاید کبھی نہ ہو، مگر خواب دیکھنے کا حق ہم سب کے پاس محفوظ ہے، اور خوب بیچنے کا حق کمپنی، حکومت، محکمہ اور دیگر افراد کے پاس محفوظ ہے۔ اور سیاحت ہمیں یہ موقع فراہم کرتی ہے کہ ہم اپنے خوابوں کی دنیا میں کچھ وقت گزار سکیں! جی ہاں خوابوں کی دنیا میں۔