Ghamdi Qarar Dena
غامدی قرار دینا
ہمارے ہاں یہ وطیرہ عام ہوچکا ہے کہ کسی بھی اپنے فرد پر غیر یا غیر کا ایجنٹ یا نمائندہ ہونے کا فتوی ثبت کیا جاتا ہے۔ عام علماء و کارکن اور فضلاء تو چھوڑیں، بڑے بڑے ذمہ دار اور تحریکوں سے وابستہ شخصیات بھی ایسا کرتی ہیں جو بہر حال افسوسناک ہے۔
یہ شاید 2014 کی بات ہے۔ میں جامعہ نصرۃ الاسلام گلگت میں تدریس بھی کرتا تھا اور میگزین کا مدیر بھی تھا۔ چونکہ میری طبیعت میں فرقہ پرستی نہیں ہے اس لئے دیگر مسالک کے اہل علم کی کتابیں بھی پڑھتا اور ان کے بڑوں کی توہین بھی نہیں کرتا۔ البتہ اپنی دانست کے مطابق اختلاف ضرور کرتا۔ اور ضرورت پڑنے پر تنقید بھی، مگر تضحیک کھبی نہیں۔
ہمارے گلگت بلتستان کے ایک سینیئر صحافی جو کراچی میں مقیم ہیں، خود ساختہ دیندار اور زیادہ تنخواہ کے لئے کئی دینی صحافتی ادارے چھوڑ کر دنیاوی صحافتی اداروں میں جاچکے تھے، نے سوشل میڈیا میں مجھے غامدی قرار دے کر اصلاح فرمانے کا بیڑہ اٹھا رکھا تھے۔ جب ان کا یہ طریقہ واردات کامیاب نہ ہوا تو ہمارے ادارے کے بڑے حضرت کو فون اور واٹس ایپ کرکے میرے غامدی ہونے اور گمراہ ہونے کی اطلاعات فراہم کرتے اور انہیں میری اصلاح و تنبیہ و تنزیل پر ابھارتے۔ یوں وہ بزعم خود بہت بڑی دینی خدمت انجام دیتے۔ جب مجھے اس سب کا علم ہوا تو خاموشی کیساتھ ان سے دوری اختیار کی، حالانکہ ان کرم فرما کیساتھ سالوں سےگہرا تعلق تھا۔ یہ تعلق خاموشی سے ختم ہوا۔ کیونکہ ایسے لوگوں سے دور رہنے میں عافیت ہوتی ہے۔ آدمی شرور سے بچ جاتا ہے۔ اور یکسوئی سے اپنے کام میں جُت جاتا ہے۔
ایک اور صاحب سوشل میڈیا میں مجھے روز مودودی اور غامدی کہتے ہوئے حظ اٹھاتے ہیں اور میں بھی انہیں مزے لینا دیتا۔
آج عالمی مجلس ختم نبوت کے لیٹر پیڈ پر جامعہ امدادیہ فیصل آباد کے شیخ الحدیث مولانا مفتی زاہد صاحب کو، مولانا اللہ وسایا صاحب نے غامدی فرقے سے وابستہ قرار دیا اور چیف جسٹس کو خط لکھا تو حیرت بھی ہوئی اور یہ سب یاد بھی آیا۔
میں نے مفتی زاہد صاحب کے چند لیکچر سنے ہیں اور کچھ تحریریں پڑھی ہیں اور ان کے درجنوں تلامذہ میرے دوست ہیں۔ بخدا مفتی زاہد صاحب جیسے عمیق مطالعہ رکھنے والی علمی اور معتدل شخصیات پاکستان کے دینی مدارس میں بہت کم ہیں۔
حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ کھبی وفاق المدارس العربیہ کے ذمہ داران تو کبھی ختم نبوت کے ذمہ داران اپنوں کو اس طرح دور کیوں کرتے ہیں یا پھر یوں مورد الزام ٹھہراتے ہیں؟ مولانا زاہد الراشدی صاحب کیساتھ بھی یہی کچھ برتا گیا۔ اور بہتوں کیساتھ یہ رویہ روا رکھا جا رہا ہے۔
آخر ایسا کیوں کیا جاتا ہے؟
ویسے مزے کی بات یہ ہے کہ سلفیت، بریلویت اور مودودیت کے بعد اب نیا ٹائیٹل "غامدیت" ہاتھ لگا ہے جس کو کسی صورت ضائع ہونے نہیں دینا۔