GB Mein Qatal Aur Aghwa Cases
جی بی میں قتل اور اغوا کیسز
گلگت بلتستان میں مختلف اوقات میں قتل اور اغوا کے کیسز سامنے آتے ہیں۔ ہمارے ہاں عجیب مزاج نے پنپ لیا ہے۔ سینیئر ترین لوگ بھی سب سے پہلے مقتول و مغوی و مغویہ کا علاقہ، قبیلہ اور مذہب دیکھتے ہیں۔ جب مقتول یا مغوی کا تعلق ان کے اپنے علاقہ، قبیلہ اور مذہب سے ہو تو اندھا دھند اس کے حق میں سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا میں مہم شروع کی جاتی ہے۔ اور بعض دفعہ احتجاج بھی ہوتا ہے۔ یہ سماجی بہتری نہیں انتہائی خرابی ہے۔ اس سے خوامخواہ تشدد پھیلتا ہے۔ دوریاں پیدا ہوجاتی ہیں اور سماج میں رواداری ختم ہوجاتی ہیں اور توہمات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔
کچھ وقت کے بعد وہ مقتول یا مغوی کا کیس بالکل الٹ ہوکر سامنے آتا ہے۔ جس مقتول کو سیاسی رنگ دے کر شہید تک بنالیا گیا تھا وہ کسی ذاتی دشمنی یا کسی گندے چکر مارا گیا ہوتا ہے۔ جس مغوی یا مغویہ کو مظلوم ترین بناکر مہم چلائی گئی تھی وہ اپنے/ اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ میڈیا پر آجاتے ہیں۔ اور عشقیہ کہانیاں شروع ہوجاتی ہیں۔
ایسے میں مہم جوؤں کی درگت بن جاتی ہے۔
اصول طور پر ایسی صورتحال حال میں بالخصوص مکمل معلومات اور غیر جانبدار تحقیق کرکے صورتحال کو سامنا لایا جانا چاہیے۔ ہماری صحافی برادری ایسی رپورٹنگ نہیں کرتی اس لیے اصل صورتحال بہت دیر سے سامنے آتی ہے۔
میرا معمول یہ ہے کہ ایسی کسی مہم کا حصہ نہیں بنتا۔ خاموشی سے تماشا دیکھتا رہتا۔ کیونکہ میرے پاس مکمل معلومات بھی نہیں ہوتی۔ بعض دفعہ اپنے ہم مسلک و علاقہ اور بعض دفعہ دیگر احباب سے طعن و تشنیع کا شکار بھی بنتا، مگر اس کے باوجود حقائق کے آشکارا ہونے تک انتظار کرتا رہتا۔
کیونکہ میں کسی قسم کے جھوٹ میں شامل ہوکر بعد میں شرمندہ ہونا نہیں چاہتا۔ یہی حکم قرآنی بھی ہے۔