Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Amirjan Haqqani
  4. Garmi Ka Tor, Ahbab Ke Sang

Garmi Ka Tor, Ahbab Ke Sang

گرمی کا توڑ، احباب کے سنگ

گرمیوں کی جھلسا دینے والی تپش میں زندگی جیسے تھم سی جاتی ہے۔ نہ دل کام میں لگتا ہے، نہ دماغ سوچنے پر آمادہ ہوتا ہے، بس انسان بے کار سا ہوجاتا ہے۔ ایسے میں اگر ساتھ نبھانے والے دوست ہوں، تو موسمِ گرما کی شدت بھی ایک بہانہ بن جاتی ہے خوشی کے لمحات اکٹھے گزارنے کا، فکری نشستوں میں شرکت کا اور فطرت کی آغوش میں زندگی کی تجدید کا۔

گزشتہ دن خانقاہ دارالایمان، پڑی بنگلہ میں احباب، مولانا حبیب اللہ راشدی، مولانا عبدالحمید اور مولانا سیف اللہ کے ساتھ ایک طویل علمی و فکری نشست ہوئی۔ موضوعات گہرے تھے اور گفتگو سنجیدہ۔ کربلا کے المیے، ناصبیت کے رویے، اہل سنت اور اہل تشیع کے افکار و نظریات پر بے لاگ مکالمہ ہوا۔ سوال و جواب ہوئے اور تاریخ کے جھروکوں سے جھانکتے رہے، مکالمے کی فضا میں جہاں اختلافات تھے، دلائل و براہین تھے، وہاں اہل بیت و اصحاب رسولؓ کے ساتھ محبت و عقیدت تھی، بہت سارے حقائق اور اصول بھی تھے مگر ان سے محبت غالب تھی۔ اس پورے مکالمہ میں احباب میں احترام بھی تھا، مگر سچ جاننے کی جستجو تھی۔ یہی وہ علمی ماحول ہے جو سماج کو فکری بلوغت عطا کرتا ہے اور ہم بھی اسی فکری بلوغت کے لیے سرگرداں تھے۔

فکری مکالمہ کے دوران کڑک چائے کا دور بھی چل رہا تھا مگر گرمی کی شدت برداشت سے باہر ہو رہی تھی، تو احباب نے مشورہ دیا کہ کچھ دیر فطرت کی ٹھنڈک سے استفادہ کیا جائے۔ پڑی بنگلہ سے پیدان داس روانہ ہوئے۔ وہاں جگلوٹ کا مشہور نالہ بہتا ہے، جو گاشو جھیل اور دیگر چشموں سے مل کر ایک خوشنما منظر پیش کرتا ہے۔ سیکڑوں لوگ شفاف پانی میں نہا رہے تھے، قہقہے لگ رہے تھے، زندگی مسکرا رہی تھی۔ ہم بھی بہتے پانیوں میں کود پڑے اور خوب نہایا، جیسے جسم ہی نہیں روح بھی تازہ ہوگئی ہو۔ پانی کیساتھ اٹھکھیلیاں بھی کی اور دلجوئیاں بھی۔ سچ یہی ہے کہ پانی زندگی بھی ہے اور موت بھی۔

پانی وہ نعمتِ عظمیٰ ہے جس کے بغیر زندگی کا تصور ممکن نہیں۔ زمین کی کوکھ میں بہتے چشمے، پہاڑوں سے گرتے جھرنے، دریا کی روانی اور بارش کی بوندیں۔۔ سب زندگی کی علامت ہیں۔ یہی پانی ہے جو پیاس بجھاتا ہے، کھیتوں کو ہرا کرتا ہے، بدن کو راحت دیتا ہے اور روح کو طراوت بخشتا ہے۔ مگر اسی پانی میں ایک زہر بھی چھپا ہے، ایک ہولناک سچائی بھی۔ جب یہی پانی بپھرتا ہے، طوفان بن کر آتا ہے، سیلاب کی شکل اختیار کرتا ہے یا کسی نالے میں ایک لمحے کی بے احتیاطی جان لے لیتی ہے، تو یہی زندگی بخش عنصر موت کا پیغام بن جاتا ہے۔ انسان کی ناسمجھی، بے تدبیری اور فطرت کے ساتھ بے اعتدالی، پانی کو موت کی شکل دے دیتی ہے۔

یہی وہ نقطہ ہے جو ہمیں سوچنے پر مجبور کرتا ہے، کیا ہم نے واقعی پانی کو سمجھا ہے؟ کیا ہم نے اس کی قدر کی ہے؟ پانی عطیہ ہے بھی اور آزمائش بھی۔ یہ ہم پر ہے کہ ہم اسے زندگی کی نعمت رکھیں یا موت کا سبب بننے دیں۔

نہانے کے بعد ایک قریبی ٹرک ہوٹل میں کھانے کی کوشش کی، لیکن صفائی ستھرائی اور ذائقے کا حال دیکھ کر اندازہ ہوا کہ بعض مقامات پر سیاحت کے فروغ سے پہلے اخلاقی اور انتظامی تربیت ضروری ہے۔ ہوٹل کے کھانے نے دل گرفتہ کرلیا، دائیں بائیں سے چرس کی بو بھی آ رہی تھے اور پیدان پُل کے متصل برلب دریا اتنے خوبصورت پوائنٹ پر گندگی عروج پر تھی۔ بہت دکھ ہوا۔

اس کے بعد ہم پیدان داس میں واقع مدرسہ دارالعلوم تعلیم القرآن پہنچے جہاں درس نظامی کے معروف مدرس و بانی مدرسہ مولانا معاذ عرف خان بہادر صاحب سے ملاقات ہوئی۔ ان کے ہمراہ دیگر اساتذہ اور ان کے صاحبزادے بھی موجود تھے۔ یہاں گلگت بلتستان کی مذہبی صورتحال، بین المسالک ہم آہنگی اور دینی مدارس میں تدریس و تحقیق کے حوالے سے دیر تک بامعنی گفتگو ہوتی رہی۔ یہ لمحے علمی زادِ راہ بن گئے اور عصر کے قریب ہم نے اجازت چاہی۔

پھر وہی سے دریائے ڈموٹ کا نظارہ کرتے ہوئے سبیل پہنچے۔ جہاں ایک دوست کی والدہ کی رحلت پر، تعزیت کی اور دعائے مغفرت کے بعد وہی پر ایک غیر رسمی مجلس میں ایک دلچسپ مکالمہ چھڑ گیا، موضوع تھا دوسری شادی اور بیویوں میں اعتدال۔ گفتگو سننے والے کبھی قہقہے لگا رہے تھے اور کبھی سنجیدہ ہو جاتے تھے۔ بعض احباب ہماری نان اسٹاپ گفتگو سے محظوظ ہوئے تو بعض پر کچھ بیزاری بھی طاری ہوئی۔ لیکن یہی تو زندگی ہے، مختلف مزاج، مختلف ردعمل۔ عصر کی نماز سبیل کورٹ کی مرکزی مسجد میں ادا کی جو زیر تعمیر ہے۔ وہی سے چند لمحات کے لیے اپنی بھتیجی، زوجہ مولوی ابرار سے ملنے کے لیے ان کے گھر گیا جو سبیل کوٹ کے پہاڑی کے دامن میں ہے۔

سبیل کی طرف جاتے ہوئے جب ہم راستے میں چل رہے تھے تو اچانک دور سے پڑی بنگلہ کا وہی بدنامِ زمانہ واٹر چینل نظر آیا، جو ہر ماہ کسی نہ کسی بہانے سے ٹوٹ جاتا ہے اور پورے علاقے کو پانی سے زیادہ اذیت کا سامنا کرواتا ہے۔ جونہی میری نظر اس پر پڑی، تو بےساختہ زبان سے نکلا: "او دیکھو! وہی جہنمی واٹر چینل پھر سے جلوہ گر ہوگیا ہے! "

یہ جملہ سنتے ہی احباب زار و قطار ہنسنے لگے۔ کسی نے پیٹ پکڑ لیا، کسی نے آنکھوں سے آنسو پونچھے۔ ہنسی مذاق کا وہ لمحہ گویا گرمی، تھکن اور سنجیدہ گفتگو کے بوجھ کو ایک دم ہلکا کر گیا۔ لیکن اس قہقہے کے پیچھے ایک تلخ سچائی بھی چھپی تھی، کہ اتنے اہم واٹر چینل کی حالت ایسی کیوں ہے؟ کیا ہر بار اس کے ٹوٹنے سے سبق نہیں سیکھا جاتا؟ علاقے کے ذمہ دار لوگ اور اسمبلی کے ممبران اور محکمہ اتنے طویل عرصے سے مسلسل غفلت کیوں برت رہے ہیں؟ ایسے درجنوں سوالات ہیں جن کا جواب سردست معلوم ہی نہیں۔

خیر، اس وقت ہنسی کا دور چل رہا تھا اور ہم سب اس "جہنمی واٹر چینل" کی طرف دیکھ کر ہنس رہے تھے۔۔ شاید اپنی بے بسی پر، شاید کسی ممکنہ اگلے طوفان پر، یا شاید صرف اس لیے کہ کبھی کبھی ہنسنا ہی واحد حل ہوتا ہے۔

رات گئے ہم گھروں کو واپس لوٹے، مگر ذہن میں دن بھر کی ملاقاتیں، مکالمے، احباب سے ملاقاتیں، خوشنما مناظر کے مشاہدے، پانی کی ڈبکیاں اور مکالمے گونجتے رہے۔ سوچا، گرمی ہو یا غم، بوجھ ہو یا تھکن، اگر مخلص احباب ساتھ ہوں، تو سب کچھ سہل ہو جاتا ہے۔

یہ دن بتا گیا کہ دلوں کو تازگی دینے کے لیے ضروری نہیں کہ ہم کسی خاص تفریحی مقام پر جائیں۔ کبھی کبھی ایک فکری نشست، کسی برگد کے سائے تلے، کسی ڈابے کے تھڑے پر، یا ایک چشمہ، ایک سادہ سا مکالمہ بھی زندگی کی رونقیں بحال کر دیتا ہے۔ ضرورت صرف ایک مخلص ماحول کی ہے اور احباب کے سنگ چند سچے لمحوں کی۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam