Fikr e Hussain Par Amal Waqt Ki Zaroorat
فکر حسین رضی اللہ عنہ پر عمل وقت کی ضرورت

تاریخ انسانی میں وہ لمحے بہت کم آتے ہیں جو نسلوں کو جھنجھوڑتے ہیں، ذہنوں کو روشن کرتے ہیں اور قوموں کو نئے فکری زاویے عطا کرتے ہیں اور نوجوان کو نیا خون، ولولہ اور جوش دیتے ہیں۔ ایسے ہی لمحوں میں سے ایک لمحہ، مقتل حسین رضی اللہ یعنی کربلا ہے اور اس لمحے کا مرکزی کردار، نواسۂ رسول ﷺ، امام حسین بن علیؓ، جنہوں نے ظلم و جبر کے خلاف صرف ایک جنگ نہیں لڑی بلکہ حق و باطل کے درمیان ایک دائمی لکیر کھینچ دی، ایسی لکیر جو آج تک بلکہ قیامت تک روشن ہوتی جارہی ہے۔
سچ یہی ہے کہ کربلا، صرف ایک مظلومانہ واقعہ نہیں بلکہ ایک مکمل فکری تحریک کا نام ہے، اسی فکری تحریک سے روشنی پاتے ہوئے آج تک ہزاروں تحریکیں بپا ہوچکی ہیں اور ہزاروں مزید ہونگی۔ یہ وہ پیغام ہے جو زمانے کے ہر ظلم، جبر، منافقت اور مصلحت کو شکست دیتا ہے۔ حضرت امام حسین رضی اللہ کی فکر، نہایت مقدس، متوازن اور اصلاحی بنیادوں پر قائم ہے۔ ان کے قیام اور قربانی نے امت کو ایک ایسا فکری سرمایہ عطا کیا جس پر قیامت تک عمل کیا جا سکتا ہے اور جس نے بھی اس فکر کو اپنایا وہی دو جہانوں میں کامیاب و کامران ہوگا۔
سیدنا و سندنا حضرت امام حسینؓ کی فکرکے چند اہم پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہیں، تاکہ ہم جان سکیں کہ کربلا آج بھی زندہ کیوں ہے اور حسین رضی اللہ کا پیغام ہر دور کے مسلمان کے لیے کیوں لازم ہے۔
ہم مسلمانوں کا ایمان ہے کہ دین صرف چند عبادات کا نام نہیں بلکہ ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ سیدنا امام حسین رضی اللہ کا مقصد دین کو اس کی اصلی شکل میں قائم رکھنا تھا۔ ان کا قیام محض سیاسی اختلاف نہیں بلکہ دینی غیرت کا مظہر تھا۔ انہوں نے جو کچھ کیا اقامت دین کے لیے لازم تھا۔
امام عالی مقام سیدنا حسینؓ کا یہ عمل امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا عملی مظہر اور مظاہرہ تھا۔
قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں "تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لیے نکالی گئی ہے، تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو"۔ (آل عمران: 110)
جب ہم قرآن کی اس آیت پر غور کرتے ہیں تو حضرت امام حسین رضی اللہ نے اسی آیت کو عملی جامہ پہنایا اور فرمایا "میں نکلا ہوں اپنی نانا کی امت کی اصلاح کے لیے۔ نیکی کا حکم دوں گا، برائی سے روکوں گا"۔
ظلم و بربریت کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا کوئی حضرت امام حسینؓ سے سیکھے، اس وقت کا نظام حکومت اور نظام چلانے والوں کے متعلق اکثر اصحاب علم و عمل کی رائے یہی ہے کہ وہ فسق و فجور اور ظلم و ستم پر مبنی تھا۔
حضرت امام حسین رضی نے اس ظالمانہ نظام کے خلاف خاموشی کو گناہ سمجھا اور ظلم و فسق کے خلاف جرأت مندانہ آواز بلند کی۔ ان کا یہ کردار حریت کا اعلیٰ نمونہ مانا جاتا ہے۔
کربلا کا پیغام ہے کہ عزت کی موت ذلت کی زندگی سے بہتر ہے۔ امام حسینؓ نے کہا "میں ظلم و فساد کے نظام کا حصہ نہیں بن سکتا، چاہے اس کی قیمت میری جان ہی کیوں نہ ہو"۔ فقہاء امت اور مجتہدین کے نزدیک یہ اعلان کسی بھی غیر شرعی نظام کے خلاف اجتہادی و اصولی موقف کی مثال ہے۔
اگر امام حسینؓ اس ظلم و فساد پر مبنی نظام کے تابع ہوجاتے، تو دین کی بنیادیں ہل جاتیں۔ آپ رضی اللہ نے اپنے خون سے یہ ثابت کر دیا کہ دین کسی کی مرضی کے تابع نہیں بلکہ اللہ کے احکام کا پابند ہے۔ ان کی قربانی نے اسلام کو رہتی دنیا تک محفوظ بنا دیا۔
اس ظالمانہ و فاجرانہ نظام میں عدل کا نام و نشان نہ تھا۔ سیدنا حسینؓ نے صرف حکومت نہیں بلکہ عدل، دیانت اور حق گوئی کی بالادستی کے لیے قیام کیا۔ اسلام کے نزدیک عدل ایک قرآنی اصول ہے اور حسین رضی اللہ نے اس اصول پر اپنی جان قربان کی۔
حضرت امام حسینؓ کا پورا کردار اس بات کا گواہ ہے کہ حقیقی کامیابی اصولوں پر قربانی دینے میں ہے، اقتدار حاصل کرنے میں نہیں۔ ان کا یہ اسلوب "اصول پرستی کی اعلیٰ ترین مثال" مانا جاتا ہے۔
سچ یہی ہے کہ کربلا صرف حسینؓ کی قربانی نہیں بلکہ علی اصغر، عباس، علی اکبر اور دیگر اہل بیتؓ کی عظیم استقامت کی کہانی ہے۔ یہ قربانیاں اخلاق و روحانی تعلیمات میں ایثار کا عملی درس بنی ہوئی ہیں۔
علمائے امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ سیدنا امام حسینؓ نے صداقت پر مبنی موقف اختیار کیا، چاہے اس کا نتیجہ شہادت ہی کیوں نہ ہو۔ مسلمانوں کے نزدیک، صداقت ایمان کی علامت ہے اور حسینؓ اسی سچائی کی معراج تھے۔
حضرت امام حسینؓ کا پیغام امت مسلمہ کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کا پیغام ہے اور یہی بیداری کا منبع ہے۔ ان کے قیام نے مسلمانوں کو یہ سکھایا کہ دین صرف عبادت نہیں، بلکہ حق و باطل کی تمیز اور عمل کا تقاضا بھی ہے۔
دشت کرب و بلا کا ہر لمحہ ایمان، صبر، توکل اور یقین کی عملی تصویر ہے۔ حضرت حسینؓ نے یہ دکھا دیا کہ ایمان صرف زبانی دعوے کا نام نہیں، بلکہ جان، مال اور اولاد کی قربانی کا جذبہ بھی درکار ہوتا ہے۔
حضرت حسین رضی اللہ نے دنیاوی مفادات کو رد کرتے ہوئے صرف اللہ کی رضا کو مقدم رکھا۔ آخرت کی کامیابی دنیا کی چمک دمک سے کہیں اعلیٰ ہے اور حضرت حسینؓ اس عقیدے کی جیتی جاگتی تصویر ہیں۔
حضرت حسینؓ کی شخصیت شیعہ یا سنی کی حد میں مقید نہیں اور نہ ہی حضرتؓ کسی فرقے کا ہے۔ وہ امت مسلمہ کا مشترکہ سرمایہ ہیں۔ مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر ان سے والہانہ محبت رکھتے ہیں، کیونکہ رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ سلم نے ارشاد فرمایا: "حسن و حسینؓ جوانانِ جنت کے سردار ہیں"۔ (ترمذی)
کربلا میں حضرت حسین رضی اللہ کا قیام ہر مظلوم کو حوصلہ دیتا ہے۔ ان کی فکر کی دعوت ہے کہ "ظلم عارضی ہوتا ہے، حق ہمیشہ باقی رہتا ہے"۔
یہی پیغام ہر بے بس کو طاقت، ہر غریب کو وقار اور ہر مجبور کو حوصلہ دیتا ہے۔
حضرت حسینؓ کل بھی زندہ تھے، آج بھی زندہ ہیں، سچ یہ بھی ہے کہ آج کا کفریہ نظام امام عالی مقام کے فکر و عمل سے لرزاں ہے۔ ان کے نام پر ہونے والے رسومات سے نہیں۔
کربلا کا پیغام وقت کے ہر ظالم کے خلاف اعلان بغاوت ہے۔ حضرت حسینؓ کا نام کسی قبیلے، ملک یا مسلک و فرقے کی جاگیر نہیں بلکہ حق و صداقت کا استعارہ ہے۔ آج کے دور کا ظالم کبھی سیاست کی شکل میں، کبھی طاقت، کبھی میڈیا و ٹیکنالوجی اور کبھی فتنہ پروری کی صورت میں آتا ہے، مگر ہر ظالم و جابر کے سامنے ایک "حسینؓ " ضرور کھڑا ہوتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ حسین رضی اللہ قربانی دیتا ہے، سودا نہیں کرتا۔
کاش! ہم بھی اپنے اندر ایک حسینی غیرت، جرأت اور اخلاص پیدا کر سکیں، تب ہی ہم کہہ سکیں گے کہ ہم واقعی امتِ محمدی صل اللہ علیہ سلم ہیں۔
آج کے دور میں سب سے بڑھ کر اس امر کی ضرورت ہے کہ ہم سید الشہداء حضرت حسینؓ کی فکر کو نہ صرف سمجھیں بلکہ اسے عملاً اپنی زندگیوں میں نافذ کریں۔ خصوصاً نوجوان نسل کو امام حسینؓ کی جدوجہد کی اصل روح، اس کا مقصد اور اس کے پیچھے کارفرما اصولوں سے روشناس کروانا وقت کا تقاضا ہے۔ محض رسمی اور روایتی اظہارِ عقیدت سے آگے بڑھتے ہوئے ہمیں صفوی طرزِ علم، جو صرف ظاہری رسومات اور جذباتی وابستگی تک محدود ہے، کو ترک کرنا ہوگا اور علوی حکمت اور حسینی طرز عمل کو اپنانا ہوگا، ایک ایسا طرز عمل جس میں صداقت، حریت، استقامت اور حق گوئی کی تابناک روشنی ہو۔ حضرت امام حسینؓ کی فکر ہمیں جرات، حریت، ایثار، آخرت، اتحاد، عدل اور اصولوں پر ڈٹ جانے کا درس دیتی ہے اور یہی وہ راہ مستقیم ہے جو آج کے نوجوانوں کو اختیار کرنی چاہیے۔

