Dr Adil Khan Ki Shahadat, Sawal To Uthe Ga (1)
ڈاکٹر عادل خان کی شہادت: سوال تو اٹھے گا
ہفتہ 10اکتوبر 2020کو شام کے وقت نماز مغرب کے بعد جامعہ دارالعلوم کراچی سے واپسی پرشمع شاپنگ سینٹر شاہ فیصل کالونی کراچی میں موٹرسائیکل سواروں نے شیخ الحدیث مولانا ڈاکٹر محمدعادل خان کو شہید کردیا۔ ان کے ساتھ ان کا بیٹا مولانا عمیر عادل بھی تھا جو محفوظ ہیں اور معجزاتی طور پر بچ گئے ہیں جبکہ ڈرائیور مقصود بھی موقع پر ہی جان بحق ہوئے۔ ڈاکٹر عادل خان انتہائی علمی اور تحقیقی شخصیت ہونے کیساتھ ایک بہت بڑے دینی ادارے جامعہ فاروقیہ فیز ٹو کے چانسلر اور شیخ الحدیث بھی تھے۔ ڈاکٹر صاحب صحیح معنوں میں اپنی ذات میں ایک مکمل انجمن اور تحریک کا درجہ رکھتے تھے۔ میں نے اپنی زندگی میں ان جیسا پُرعزم انسان نہیں دیکھا۔ البتہ کتابوں میں ضرور پڑھا ہے۔
مولانا عادل خان 20اپریل 1958کو پیدا ہوئے۔ آپ شیخ المحدثین حضرت مولانا سلیم اللہ خان کے فرزند ارجمند تھے۔ اور صحیح معنوں استاد محترم مولانا سلیم اللہ خانؒ کے جانشین بھی تھے۔ 1973 جامعہ فاروقیہ سے دورہ حدیث کی تکمیل کی۔ جامعہ فاروقیہ کے علاوہ دیگر کبار علماء سے قرآن اور حدیث کا علم حاصل کیا۔ 1976 میں جامعہ کراچی سے بی اے کیا، 1978 میں ایم اے عربک اسلامک اسٹیڈیز کیا، 1992 میں پی ایچ ڈی اسلامک کلچر میں کیا۔ آج کل پوسٹ ڈاکٹریٹ کے طالب کے طور پر تیاریوں میں مصروف تھے۔ ان کا تحقیق و تجسس اور علمی تدقیقات کا سلسلہ ہنوز جاری تھا۔
2010 سے 2018 تک انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی ملائشیا میں کلیہ معارف الوحی و انسانی علوم میں پروفیسر بھی تعینات رہے ہیں۔ آپ کی انہی خدمات کی بدولت ملائشیا میں 2018 کو تحقیق و ریسرچ اور تصنیف پر ہایئر ایجوکیشن ملائشیا کی جانب سے فائیو اسٹار رینکنگ ایوارڈ دیا گیا تھا۔ حضرت شہید کی ملائشیا میں متعدد کتب شائع ہو چکی ہیں۔ ملائشیا میں قیام و تدریس کے دوران ملائشیا یونیورسٹی میں ایم اے کا کورس بھی مرتب کیا تھا۔ آپ دنیا کے ایک سو سے زائد ممالک کا تبلیغی اور مشینری سفر کر چکے تھے۔ پانچ سال نئی دنیا امریکا میں مقیم رہے اور جہاں ایک بڑا اسلامی سینٹر بھی قائم کیا تھا۔ امریکی مسلما ن بھی حضرت کی دینی خدمات کو قدر کا نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
استاد محترم علما ایکشن کمیٹی کے سربراہ بھی تھے۔ کراچی کے علماء کے روح رواں تھے۔ کراچی کے تمام علماء کو ایک پلیٹ فارم میں جمع کرنا اور تحریک ناموس رسالت ﷺ اور دفاع ناموس صحابہ پر مساجد کے آئمہ و خطباء اور مدارس و جامعات کو متحرک کرنا آپ کا عظیم کارنامہ تھا۔ اسی طرح ملک بھر کے سیاسی و مذہبی قائدین اور دینی مدارس وجامعات کے ذمہ داروں کو ایک پلیٹ فارم پر بٹھانا اور انہیں افہام و تفہیم کی راہ دکھانا استاد محترم کا مشن خاص تھا۔ مفتی منیب الرحمان صاحب سے مل کر اہل سنت کے درمیان غلط فہمیوں کو دور کرنے میں بڑی حد تک کامیاب بھی ہوئے تھے۔ کافی عرصے سے استاد جی نے اسلام مخالف عناصر اور دین دشمنوں کو للکارنا شروع کیا تھا۔ مدارس وجامعات کی بندش ہو یا مساجد پر ابتلاء، اہل علم کا بہیمانہ قتل ہو یا اصحاب رسول ﷺ پر تبرا اور گستاخیاں، ان تمام معاملات میں استاد محترم نے کھل کر حکومت پر بھی تنقید کی اور متعلقہ لوگوں کو بھی للکارا۔ اورملی وحدت کے لیے عوام و علماء کو یکجا بھی کیا۔ وہ دو ٹوک بات کرنے کے قائل تھے۔ لیت ولعل اور اور غیر ضروری مصالحت کے قائل نہیں تھے۔ انتہائی معتدل ہونے کیساتھ انتہائی صاف گو بھی تھے۔ ضروریات دین کے متعلق منافقانہ اعتدال اور مداہنت کو کبھی پسند نہیں کرتے تھے اور نہ ہی فرقہ پرستی اورفرقہ وارانہ تشدد کی حمایت کی تھی نہ اچھا سمجھتے تھے۔ ہر چیز قانونی اور آئینی دائرے میں رہ کر انجام دینے کے نہ صرف قائل تھے بلکہ عملی اقدام بھی کرتے تھے۔
وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے مرکزی کمیٹی کے سینئر رکن، وفاق المدارس کی مالیات، نصابی اور دستوری کمیٹی جیسی اہم کمیٹیوں کا حصہ بھی رہے ہیں۔ ماہنامہ الفاروق جو جامعہ فاروقیہ کا ترجمان رسالہ ہے۔ یہ رسالہ عربی، اردو، انگریزی اور سندھی میں شائع ہوتا ہے۔ 1980 سے اب تک بدستور شائع ہو رہا ہے۔ مولانااس کی نگرانی فرمایا کرتے تھے۔ 2017 میں استاد محترم حضرت مولانا شخ الحدیث سیلم اللہ خان انتقال ہوا تو آپ ملائشیا سے پاکستان شفٹ ہوئے اور ملکی سطح پر متحرک ہوئے۔ ملک بھر میں ان کے تحریکی فکر اور سلسلوں کو انتہائی پذیرائی حاصل ہوئی تھی۔ ہر جگہ اس کو جاری رکھنے کا عزم اہل علم کررہے ہیں۔
استاد محترم ڈاکٹر عادل خان شہید 1986 سے 2010 تک جامعہ فاروقیہ کراچی کے ناظم اعلی بھی رہے ہیں۔ 2009اور 2010ء میں مجھے بھی ان سے درس حدیث لینے کا شرف حاصل ہے۔ انہی دو سالوں میں استادالمحدثین مولانا سلیم اللہ خان سے بھی مشکواة اور بخاری کا معتدبہ حصہ پڑھنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ حضرت ڈاکٹر صاحب کے علمی اور تبلیغی اسفاردنیا کے سینکڑوں خطوں میں ہوئے ہیں۔ دو دفعہ گلگت بھی تشریف لائے۔ 2018ء کو جامعہ نصرة الاسلام گلگت میں ختم بخاری کا آخری درس حدیث دینے کے لیے تشریف لائے۔ پنتالیس منٹ کا مفصل اور مدلل درس دیا اوردرس حدیث سے پہلے جامعہ کی لائیبریری میں خصوصی طور پر شعبہ عربی کے حوالے سے اپنے تجربات ہم سے شیئر کیے اور ہمیں شعبہ عربی قائم کرنے کا مشورہ دے دیا۔
میں نے عرض کیا تھا کہ استاد جی! فضلائے جامعہ فاروقیہ کی ایک مختصر نشست میرے گھر پر رکھیں گے۔ حضرت نے فرمایا کیوں میاں؟ فاروقیہ والوں کی کیوں؟ اگر وقت ہوتا تو دیگرسب مدارس کے نوجوان فضلاء سمیت ایک اہم نشست رکھتے۔ استاد جی کے ساتھ اس سفر میں ہمارے استاد مولانا حبیب الرحمان ایبٹ آباد والے بھی تھے۔ درس بخاری شریف کے فورا بعد میں اور مولانا حبیب اللہ دیداری نے استاد جی اور ان کی ٹیم کو باب گلگت سے رخصت کیا۔ گلگت میں تین دن کا پروگرام تھا لیکن جہازوں کی پرواز مسلسل تعطل کا شکار ہونے کی وجہ سے بائی روڈ گلگت پہنچے اور پندرہ گھنٹے کے مختصر قیام کے بعد واپسی ہوئی تھی۔
استاد محترم جس لیول کے مدرس اور خطیب تھے اسی ہی لیول کے محقق و مصنف بھی تھے۔ ان کی کتاب " اسلامی جمہوریہ پاکستان(جلد اول)" حال ہی میں منصہ شہود پر آئی ہے اور سپرہٹ ہوئی ہے۔ اس کتاب کے ورق ورق سے پاکستانیت ٹپک رہی ہے۔ ا ستاد جی کی تصانیف میں اسلام اور تصور کائنات، اسلام اور اخلاقیات، اکیسویں صدی میں اسلام، المقالات المختار فی الکتاب والسنہ، اسلام اینڈ نالج، اسلام اور ایتھکس کے علاوہ ملائنشیا یونیورسٹی کے نصاب کی تین کتابوں کے بھی مولف ہیں جن میں نالج اینڈ سولائزیشن ان اسلام، ایتھک اینڈ فقہ فار ایوری باڈی، دی اسلامک ورڈ ویو شامل ہیں۔
استاد جی بڑے بھائی تھے۔ استاد محترم عبیداللہ خالد صاحب چھوٹے ہیں جبکہ محترم عبدالرحمان درمیانی بھائی ہیں۔ ان کے علاوہ پسماندگان میں مفتی انس عادل، مفتی عمیر عادل، مولانا زبیر، مولانا حسن، ایک صاحبزادی اور بیوہ (ہماری اماں صاحبہ) ہیں۔ حضرت کی طرح محترمہ بھی نیک اور صالح خاتون ہیں۔ اپنے بچوں کی جس طرح تربیت کی ہے بہت کم خواتین کو یہ اعزاز حاصل ہوتا ہے۔ استاد محترم عادل خان کی اولادپر بڑے بڑوں کو رشک آتا ہے۔ میں خود سات سالہ تجربات کا گواہ ہوں۔ نوجوانی میں ہی ان کی ملنساری، عاجزی، قابلیت اور للہیت کمال کی ہے۔ اللہ نے علم نافع اور قدیم وجدید کے ساتھ عمل کا بڑا حصہ بھی ودیعت میں دے رکھا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ انہیں اپنے والد اور دادا جان کے صحیح معنوں میں جانشین بنائے۔