Baron Ki Meeras Par Palti Aulaad Aur Talamza
بڑوں کی میراث پر پلتی اولاد اور تلامذہ
تاریخ کی کتابوں میں کتنے ہی ایسے واقعات درج ہیں جن میں عظیم شخصیات نے اپنی محنت، قابلیت، علم و ہنر اور حکمت و دانش سے نام پیدا کیا اور اپنی آنے والی نسلوں کے لئے ایک روشن مستقبل کی بنیاد رکھی۔ لیکن بدقسمتی سے، آج کی دنیا میں ہم ایسی اولاد اور تلامذہ کو بھی دیکھتے ہیں جو اپنی محنت اور قابلیت کے بجائے اپنے باپ دادا کی کمائی اور جائیداد پر پل رہی ہیں اور علمی دنیا میں خود کوئی قابل فخر کارنامہ انجام دینے سے قاصر ہیں۔ بس اپنے اساتذہ اور اکابر کا نام بیچ بیچ کر اپنا شملہ اونچا کرتے ہیں۔ ایسی اولاد اورخلف/ تلامذہ کو "استخواں فروش" کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔
استخواں فروش وہ ہیں جو باپ دادا کے نام، علم، اور جائیداد کو بیچ کر زندگی گزارتے ہیں۔ یہ لوگ خود کچھ کرنے کی جستجو نہیں رکھتے بلکہ اپنے بڑوں کے تذکرے اور ان کی علمی کمالات سے اپنے دن پورے کرتے ہیں۔ ان کے پاس نہ کوئی اپنی شناخت ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی قابل ذکر کارنامہ۔ حقیقت میں ایسے لوگ خدا کی زمین پر بوجھ کے سوا کچھ بھی نہیں!
ایسی اولاد اپنے بڑوں کے کارناموں کے قصے سناتے ہوئے خود کو عظیم سمجھتی ہے، لیکن حقیقت میں یہ ان کی بزدلی اور ناکامی کی علامت ہے۔ انہیں سمجھنا چاہیے کہ باپ دادا کی میراث کا فائدہ تب ہی اٹھایا جا سکتا ہے جب وہ اسے آگے بڑھانے کی کوشش کریں۔ اگر وہ صرف ماضی کے کارناموں پر فخر کرتے رہیں گے تو مستقبل میں ان کا کوئی نام نہیں ہوگا۔
ایسے لوگ نہ صرف اپنے خاندان اور اساتذہ و اکابر کا نام بدنام کرتے ہیں بلکہ معاشرے میں بھی منفی مثال پیش کرتے ہیں۔ نئی نسل کو یہ پیغام دینا ضروری ہے کہ باپ دادا اور اساتذۂ و اکابر کی میراث کو سنبھالنا اور اسے آگے بڑھانا ایک اہم ذمہ داری ہے، نہ کہ اسے بیچ کر زندگی گزارنا۔
ہمارے معاشرے کو ضرورت ہے ایسی نسل کی جو محنت، دیانت اور خود اعتمادی سے اپنی شناخت بنائے۔ انہیں اپنے بڑوں کی کامیابیوں سے سیکھ کر خود کو مضبوط بنانا چاہیے۔ یہ تب ہی ممکن ہوگا جب ہم استخواں فروش نسل کو سمجھائیں کہ اصل فخر محنت اور قابلیت میں ہے، نہ کہ باپ دادا اور اکابر کی جائیداد، علم، روحانیت اور نام بیچنے میں۔
خلاصہ کلام کہ باپ دادا، اساتذہ و اکابر کی کمائی، علم، تحقیقات اور علمی کمالات اور جائیداد پر پلنے والی اولاد و تلامذہ اگر خود کچھ نہ کریں اور اسی پر اترائے تو وہ صرف اپنے لئے ہی نہیں بلکہ اپنے خاندان، اساتذہ، اکابر اور معاشرے کے لئے بھی نقصان دہ ہیں۔ ہمیں ضرورت ہے ایسی نسل کی جو محنت، لگن اور خود اعتمادی سے اپنی پہچان بنائے اور اپنے بڑوں کی میراث کو آگے بڑھائے، نہ کہ اسے بیچ کر زندگی گزارے۔