Aurat Ki Samaji Haisiyat
عورت کی سماجی حیثیت
مسلم سماج میں عورت کی حیثیت کو کسی طرح کم نہیں کیا جاسکتا۔ فکری و ذہنی طور پر ہو یا جسمانی طور پر، بہر صورت عورت کی حیثیت تسلیم شدہ ہے۔ فکری و علمی طور پر عورت نے اپنی ذہانت کے جھنڈے گاڑ دیے ہیں۔ اسی طرح جسمانی طور پر بھی عورت مزدوری سے لے کر کھیتی باڑی تک کرلیتی ہے۔ سماج میں عورت کے کئی روپ ہیں۔ ہر روپ کا اپنا رنگ و مقام ہے۔ سماج مسلم ہو یا غیر مسلم مگر دینی ہدایات یکساں ہے۔ اگر سماج فساد اور برائی کی طرح مائل ہے تو عورت کو زیادہ محتاط اور فکر مند رہنے کا حکم ہے۔ اگر سماج قدرے مستحکم اور فرد کا تحفظ یقینی ہے تو پھر اسلام عورت پر زیادہ پابندیاں عائد نہیں کرتا اور نہ ہی عورت کو زیادہ مشوش اور فکرمند ہونے کی ضرورت ہوتی ہے۔
یہاں یہ بات ملحوظ خاطر رکھنی چاہیے کہ مرد ہو یا عورت، دونوں کو چند پابندیاں قبول کرنی پڑتی ہیں۔ فرد کو مطلق آزادی ازل ہی نہیں ملی ہے۔ مطلق آزادی چاہیے فرد کو دی جائے یا معاشرہ و ریاست کو، بہرصورت اس کا انجام بگاڑ ہے۔ پابندیوں کے ساتھ ہی اصلاح ممکن ہے۔ ہر ایک کے حدود متعین ہیں۔ چیک اینڈ بیلنس ضروری ہے۔ فرد، معاشرہ اور ریاست کو قوانین اور پابندیاں قبول کرنی پڑتی ہیں۔ اس کے بغیر ان کا وجود برقرار نہیں رہ سکتا۔
خاندان فرد کی آزادی میں رکاوٹ بلکہ مرد و عورت کی نشود و نما کا ضامن ہے۔ ریاست اور معاشرہ کی طرح عورت کو بھی ایک مضبوط دفاع اور حصار کی ہمہ وقت ضرورت رہتی ہے۔ نکاح ہی وہ واحد عمل ہے جو ایک عورت کو تحفظ بھی دیتا ہے اور خاندان اس عورت کو اپنے حصار اور دفاع میں لیتا ہے۔ اور معاشی کفالت بھی کرلیتا ہے۔ پھر نکاح کی بدولت عورت روز بروز طاقتور ہوتی جاتی ہے۔ اس کی سماجی حیثیت میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ ایک وقت آتا ہے وہی کمزور اعصاب کے مالک عورت کئی بیٹوں، نواسوں اور پوتوں پر حکم چلارہی ہوتی ہے۔ جسمانی طور پر نحیف، اس عورت کے حکم سے پوری فیملی میں کوئی روگردانی نہیں کرسکتا۔ یہ عورت ایک طرح کی حاکمہ بنی رہتی ہے۔
فی زمانہ ہمارے ہاں خواتین چار اقسام میں بٹ گئی ہیں۔ لازمی نہیں کہ یہی تقسیم آخری تقسیم ہے۔ یہ میری وضع کردہ تقسیم ہے۔۔ اس سے زیادہ اقسام بھی ہوسکتی ہیں مگر مجموعی طور پر اکثریت ایسی ہی ہیں۔
خواتین کی پہلی قسم خواتین خانہ کہلائیں گی۔ یہ خواتین سب سے زیادہ تعداد میں ہیں۔ یہ وہ خوش قسمت خواتین ہیں جو صرف گھر داری کرتی ہیں۔ اولاد کی تربیت کرتی ہیں۔ شوہروں کو خوش رکھتی ہیں۔ شوہروں کو گھر کے امور سے آزاد کرتی ہیں، امور خانہ خوش اسلوبی سے نمٹاتی ہیں۔ ان خواتین کے مسائل نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ان خواتین کی آزادی، طاقت اور گھر اور فیملی میں حکمرانی روز بروز بڑھتی جاتی ہے۔ کیونکہ معاش اور ضروریات زندگی کا سارا بوجھ مرد(باپ، بھائی، شوہر اور بیٹا) نے اپنے اوپر لیا ہوا ہے۔ یہ خواتین گھر کے سارے معاملات اپنے ہاتھ میں لیتی ہیں اور خوب فیصلے سناتی ہیں اور خرچے بھی دباکر کرلیتی ہیں۔
دوسری قسم کی جو خواتین ہیں وہ خواتین عاملہ(ورکنگ وویمن) کہلاتی ہیں۔ یہ خواتین گھر داری کے ساتھ کام کاج اور نوکری بھی کرتی ہیں۔ ان کو گھر سے باہر نکلنا پڑتا ہے۔ ان خواتین کے مسائل خواتین خانہ سے قدرے زائد ہوتے ہیں۔ ان کو دفاتر اور کام کی جگہوں میں بہت ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ خواتین گھر کے جملہ معاملات کیساتھ کماتی بھی ہیں۔ ان کی پیشہ وارانہ زندگی مجبوری کیساتھ چل رہی ہوتی ہے۔ ان کا دل بھی کرتا ہے کہ ان کا مرد کما کر دے اور انہیں گھر سے باہر کے جھمیلیوں سے آزاد کرے مگر عملا ایسا مشکل سے ہوتا ہے۔ اس لیے یہ خواتین مشکلات و مسائل کا سامنے کرتے ہوئے زندگی کی گاڑی جیسے تیسے چلارہی ہیں۔ آج کل یہ ایک سماجی اسٹیٹس بھی بن چکا ہے کہ خواتین خوشی خوشی جاب کرتی ہیں اور کمانے میں مرد کے ساتھ شریک رہتی ہیں۔ بہر صورت ورکنگ وویمن میں بہت کم تعداد ان خواتین کی ہیں جو فیشن اور سماجی اسٹیٹس کی وجہ سے نوکری کرتی ہیں۔
خواتین کی تیسری قسم خواتین مظلومہ کہلاتی ہیں۔ یہ وہ خواتین ہوتی ہیں جن کے گھروں میں ان کی کوئی اوقات نہیں ہوتی۔ ان کی زندگی اجیرن بنی ہوتی ہے۔ ان پر روز ظلم ہوتا ہے اور ظلم کی چکی میں پس کر بالآخر موت کا پیالہ پیتی ہیں۔ یہ خواتین انتہائی قابل رحم ہوتی ہیں مگر ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ خواتین کے نام پر بنی تنظیمیں بھی ان خواتین کا نہیں پوچھتی۔ ان کے اپنے مقاصد اور ایجنڈے ہوتے ہیں۔ مظلوم خواتین سے انہیں لینا دینا نہیں ہوتا ہے۔ یہ خواتین ہرقسم کا ظلم سہہ کر بھی اپنا گھر بچا لیتی ہے۔ یہ فیملی کے بہت سارے افراد ساس، سسر، دیور، شوہر اور باپ بھائی کے ظلم و ستم اور بےرخی کا ایک طویل عرصہ شکار رہتی ہے۔ ان خواتین کو زندگی کے آخری وقت تک بھی بنیادی حقوق میسر نہیں ہوتے، تاہم ان خواتین کے بیٹے بیٹیاں بڑے ہوجائیں تو ان کی زندگی میں قدرے افاقہ آجاتا ہے۔ ان کی خدمت کی جانے لگتی ہے۔ اور پھر یوں ان خواتین کا سماجی اسٹیٹس بڑھتا جاتا ہے اور وہ بھی اپنی اولاد کی بدولت زندگی انجوائی کرنے لگتی ہیں۔
خواتین کی چوتھی قسم خواتین فاسدہ کہلاتی ہیں۔ ان کے اخلاق مخرب ہوتے ہیں اور افعال فاسد۔ یہ وہ خواتین ہوتی ہیں جو اپنی بداخلاقی، بدتمیزی، بدزبانی اور بدچلنی کی وجہ سے کسی صورت اپنا گھر بسا نہیں سکتی۔ بسا ہوا گھر اجاڑ دیتی ہیں۔ پھر تنگ لباس پہن کر باہر نکلتی ہیں اور "خواتین خواتین" کا نعرہ لگاکر موم بتیاں جلاتی ہیں، جلوس نکالتی ہیں۔ عورت مارچ کرتی ہیں۔ نازیبا نعرے لگاتی ہیں۔ سگریٹ پیتی ہیں۔ حیض زدہ شلواریں ہاتھ میں لیے مرودں کو گالیاں دیتی ہیں۔ خون زدہ نیکر دیوارں پر لکٹاتی ہیں۔ دنیا کا ہر مرد ان کے نزدیک بہروپیا، فراڈیا، ریپسٹ اور ظالم ہوتا ہے۔ یہ اولیاء اور انبیاء کی شان میں بھی زبان درازیاں کرتی ہیں۔ یوں کچھ این جی اوز سے تھوڑا رقم پا لیتی ہیں اور ان کی زندگی کا جام و پیمانہ چل رہا ہوتا ہے۔ یہ خواتین مسلم سماج میں بہت قلیل تعداد میں ہوتی ہیں۔ ان کے پیچھے بڑے بڑے این جی اوز ہوتے ہیں۔ یہ خواتین بعض دفعہ اسکول، کالجز اور یونیورسٹیز میں پڑھنے والی طالبات، ورکنگ خواتین اور مظوم خواتین تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہیں اور انہیں گمراہ کرکے اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرنے میں کامیاب بھی ہوتی ہیں مگر ان کے خوش نما نعرے اور پس پردہ مقاصد، نہ ان خواتین کے مسائل و مشکلات کو ایڈرس کرتے ہیں نہ ہی مسلم سماج میں ایسے قبیح اور غیر فطری نعروں اور جملوں کی گنجائش ہوتی ہے، اس لیے وہ طالبات اور خواتین ان سے علیحدہ ہوتی ہیں۔
یہ بات ذہن میں رہے کہ اسلام اور مسلم سماج عورت کے حوالے سے فکری اور عملی طور پر قطعا لاوارث نہیں ہے۔ الحمدللہ! اس گئے گزرے دور میں بھی مسلم سماج میں مرد اپنی ماں، بہن، بیوی، بیٹی اور پوتی کے حوالے سے انتہائی محتاط ہے۔ ان کی خدمت کو اپنا شعار بنایا ہوا ہے۔ ان کے معاملے میں اللہ سے ڈرتا ہے۔ بہت سی کمزوریوں کیساتھ بھی مرد کا یہ معاشرہ عورت کی احترام و عزت میں کمی کرنے کے حق میں نہیں۔ تسلیم کیا جانا چاہیے کہ سینکڑوں کمزوریاں مسلم سماج کے مرد کے پاس عورت کے متعلق موجود ہیں مگر مجموعی طور پر آج بھی مسلمان مرد عورت کا تحفظ، اس کی کفالت، علاج معالجہ، اور تربیت میں اپنی بساط کے مطابق بہتری لانے کی کوشش کرتا ہے۔
8 مارچ کو یوم نسواں کے موقع پر اپنے تاثرات احباب سے شیئر کیے تھے۔ آپ سے بھی شیئر کرکے اجازت چاہونگا۔ میں سمجھتا ہوں کہ مسلم سماج میں میری طرح ہر مرد اپنی بہن اور بیٹی کے متعلق یہی جذبات رکھتا ہے۔ ملاحظہ ہو۔
"یہ میری اکلوتی بیٹی ہے۔ اس کا نام وجیہہ حقانی ہے۔ اس کی عمر ڈیڑھ سال ہے۔ ان شاء اللہ مئی 2021 میں ایک اور بیٹی پیدا ہوگی۔ یہی اللہ سے دعا بھی کی ہے۔ ان دونوں کی کفالت اور حسن تربیت سے میرے لیے جنت لازم ہوگی۔ یاد رہے میری دو چھوٹی بہنیں بھی میری کفالت و تربیت میں ہیں۔ یہ چاروں بچیاں میری کامیابی اور جنت کی ATM ہیں۔ ان کے جنتی ATM ہونے کی خبرصادق، میرے حبیب ﷺ نے دی ہے۔
اب کسی عورت دشمن کو تکلیف ہے تو وہ اپنی تکلیف دور کیجے۔ میں آپ کے جعلی نعروں (چاہیے عورت کی آزادی کے حق میں ہوں یا مخالفت میں) قطعا متاثر نہیں ہوں۔ مجھے آپ سے عورت کے بارے میں ڈکٹیشن لینے کی قطعا ضرورت نہیں۔
تم اپنا عورت دشمن ایجنڈا اپنے پاس رکھیو۔
اور ہاں تم بھی! جو مغرب کا ایجنڈا نافذ کرنا چاہتے ہو۔
سچ یہ ہے کہ تم دونوں عورت دشمن ہو۔ تم دونوں کے ایجنڈے / نعرے پر عمل کی صورت میں عورت کی تباہی و بربادی لازم ہے۔ اس کی عصمت و عفت تار تار ہے۔ اور اسکی آزادی مفقود ہے۔
ایک سماج اور اسلام کا نام دے کر عورت دشمنی کررہا ہے۔
دوسرا عورت سے جعلی ہمدردی کرکے عورت کو جنس بازار بنانا چاہتا۔
سچ کہوں تو تم دونوں سے مسلم سماج بیزار ہے۔ اور ہاں! مسلم سماج عورت کے حوالے سے اتنا لاوارث بھی نہیں۔
مسلم سماج کے پاس اپنی بہن اور بیٹی کے لیے ایک اصولی روڈ میپ موجود ہے جو ان کے حبیب کبریا ﷺ نے دیا ہے۔ ملاحظہ کیجے۔
عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ رضی اللہ عنہ ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: (لا یَکُوْنُ لِاَحَدٍ ثَلاثُ بَنَاتٍ، اَوْ ثَلاثُ اَخَوَاتٍ، اَوْ بِنْتَانِ، اَوْ اُخْتَانِ، فَیَتَّقِی اللّٰہَ فِیھِنَّ، وَیُحْسِنُ اِلَیْھِنَّ، اِلاَّ دَخَلَ الْجَنَّۃَ۔) (مسند احمد: ۱۱۴۰۴) ترجمہ: سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس آدمی کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں یا دو بیٹیاں یا دو بہنیں ہوں اور وہ ان کے حقوق کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہو اور ان کے ساتھ احسان کرتا ہو تو وہ جنت میں داخل ہو گا۔"