Tuesday, 24 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Amirjan Haqqani
  4. Aao, Jagot Chalen

Aao, Jagot Chalen

آؤ، جگوٹ چلیں

4 ستمبر 2022، اتوار کا دن تھا۔ صبح صبح کچھ تحریری کام نمٹا کر، اچانک خیال آیا کہ مرکز دارالایمان والتقوی پڑی بنگلہ کا چکر لگے، بس چل دیا، راستے میں حکیم مولوی مبین ملے۔ علیک سلیک کے بعد کہا جگوٹ جانے کا ارادہ ہے۔ چار ساتھی اکیلے جا رہے ہیں۔ ہم نے کہا، ہم بھی کیوں نہ چلیں، پھر ہم بھی ان کیساتھ چل دیے۔ مولوی حیات، مولوی غلام صادق، مولوی احسان اور مولوی مبین کیساتھ براستہ چکر کوٹ داس جگوٹ چل دئیے۔

ویسے کسی بھی سفر میں صرف مولوی ہوں تو سفر کا مزہ دوبالا ہو جاتا ہے۔ ایک تو قیام و طعام کی سہولیات مفت میں میسر آ جاتی ہیں دوسرا بندہ خوب ہذیان بکتا ہے۔ پھلجھڑیاں اڑانے اور ہفوات گوئی پر کسی قسم کی پابندی ہوتی ہے نہ خوف۔ عام احباب بھی ساتھ ہوں تو انتہائی محتاط ہونا پڑتا ہے جو سفر میں کم از کم میرے جیسے ناہنجار شخص کے لئے تکلیف دہ ہے۔ خوامخواہ کا مصنوعی خول چڑھانا بالکل بھی اچھا نہیں لگتا۔ سو یہ سفر بھی مولویانہ ہفوات پر مشتمل تھا۔ دوسری شادی بھی ہارٹ ٹاپک رہا۔

چکر کوٹ نالے میں بہت سے حسین مقامات ہیں۔ ان میں جانے کا شوق سالوں سے تھا مگر کوئی مناسب ترتیب نہیں بن رہی ہے۔ ہر سال احباب کی جماعت کو لے چلنے کا پلان بنتا مگر پھر یہ پلان کسی مصروفیت کی نذر ہو جاتا۔ آج یوں ہی اچانک چل دئیے۔ بس اتنا معلوم تھا جگوٹ جانا ہے۔ جگوٹ کا لفظ بچپن میں سنا تھا۔ میری فیملی منقسم ہے۔ آدھی جگوٹ میں ہے اور آدھی گوہرآباد میں۔

اب تو حوادثات زمانہ کا شکار، کچھ گوہرآباد، کچھ گیس پائن وبالا، کچھ جوتل، کچھ گلگت سکوار، کچھ دنیور اور کچھ جگوٹ میں مقیم ہیں۔ کافی سارے شیعہ ہیں اور بہت سارے سنی۔ کمیونیکیشن کے اس دور میں بھی فیملی کمیونیکیشن بہت کمزور ہے۔ خوشیوں میں بہت کم اور ایامِ غم و حزن میں ایک دوسروں کے پاس جانا لگا رہتا ہے مگر بہت کم۔ اس ابہام کی تفصیل یہ ہے۔

گوہرآباد میں ہمارے خاندان کا شجرہ نسب کچھ یوں ہے۔ ہمارے شجرہ نسب کے نویں فرد کا نام طلقو ہے۔ یعنی طلقو دادا سے ہمارے نسب، خاندان کی تفصیلات میرے پاس محفوظ ہیں۔ یہ تفصیلات کا ماخذ انکل غلام حیدر اور میری چھوٹی پھوپھی ہیں جن سے یہ تفصیلات ڈائری میں محفوظ کیں ہیں۔ تین سو سال قبل کا شجرہ محفوظ ہے۔

طلقو کے دو بیٹے تھے۔ ایک کا نام شوٹو جبکہ دوسرے کا نام شگوفو۔ شوٹو کا پورا خاندان بھی موجود ہے جو دیدار، جوار، جوان، غلام سعید و جلیل پر مشتمل ہے۔ اور شگوفو کی نسل بھی موجود ہے۔ شگوفو کی نسل سے ہم ہیں۔ شگوفو نے گوہرآباد سے آ کر علاقہ جگوٹ کو پہلی دفعہ آباد کیا ہے۔ شگوفو نے دو شادیاں کی تھی۔ ایک گوہرآباد سے اور ایک علاقہ سئی جگوٹ سے۔ گوہرآباد والی عورت کا بیٹا حَسَنو ہے۔ حسنو کے چچا شوٹو نے اپنی بیٹی کا بیاہ حسنو سے کیا تھا جس کا بیٹا قربان ہے۔

شگوفو کی جگوٹ والی عورت سے جو نسل ہے وہ اب بھی جگوٹ، گلگت سکوار اور جوتل میں آباد ہے۔ انشاء اللہ جگوٹ والی باقیات کا نسب بھی لکھ کر محفوظ رکھنا ہے۔ حسنو کے بیٹے قربان نے بھی دو شادیاں کی تھیں۔ ایک شادی گوہرآباد سے دوسری جگوٹ سے کی تھی۔ قربان انتہائی تگڑا اور دلیر نمبردار تھا۔ انگریز نے بھی اس کی بہادری کا ذکر اپنی کتب اور دفتری ریکارڈ میں کیا ہے۔

اس کی گوہرآباد والی عورت سے چار بیٹے پیدا ہوئے جن کے نام یہ ہیں۔ دبان، دوران، کشکار اور دینار ہیں۔ اور جگوٹ والی عورت سے ایک بیٹا تھا جس کا نام غریب ہے۔ غریب سے دو بیٹیاں پیدا ہوئیں ایک کا نام جنت النساء اور دوسری کا نام بی بی سعدیہ تھا۔ جنت النساء سے غلام حیدر اور ان سے سجاد حیدر، صفدر اور مسعود حیدر پیدا ہوئے۔ اور بی بی سعدیہ سے اسماعیل اور تین بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ ہمارے دادا قربان کی گوہرآباد والی عورت کی بیٹیوں کی پوری فیملی موجود ہے۔

میرے دادا نمبردار ابراہیم خان کے والد کا نام دوران اور میری دادی کے باپ کا نام دینار تھا۔ دبان کی اولاد میں قادر، جمل خان، صادق اور علی خان تھے۔ جبکہ کشکار کی اولاد میں نواز اور اسحاق ہیں۔ چیف انجینئر جناب عبدالخالق جمل خان کے بیٹے ہیں۔ اس تفصیل سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ موضع جگوٹ، ہمارے دادا شگوفو نے آباد کیا جس کی نسل موجود ہے اور اسی طرح ہمارے پڑدادا کے سگے بھائی غریب بھی وہی آ کر بسے۔ اس کی پوری نسل بھی موجود ہے۔

ہم نے جگوٹ کی طرف موٹر سائیکلز کو بھگانا شروع کیا۔ منٹوں میں چکر کوٹ داس کراس کر گئے، وہی سے علاقہ چکر کوٹ اور جگلوٹ کے حسین مناظر دیکھنے کو ملے۔ دریائے جگلوٹ اپنی تمام تر شفافیت کیساتھ ہمارے سامنے تھا اور ہم سیدھا چکر کوٹ کی پرانی آبادی میں داخل ہوئے۔ چکر کوٹ سے متصل زروٹ، سبیل، پھر زمروٹ اور جگوٹ کے علاقے ہیں۔

ہم نے جگوٹ میں مولوی سیف اللہ کے ہاں جانا تھا، روڈ سے پگڈنڈی راستوں پر چڑھتے ہوئے سیدھا مسجد عمر پہنچے، مسجد عمر جگوٹ کے محلہ ہوٹنگ میں واقع ہے۔ ہمارے میزبان اور مسجد عمر جگوٹ کے امام سیف اللہ راستے میں ہی ملے۔ وہ دیامر تھور کے ہیں۔ یہاں امامت اور چھوٹے بچوں کو قرآن کریم پڑھاتے ہیں اور درس بھی دیتے ہیں۔ وہی سے مسجد گئے، وضو کیا اور نماز ظہر ادا کی۔

جگوٹ کے پہاڑوں کے دامن میں چھوٹی سی مسجد ہے جہاں پانچ وقت اللہ اکبر کی صدائیں بلند ہوتی ہیں۔ مسجد سے پورے جگوٹ، سبیل، چکر کوٹ، زروٹ، بولہ جوت جگوٹ، شمروٹ اور پڑی بنگلہ کا کول اور دریائے جگلوٹ کے مناظر بہت شاندار دکھائی دیتے ہیں۔ کافی بلندی پر واقع مسجد کے صحن سے بالکل سامنے پڑی بنگلہ کے لیے نکالا گیا نہری کول نظر آ رہا ہے۔ اس کول کے ذریعے بہت سارا پانی پڑی بنگلہ پہنچتا ہے جس سے بجلی بھی پیدا ہوتی اور زمینں بھی سیراب ہوتیں ہیں۔

بہت دیر تک وہی کھڑے مناظر قدرت دیکھتے رہے اور دیکھتے چلے گئے۔ اتنے میں جگوٹ کے سیزن کے آخری پکے ہوئے انگور کا تھال پہنچ گیا۔ ہمارے رفقاء پکے انگوروں پر حملہ آور ہو گئے، آناً فاناً پورا تھال خالی ہوا، مفت کے ماکولات، زہر مار کرنا کوئی مولویوں سے سیکھے۔ اتنے میں محلہ کے رہائشی فقیر محمد کے گھر سے بلاوا آیا اور ہم وہی چل دئیے۔ پھر انگوروں اور تازہ انار کا دور چل گیا۔ احباب نے پکے انگور اور کچے انار کیساتھ جو انصاف کیا وہ ناقابل بیان ہے۔

مولوی حضرات جب اکیلے میں شکم سیری کرتے ہیں تو پھر خورد و نوش اور اکل و شرب کے جملہ آداب بالائے طاق رکھ کر شکم پروری کر رہے ہوتے ہیں۔ چونکہ مفت کھانا ہوتا ہے تو دوسرے کو ثواب ملنے کی نیت سے اتنا کھاتے ہیں کہ اگلا بندہ جیتے جی جنت پہنچ جاتا ہے یعنی جیتے جی مرا جا رہا ہے کہ یہ بسیار خور کہاں سے وارد ہوئے؟ ہمارا بھی یہی حال تھا۔

مولوی لوگ جب بھی دوسروں کا کھاتے ہیں تو اللہ کو حاضر ناضر جان کر، خوب اخلاص اور خشوع و خضوع کے ساتھ تناول فرماتے ہیں تاکہ کھلانے والے کو پورا پورا ثواب مل جائے۔ ایک بڑا طبقہ انتہائی پریشان ہے کہ اللہ مولویوں کو یوں ہمیشہ فری کیوں کھلا رہا ہے؟ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ مولوی بننا بہت مشکل ہے، جب بن جائے تو پھر اللہ دس طریقوں سے بلامشقت کھلانے کا انتظام فرماتے ہیں۔ ویسے اللہ سے دعا ہے کہ وہ امت مرحومہ کو مولویوں کی شکم پروری سے محفوظ فرمائے۔

پھر کھانا لگا، کھانا کھانے کے بعد ہم بولہ جوت میں واقع جگوٹ پاور ہاؤس کی جانب چل دئیے۔ مولوی سیف اللہ صاحب نے اپنے کسی مقتدی سے کہہ کے پکے انگوروں کا انتظام کیا ہوا تھا۔ انگور کو لیے جگوٹ پاور ہاؤس کراس کر کے متصل، بہتے پانیوں کے درمیاں میں ایک بڑے سے پتھر پر پڑاؤ ڈالا۔ ساتھ لائے پکے انگوروں پر پھر سے حاجم ہوئے۔ احباب نے پاؤں ٹھنڈے اور شفاف پانیوں میں لٹکائے، خوب تصویر کشی کی گئی، بہتے شفاف پانی سے وضو کیا۔

بہت دیر تک مولویوں کے شگفتہ بیانیوں کے مزے لیے، اردگرد نظریں کیا دوڑائیں، دائیں بائیں سبزہ ہے۔ مکئی کے کھیت ہیں اور لہلاتے درخت ہیں۔ اور دریائے جگلوٹ اپنی اب و تاب کیساتھ رواں ہے۔ صدیوں سے اس کی روانی میں کمی نہیں آئی۔ اس دریا کا اصل منبع گاشو پہوٹ ہے، وہاں جھیلیں ہیں، بہت سارے آبشار ہیں۔ بہت آگے چھوٹے چھوٹے گلیشئر ہیں اور برفانی تودے بھی۔

بولہ جت جگوٹ کے پاور ہاؤس کے ایف سی کے اہلکار بھی مامور ہیں اور محکمہ جنگلات کے ملازمین بھی۔ جنگلی لکڑیوں کی غیر قانون نقل و حمل کی نگرانی پر مامور ہیں۔ ہم نے پاور ہاوس کا بھی جائزہ لیا۔ بجلی کی بڑی مقدار میں پیداوار ہے۔ علاقہ جگلوٹ کی ضروریات کو یہ پاور ہاؤس پوری کرتا ہے۔ پاور ہاؤس کے احباب نے بہت محبت سے وزٹ کرایا۔ وہاں سے کافی آگے سرگہ ہے۔ سرگہ تک گاڑی جاتی ہے۔ روڈ کچا ہے مگر کافی کھلا ہے۔ چھوٹی گاڑیاں بھی جا سکتی ہیں تاہم جیپ اور پراڈو اور فور ویلز گاڑیاں بہت ہی سہولت سے جاتی ہیں۔ وہاں سے دو نالے ہیں۔

ایک پہوٹ۔

دوسرا گاشو۔

پیدل گاشو تک پانچ گھنٹے کی مسافت ہے۔ اتنے ہی گھنٹوں میں پہوٹ بھی پہنچا جا سکتا ہے۔ ہمارے رفیق سفر حیات خان کا تعلق بھی پہوٹ سے ہے۔ سننے میں آیا ہے کہ گاشو کی طرح پہوٹ بھی بہت خوبصورت ہے۔ کئی ایک ویڈیو کلپس اور تصاویر سے ان علاقوں کی خوبصورتی نظر نواز بھی ہو چکی ہے۔ گاشو اور پہوٹ میں گجر برادری آباد ہے۔ گاشو پہوٹ کے درمیانی راستے میں بلاس کا علاقہ ہے۔ پڑی بنگلہ سے بلاس تک ڈیڑھ گھنٹہ کا سفر ہے۔ بلاس میں اکثریت مغل قبیلہ کے افراد آباد ہیں جن کو گلگت بلتستان میں کمین برادری بھی کہا جاتا ہے۔

بہرحال اللہ نے زندگی دی تو بلاس، سرگہ، گاشو اور پہوٹ کی حسین وادیوں کا طواف کرنا ہے۔ اللہ نے بے تحاشا قدرتی حسن ان علاقوں کو ودیعت کر رکھا ہے۔ اگر حکومت نے سفری سہولیات مہیا کی تو دنیا ایک نئی دنیا سے متعارف ہو جائے گی اور قدرت کے پیدا کردہ ہزاروں حسین مناظر، جھیلیں، آبشار، شفاف پانیوں کے جھرنے اور انتہائی بلندیوں پر پھیلے سبزے اور جنگلی حیات و گھنے جنگلوں سے بہرہ ور ہو جائے گی۔ دریائے جگلوٹ(ڈموٹ سے گاشو تک) ٹروٹ مچھلیوں کا ہب ہے۔ انتہائی ٹھنڈے اور شفاف بہتے پانیوں میں ٹروٹ مچھلیاں بے تحاشا ہیں۔

اللہ نے توفیق دی تو اگلے سال جانے کا پروگرام ہے۔

واپسی پر ہم نے نماز عصر شمروٹ کی مسجد میں ادا کی، یہ مسجد ہمارے دوست مولانا ثناءاللہ (نمبردار) نے تعمیر کروائی ہے۔ سبیل بازار میں کئی احباب اور تلامذہ سے ملاقات ہوئی۔ اصرار تھا کہ ہم رات گزاریں مگر ہمیں جلدی پہنچنا تھا۔ اگلی دفعہ حاضری کا وعدہ کر کے چل دیے اور براستہ ڈموت جگلوٹ بازار سے ہوتے ہوئے مغرب کو گلگت پہنچے۔

Check Also

Hamzad

By Rao Manzar Hayat