Sarkari Schools Ki Privatization
سرکاری سکولز کی پرائیویٹائزئشن
سرکاری سکولز کو پرائیویٹ ہونے سے بچانے اور ماڈل ادارے بنانے کیلئے تیز بہدف، کم خرچ بالا نشین لائحہ عمل۔
حیرت مجھے ان مشیران پر ہے جو سرکار کو ملکی اخراجات کم کرنے کیلئے پرائمری سکولز اور دیگر کمزور سکولز ٹھیکے پر دینے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ اعداد و شمار شاہد ہیں کہ ملکی اخراجات صرف اور صرف کفایت شعاری سے کم ہو سکتے ہیں تعلیمی ادارے پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کرنے سے کسی صورت نہیں۔ ویسے بھی دیگر ممالک کے مقابلے میں ہمارا تعلیمی بجٹ پہلے ہی شرمناک حد تک کم ہے۔ دو روز قبل میں نے جناب وزیر تعلیم پنجاب کے نام ایک عرضی گزاری جس میں سکولز کی پرائیویٹائزیشن کے حوالے سے چند نکات آنجناب کے گوش گزار کئے تھے۔
کچھ دوستوں کی جانب سے یہ اصرار کیا گیا کہ مسائل کے حل بھی بتائیں تو اسی سلسلے میں اپنی محدود سی ریسرچ اور علم کے مطابق درج ذیل حل میری سمجھ میں آتے ہیں۔ اگر ان پر پچاس فیصد بھی عمل کر لیا گیا تو اگلے تین سال کے عرصہ میں یہ تمام کم تعداد والے اور ناکام سکولز بہترین پرفارمنس والے سکول بن جائیں گے اور پہلے سے بہترین سکولز ماڈل بن جائیں گے۔ انکا معیار تعلیم بہتر سے بہترین ہو جائے گا۔ اگر وزیر تعلیم جناب رانا سکندر حیات یہ کر گزرتے ہیں تو تاریخ انھیں تعلیم کے سکندر کے طور پر یاد رکھے گی۔
1۔ رپورٹ کے مطابق صرف پنجاب میں ایک کروڑ دس لاکھ بچے ایسے ہیں جو سکول جانے کی عمر ہونے کے باوجود سکول نہیں جا رہے مگر اس پوٹینشل کو ابھی تک صحیح معنوں میں ٹارگٹ ہی نہیں کیا جا رہا۔ حیران ہوں کہ سکول پرائیویٹ کرنے کے مشورے دینے والے مشیر ان بچوں کو سکول لانے کے مشورے کیوں نہیں دیتے۔ بچوں کی تعداد کی بہتری کیلئے انھی بچوں کو ٹارگٹ کرکے این جی اوز کے اشتراک سے دیگر سرکاری محکموں، نمبردار، امام مسجد اور دیگر کمیونٹی افراد کے ساتھ مل کر ایک سالہ بھرپور مہم چلائی جائے اور آؤٹ آف سکول یہ بچے ہر صورت سکولز تک لائے جائیں۔ تمام پرائمری مڈل ہائی حصے کے اساتذہ اس میں جان لڑائیں اور اپنے ٹارگٹ ہر صورت پورا کریں۔ اس سلسلے میں سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ اور فیملی ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ بہت مدد کر سکتے ہیں۔
2۔ جن سکولز میں سہولیات ناکافی ہیں اس کیلئے حکومت ایک کیمپین لانچ کرے ہر علاقہ کے مخیر حضرات کو تعاون کیلئے آمادہ کیا جائے۔ جہاں کمرے نہیں ہیں وہاں کم از کم برآمدے بنا کر نیچے ٹاٹ بچھا کر صاف ستھرے ماحول میں پڑھا دیا جائے تو بھی کام بہت اچھا چل سکتا ہے۔ سکولز میں موجود سایہ دار درختوں کے نیچے بیٹھ کر ہم خود پڑھتے رہے ہیں۔
3۔ تمام سکولز میں اساتذہ کے حاضری سسٹم کو فی الفور ہنگامی بنیادوں پر بائیومیٹرک کر دیا جائے اور اسے براہ راست سی ای او اور ڈی ایم او دفتر میں مانیٹر کیا جائے۔ چھٹی کے آن لائن سسٹم کو مزید بہتر بنایا جائے۔ پیریڈ شیڈول اور سلیبس مانیٹرنگ آفیسرز کے زریعے جاری کیا جائے سکولز ہیدز اور اساتذہ اسکے مطابق سکول چلانے کے پابند ہوں۔ بچوں کے والدین اور سکول ہیڈ و اسٹاف کے درمیان خلا کو پر کرنے کیلئے جدید طریقہ ہائے کار اپنائے جائیں۔
4۔ سکولز کی انسپکشن کے سسٹم میں ہنگامی اصلاحات کی جائیں۔ انسپکشن کیلئے الگ خودمختار ڈیپارٹمنٹ ہو جو براہ راست ڈی سی او کے ماتحت ہو۔ ڈائریکٹ سلیکٹ ہونے والے اے ای اوز کو اس ادارے کے ماتحت لایا جائے۔ مانیٹرنگ آفیسرز سے تمام سکولز کی ماہوار کم سے کم دو سے تین بار سر پرائز مانیٹرنگ کروائی جائے۔ ایم ای ایز کا انسپکشن سسٹم بہت بہترین ہے اسکا دائرہ کار بڑھا کر تمام کلاسز کو اس کے تحت لایا جائے۔ تمام کلاسز کے ماہانہ ٹیسٹ بھی ایم ای ایز اور مانیٹرنگ آفیسر لیں۔ حاضریاں پوری کرنے اور تعداد بڑھانے کا روڈ میپ بھی یہ ادارہ طے کرے گا۔
5۔ پہلی کلاس سے لے کر ساتویں کلاس تک لائف سکلز کا ایک لازمی مضمون بھی رکھا جائے جس میں بچے کو اخلاقیات سکھانے کے ساتھ گھر کے کام مثلاً اپنے کپڑے خود پریس کرنا، گھر کی صفائی، کپڑے دھونا، کھانا بنانا، چاہے بنانا، نمازیں اور دیگر بنیادی چیزیں سکھائی جائیں اس کے نمبرز ہوں۔ چھوٹے بچوں کو چھوٹے کام پھر بتدریج عمر کیساتھ کلاسز کے حساب سے کاموں کو بڑھاتے جائیں ہمارے لڑکے ان کاموں کو ہتک سمجھتے ہیں تاہم ترقی یافتہ ممالک کو دیکھ لیجئے انکے تمام افراد بلاتفریق یہ کام کرتے ہیں۔ اپنے نبیؑ کی زندگی کا مطالعہ ہی کر لیجئے۔ زندگی کے چیلنجز کا سامنا کرنے کیلئے لائف سکلز بہت ضروری ہیں ان انسان کی زندگی میں ایک توازن آتا ہے یہی تعلیم کا مقصد ہے۔ جبکہ آٹھویں، نویں اور دسویں میں کوئی ایک ٹیکنیکل سکل ہر بچے کیلئے سیکھنا لازمی قرار دیا جائے اس کا ایک لازمی مضمون ہوتاکہ بےروزگاری کے سیلاب کے آگے معمولی بند باندھا جا سکے اس کیلئے ٹیکنیکل ایجوکیشن کالجز سے تجاویز لی جا سکتی ہیں۔
6۔ اساتذہ بچوں کی صفائی ستھرائی پر توجہ دیں ٹھیک ہے کہ یہ بچے زیادہ تر غریب کے ہوتے ہیں یونیفارم پرانا ہو مگر کم از کم صاف ستھرا تو ہونا چاہئے اگر والدین توجہ نہیں دیتے تو بچہ خود اس ہر توجہ دے لائف سکلز دینے کا یہی مقصد ہے بڑا بہن بھائی چھوٹے بہن بھائی کیلئے یہ کام کرے اور گھر پر اسے بھی سکھائے اس طرح گھر کا ماحول بھی صاف ستھرا رہتا ہے۔
تمام پرائمری اور مڈل اساتذہ کی ایک ماہ کی ٹریننگ کروائی جائے جس میں درج بالا تمام امور کیلئے اساتذہ کو تیار کیا جائے۔ آخر میں پھر دست بستہ عرض کروں گا کہ سرکاری سکولز کو پرائیویٹ کرکے اربوں روپے کی بچت کا سوچنا خام خیالی کے سوا کچھ نہیں۔ جس طرح گھر کے اخراجات میں کمی کفایت شعاری کرکے کی جاتی ہے اسی طرح ملکی اخراجات میں کمی بھی تمام محکمہ جات میں کفایت شعاری مہم اپنا کر ہی کی جا سکتی ہے سکولز کو فروخت یا ٹھیکے پر دے کر اخراجات میں کمی کسی صورت ممکن نہیں ہے۔ یہ سکولز سرکار کی ملکیت ہیں انھیں سرکار ہی چلائے انکی پرائیویٹائزیشن یا ٹھیکے پر دینا کوئی حل نہیں ہے بلکہ سرکاری سکولز کی مزید خرابی کا باعث بنے گی پھر اس نقصان کا ازالہ کرنے کیلئے اربوں نہیں کھربوں روپے اخراجات آئیں گے۔