Monday, 14 July 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Amer Abbas
  4. Pak Bharat Tanaza, Americi Kirdar

Pak Bharat Tanaza, Americi Kirdar

پاک بھارت تنازع، امریکی کردار

یہ کوئی عام بیان نہیں تھا۔ امریکہ جیسے عالمی طاقت کے نائب صدر کی زبان سے ادا ہونے والا ہر لفظ پوری دنیا کے لیے اشارہ ہوتا ہے اور جب نائب صدر جے ڈی وینس نے کھلے لفظوں میں کہا کہ "ہم خود کو اس تنازع میں شامل نہیں کریں گے"، تو اس نے کئی نئے سوالات کو جنم دے دیا۔

یہ بیان اُس پس منظر میں سامنے آیا جب بھارت نے پاکستان پر جارحیت کی راہ اپنائی اور پاکستان نے روایتی شائستگی سے ہٹ کر دو ٹوک انداز میں جواب دینے کا عندیہ دیا۔ امریکی نائب صدر کا کہنا تھا کہ انہوں نے پاکستان کو جواب نہ دینے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی، مگر پاکستان جواب دینے پر اصرار کر رہا ہے۔

یہ بیان بظاہر غیرجانبداری کا اعلان لگتا ہے مگر اس میں سفارتی جملہ بازی سے زیادہ کچھ چھپا ہوا ہے۔ امریکی تاریخ بتاتی ہے کہ وہ کبھی بھی ایسے تنازعات سے مکمل غیر متعلق نہیں رہا چاہے وہ بالواسطہ ذرائع سے مداخلت ہو، میڈیا کے ذریعے بیانیہ سازی یا پھر ہنگامی اسلحہ ڈپلومیسی۔

اصل بات یہ ہے کہ اگر امریکہ واقعی غیر جانب دار ہوتا تو پہلا سوال یہ بنتا ہے کہ اس نے پاکستان کو روکنے کی "کوشش" کیوں کی؟ کیا بھارت کو بھی ایسا ہی مشورہ دیا گیا؟ اگر بھارت نے جارحیت کا آغاز کیا تو پہلا اخلاقی و سفارتی دباؤ اسی پر آنا چاہیے تھا۔

پاکستان کے ردعمل کی بات کی جائے تو وہ محض ایک "غصے کی کارروائی" نہیں بلکہ ایک ریاستی فرض ہے۔ کوئی بھی خودمختار ملک جب بار بار دراندازی، حملے اور دہشتگردی کا شکار ہو تو اس کے پاس خاموش رہنے کا آپشن کب تک رہتا ہے؟ ریاست کا پہلا فرض اپنی سرحدوں کا دفاع اور عوام کا تحفظ ہوتا ہے اور اگر پاکستان جواب دے رہا ہے تو یہ کوئی اشتعال نہیں بلکہ ایک منطقی، ضروری اور قانونی اقدام ہوگا۔

اب آتے ہیں اُس "غیر شمولیت" کی طرف جس کا اعلان امریکہ نے کیا۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جب بھی امریکہ نے کہا کہ وہ کسی تنازع کا حصہ نہیں بنے گا، چند ہفتے بعد وہ یا تو براہ راست لڑ رہا ہوتا ہے یا سفارتی دباؤ کے ذریعے کسی ایک فریق کو کمزور کر رہا ہوتا ہے۔ افغانستان، عراق، شام، یوکرین سبھی کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔

پاکستان کے لیے یہ لمحہ فکریہ بھی ہے اور موقع بھی۔ فکریہ اس لیے کہ عالمی طاقتیں ہر بار اُسے زبانی کلامی سراہتی ہیں مگر عملی طور پر تنہا چھوڑ دیتی ہیں۔ موقع اس لیے کہ پاکستان کو اب خود اپنے بیانیے، اتحادوں اور جنگی حکمت عملی کو اندرونِ خانہ استوار کرنا ہوگا، بجائے اس کے کہ وہ ہمیشہ عالمی "ثالثی" کے انتظار میں بیٹھا رہے۔ اب پاکستانی سیاسی قائدین کو چاہیے کہ اس نازک صورتحال میں پہلے اپنے ملک کے اندر مکمل اتحار اور یگانگت پیدا کی جائے۔ جو سیاستدان سیاسی مقدمات میں پابند سلاسل ہیں انھیں رہا کرکے یکجہتی کا ایک پیغام پوری دنیا میں جانا چاہئیے۔

ایک پہلو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دنیا کی کوئی بڑی طاقت، حتیٰ کہ امریکہ بھی کسی خطے میں جنگ نہیں چاہتا خصوصاً جب وہ خطہ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہو۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کا حالیہ بیان دراصل بھارت کے لیے ایک اشارہ بھی ہے کہ "ہم تمھاری پشت پر کھڑے ہونے کی گارنٹی نہیں دیتے"۔

نائب صدر جے ڈی وینس کا یہ بیان بظاہر "غیر جانبدارانہ" ہے مگر اس کے اندر ایک پوشیدہ سفارتی ہلچل بھی چھپی ہے۔ پاکستان کو اب یہ سمجھنا ہوگا کہ عالمی منظرنامہ تبدیل ہو رہا ہے۔ اب دوستیاں وقتی اور مفادات مستقل ہوتے جا رہے ہیں۔ پاکستان کو اپنی بقا اور وقار کے لیے اپنی سمت، اپنی حکمت عملی اور اپنی طاقت پر ہی انحصار کرنا ہوگا۔

اگر جنگ کی آگ بھڑک اٹھی تو اس کا تھمنا مشکل ہو جائے گا کیونکہ کئی ممالک نے اپنا اسلحہ بھی تو فروخت کرنا ہے۔ غالباً لینن نے کہا تھا کہ جب خودکشیاں بڑھنا شروع ہو جائیں تو سرمایہ دار رسیاں بیچنا شروع کردیں گے۔

Check Also

Heart Attack Ka Khof

By Najeeb ur Rehman