Friday, 29 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Amer Abbas
  4. Mojuda Siasi Bohran Aur Iska Hal

Mojuda Siasi Bohran Aur Iska Hal

موجودہ سیاسی بحران اور اسکا حل

بعض عوامی حلقے یہ کہہ رہے ہیں کہ اب مسلم لیگ ن کا وجود ختم ہو گیا اب وہ اٹھ نہیں سکیں گے وغیرہ وغیرہ۔ میرے خیال میں ایسی باتوں میں کوئی صداقت نہیں بلکہ یہ کہنے والے لوگ سطحی اور احمقانہ سوچ رکھتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کیساتھ اونچ نیچ چلتی رہتی ہے۔ آپ ذرا دیکھیں کہ چار ماہ پہلے تحریک انصاف کہاں کھڑی تھی اور آج کہاں کھڑی ہے؟ بس حالات اسی طرح بدلتے دیر نہیں لگتی۔

دوسری جانب کچھ لوگ حمزہ شہباز کو مشورہ دے رہے ہیں کہ جیسے بھی ہو جائز و ناجائز طریقے سے وہ اگلا ایک سال پنجاب میں اپنا اقتدار قائم رکھیں۔ یہ بہت عجیب رائے ہے اور تیسری بڑی غلطی ہو گی جس کا مسلم لیگ ن کو مزید نقصان اٹھانا پڑے گا۔ دو ماہ قبل مسلم لیگ ن کی حکومت نے تحریک انصاف کے لانگ مارچ شرکاء کیساتھ جو سلوک کیا وہ بھی ملکی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔

اگر عمران خان دوبارہ کسی لانگ مارچ یا دھرنے کا اعلان کرتے ہیں تو اب پہلے والی صورتحال نہیں رہے گی۔ اگر شرکاء کیساتھ وہی سلوک روا رکھا گیا تو بہت عوام کی جانب سے بھرپور مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا اسکی دو وجوہات ہیں۔ اول یہ کہ عوام پہلے سے ایسی مزاحمت کیلئے تیار ہو کر نکلیں گے کیونکہ گزشتہ لانگ مارچ میں انکی اچھی خاصی تربیت ہو چکی ہے اور وہ خدانخواستہ کسی بھی انتہائی قدم کیلئے پوری طرح تیار ہونگے۔

دوئم یہ کہ اب ضمنی انتخابات کے بعد تحریک انصاف پنجاب میں بھرپور طاقت رکھتی ہے ان کے سپورٹرز پوری طرح چارج ہیں، تازہ دم ہیں، رائے عامہ انکے ساتھ ہے۔ تحریک انصاف کے نوجوانوں کی اکثریت پورے جوش میں ہے جس کا عملی مظاہرہ سب نے الیکشن والے دن پولنگ اسٹیشنوں کی مینجمنٹ کی صورت میں دیکھ لیا ہے۔ لہٰذا اب اللہ نہ کرے کہ اس قسم کی کوئی بھی محاذ آرائی مسلم لیگ ن کیساتھ ساتھ ملک و قوم کو وہ نقصان پہنچائے گی جس کی شاید تلافی ہی ناممکن ہو۔

ایک بات تو طے ہے کہ حالیہ ضمنی انتخابات میں پنجاب کے اندر مسلم لیگ ن کو جو ڈنٹ پڑ چکے ہیں اس کا گھاؤ مندمل ہونے میں کافی وقت لے گا۔ اب جو ساری صورت حال ہے اس کا واحد حل یہ ہے کہ میاں نواز شریف صاحب وطن واپس آئیں اور مسلم لیگ ن کی باگ ڈور سنبھالیں کیونکہ مریم نواز اور شہباز شریف نے پہلے ہی نواز شریف کے "ووٹ کو عزت دو" کے مضبوط بیانئے کو دفن کر دیا ہے۔

یہ ٹھیک ہے کہ سیاسی جماعتوں کے آپس میں گفت و شنید کے سلسلے چلتے رہتے ہیں مگر مسلم لیگ ن اپنی ایک الگ شناخت رکھتی ہے لہٰذا اپنے الگ فیصلے کرے جو پارٹی کے وسیع تر مفاد میں ہو۔ گزشتہ تین ماہ کے دوران اپنے فیصلوں کا اختیار دیگر جماعتوں کی جھولی میں ڈال کر مسلم لیگ ن کے ہاتھ آخر آیا کیا ہے؟ ایسے حالات میں میاں نواز شریف اپنے سپورٹرز کو دوبارہ چارج کر سکتے ہیں کیونکہ وہ اپنی تقاریر سے ہی اپنے سپورٹرز کے بیمار مورال میں نئی جان ڈال سکتے ہیں۔

موجودہ صورتحال میں سب سے بہترین حل یہ ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنے کے بعد صاف شفاف عام انتخابات کا بندوبست کیا جائے تاکہ خالصتاََ عوام رائے سے فریش مینڈیٹ لے کر نئی حکومت آئے اور ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کیساتھ ہی اس فرسودہ اور گھٹیا نظام کو ختم کر کے ایک جدید اور عوامی امنگوں کا ترجمان نظام لا کر ریاست کی حقیقی طاقت عوام کو منتقل کریں۔ اگلے سات سال بہت اہم ہیں۔ ان سات برسوں میں یہ ہونا ہے اور میرے خیال سے ہو کر رہنا ہے۔

Check Also

Zar e Mubadala Bhejne Ka Sila

By Khalid Mahmood Faisal