Log Khud Kushi Kyun Karte Hain
لوگ خودکشی کیوں کرتے ہیں
سیمیں درانی سے میرا کوئی تعلق نہیں ماسوائے اسکے کہ کوئی آٹھ نو برس قبل ایک مشاعرے میں انکے ساتھ حادثاتی طور پر ملاقات ہوئی جہاں میں ایک دوست کیساتھ گیا تھا۔ ان دنوں میں ایک بڑے میڈیا ہاؤس میں ملازمت کر رہا تھا۔ دفتر کی کٹھن روٹین میں تھوڑا سکون کیلئے ایسی تقاریب بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔ پروگرام کے بعد چائے کا دور چلا۔ دوست نے میرا تعارف دیگر شعراء کرام سے کروایا سب نے بہت گرمجوشی سے ویلکم کیا ان میں سیمیں درانی بھی تھیں۔
انکی باتوں سے مجھے اندازہ ہوا کہ سیمیں درانی بہت بولڈ، ترکی بہ ترکی جواب دینے والی نازک اندام، خوبصورت، دلنشیں اور آنکھوں کے راستے دل میں اتر کر دل کے تاروں کو چھیڑنے والی سحر انگیز شکل و صورت کی مالک تھیں۔ کسی بھی سوال کا جواب ادھار نہیں رکھتی تھی۔ انکی خودکشی کی خبر سن کر بہت دکھ ہوا۔
سننے میں آرہا ہے کہ انکے کوئی فیملی مسائل چل رہے تھے مجھے انکی ذاتی زندگی سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ کم ظرف، گھٹیا اور بدفطرت رشتےداروں کا سامنا تو میرے خیال میں ہر شخص کو زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر کرنا پڑتا ہے۔ ایسی صورتحال کو ٹیکنیکلی مینج کیا جاتا ہے خودکشی اس کا کوئی حل نہیں ہے۔ تارڑ صاحب فرمایا کرتے ہیں کہ خودکشی ایک ایسی غلطی ہے جس کے بعد تو انسان پشیماں ہونے کے قابل بھی نہیں رہتا۔
بہر حال اب اصل موضوع کی طرف آتے ہیں سیمیں درانی کو پہلی خاتون نہیں ہیں جنہوں نے خودکشی کی اکثر و بیشتر ایسی خبریں سننے کو ملتی رہتی ہیں۔
آج کے دور میں ہر شخص ٹینشن یا ڈپریشن کا شکار ہے۔ پاکستان اور انڈیا کے معاشرے میں ڈپریشن کو اکثر لوگ سیریس نہیں لیتے اور اس کا علاج کروانا گوارا نہیں کرتے۔ کیا آپ کو پتہ ہے کہ ھر سال دنیا میں 800,000 (آٹھ لاکھ) لوگ خود کشی کی نظر ھوجاتے ھیں؟
دل و دماغ میں لمحہ بہ لمحہ مختلف جذبات کا پیدا ہونا اور انکا اظہار فطرت انسانی ہے۔ اسی طرح ایک حد تک ڈپریشن اور انگزائٹی کا عنصر ہر شخص کے اندر موجود ہے جسے کنٹرول کرنے کیلئے اللہ پاک نے مختلف ہارمونز اور کیمیکلز جسم میں پیدا کر رکھے ہیں۔ جب کسی بھی وجہ سے یہ انگزائٹی اور ڈپریشن حد سے برھتی ہیں تو ان ہارمونز اور کیمیکلز میں عدم توازن کی وجہ سے اس شخص کیلئے زندگی سے رغبت ختم ہو جاتی ہے اور دنیا بےمعنی ہو کر رہ جاتی ہے۔ مثبت سوچ سلب ہو جاتی ہے اور منفی خیالات اس پر غالب آ جاتے ہیں۔
وہ زندگی کو جبر مسلسل اور اک عذاب سمجھنے لگتے ہیں انکی سوچ کی سوئی ایک اسی جگہ پر اٹک جاتی ہے اور سوچ کی تمام دیگر راہیں مسدود ہو کر رہ جاتی ہیں۔ وہ نہ اس سے آگے سوچ سکتے ہیں اور نہ پیچھے جا سکتے ہیں بالآخر یہ لوگ موت کو سینے سے لگا کر سکون کے متلاشی ہوتے ہیں۔ یہ ایسی بیماریاں ہیں جن کا سو فیصد علاج موجود ہے مگر پھر بھی لوگ اس کا مناسب علاج کروانا گوارا نہیں کرتے اور جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان میں سے بعض لوگ خودکشی کر لیتے ہیں۔
امریکہ جیسے ملک میں ڈیپریشن سے سالانہ 30,000 خودکشیاں کی جاتی ھیں۔
معروف پاکستانی نژاد امریکی سائیکاٹرسٹ ڈاکٹر سہیل چیمہ کہتے ہیں کہ وہ روزانہ اس طرح کے مریضوں سے ڈیل کرتے ہیں۔ یقین جانیں ڈیپریشن صرف ان لوگوں کو نہیں ھوتا جو مالی پریشانی یا رومانٹک معاملات سے گزر رھے ھوتے ھیں۔ یہ ھر طرح کے انسان کو ھوتا ہے۔ ڈیپریشن ایک بیماری ہے، جو کسی بھی وقت کسی کو بھی ھوسکتی ہے۔ مگر اچھی بات یہ ہے کہ اس کا مکمل علاج موجود ہے اور سو فیصد علاج ممکن ہے۔
اکثر لوگ ڈیپریشن کا علاج ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر خود ہی ڈرگز سے کرنا شروع کر دیتے ہیں ھیں جن سے انھیں وقتی طور پر سکون ملتا ہے لیکن یہ اس کی ڈوز بڑھاتے جاتے ہیں اور ایک وقت آتا ہے کہ بہت ذیادہ دوا کھا کر اپنے لئے مشکلات پیدا کر لیتے ہیں جو کہ جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ ذیادتی تو پانی کی بھی بہت نقصان دہ ہے، یہ تو پھر بھی ادویات ہیں۔
پاکستان جیسے ملک میں بھی ایسے لوگ لاکھوں کی تعداد میں موجود ہیں جو صرف اور صرف معاشرے میں جگ ہنسائی کی وجہ سے سائیکاٹرسٹ کے پاس نہیں جاتے اور سال ہا سال سے ڈپریشن جیسی اذیت سے دوچار ہیں۔ کئی لوگ ڈپریشن کی وجہ سے مختلف ممنوعہ ڈرگز کا نشہ کرتے ہیں اور سال ہا سال سے کرتے آ رہے ہیں۔ مگر یہ سارے علاج وقتی، ناکام اور سخت نقصان دہ ھیں، آپ کسی بھی بیماری کا جب تک اصل علاج نہیں کریں گے، وہ بیماری آپ کا پیچھا کرتی رھے گی۔ آخر کار یہ لوگ اپنی اپنی پریشانیوں کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہتے ہیں اور ان میں سے کئی لوگ یا تو ذہنی طور پر ابنارمل ہو جاتے ہیں جن کو مینٹل ہسپتال داخل کروانا پڑتا ہے یا خود کشی کر لیتے ہیں۔
اگر آپ کا کوئی عزیز، دوست، چاھنے والا، فیملی ممبر ڈپریشن یا انگزائٹی کا شکار ہے تو اس کا مذاق مت بنائیں۔ اسے حوصلہ دیجئے، اس کی رہنمائی کیجئے۔ آپ اس کی مدد کریں اور اس کو بتائیں کہ اس بیماری سے گھبرانے یا شرمانے کی ضرورت نہیں۔ کسی بہترین سائیکاٹرسٹ سے رابطہ کریں۔ یقین مانیں ڈپریشن اور انگزائٹی کا سو فیصد علاج ممکن ہے لیکن شرط یہ ہے کہ کسی اچھے سائیکاٹرسٹ سے مکمل علاج کروایا جائے اور ساتھ ساتھ سائیکالوجیسٹ سے سیشنز بھی لئے جائیں۔ ادویات باقاعدگی سے ڈاکٹر کی متعین کردہ ڈوز میں استعمال کیجئے تو اس کے نقصانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ڈاکٹر کی ہدایات کے بغیر علاج ترک مت کیجئے۔
ڈپریشن، ٹینشن کوئی معمولی امراض نہیں ہیں لیکن ان سے گھبرانے کی بھی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ ان کا مقابلہ کریں اور مکمل علاج کیساتھ اس کو شکست دیجئے۔
یقین مانیں سائیکاٹرسٹ سے علاج کیساتھ ساتھ اپنے مذہب کی طرف رغبت سے انسان بہت جلد پرسکون ہو جاتا ہے۔ مناسب علاج سے چند دن کے اندر ہی آپ کی کوالٹی آف لائف بھی بہت بہتر ہو جائے گی۔