Khawateen Aur Motorcycle
خواتین اور موٹر سائیکل

کہتے ہیں کہ زمانہ جتنا آگے بڑھتا ہے عقل الٹا سمت پکڑ لیتی ہے۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال ہمارے روزمرہ سفر میں چھپی ہے خاص طور پر اُن لمحوں میں جب کوئی خاتون موٹر سائیکل پر بیٹھے اور دونوں پاؤں ایک ہی جانب رکھ کر بیٹھے۔ وہ منظر جو بظاہر "وقار"، "روایت" یا "نسوانی وقار" کا نمائندہ بنتا ہے حقیقت میں ایک خطرناک کرتب کی مانند ہے جسے اگر سڑک پر سلو موشن میں دیکھا جائے تو دل تھامنے کو جی چاہتا ہے۔
اب یہ بات تو سب جانتے ہیں کہ موٹر سائیکل سواری خاص کر پیچھے بیٹھنے والی سواری توازن کا کھیل ہے۔ ہمارے ایک دوست محض اس وجہ سے موٹر سائیکل نہیں چلاتے انکا ماننا ہے کہ موٹر سائیکل تو خود اپنا توازن برقرار نہیں رکھ سکتی اس نے میرا کیا رکھنا ہے۔ اگر پیچھے بیٹھی شخصیت اپنے وجود کو مکمل طور پر ایک طرف ڈھال دے اور پاؤں دوسری طرف جانے کی اجازت نہ دے تو ایسا لگتا ہے جیسے پوری موٹر سائیکل کو ایک طرف کھینچا جا رہا ہو۔ اب اگر کسی ناہموار سڑک پر اچانک جمپ لگ جائے تو صرف پاؤں ہی نہیں، سواری سمیت عزت بھی سڑک پر آ گرتی ہے اور موٹر سائیکل والے کی وہ حالت ہو جاتی ہے جو طالبعلم کی میٹرک کے نتیجے میں فیل ہونے کے بعد ہوتی ہے یعنی خود بھی گرا اور باقیوں کو بھی بدنام کرا دیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جب اس طرزِ نشست پر گفتگو کی جائے تو فوراً سے پہلے اسے "ثقافت"، "روایت" اور حتیٰ کہ "شریعت" سے بھی نتھی دیا جاتا ہے۔ حالانکہ اگر ہم تاریخ کی کھڑکیاں کھول کر دیکھیں تو عرب کی دھول اڑاتی گلیوں میں خواتین اونٹوں، گھوڑوں، گدھوں اور خچروں پر سفر کرتی تھیں اور کسی کے دھیان میں بھی یہ خیال نہ آیا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ خواتین اس وجہ سے ایک سائیڈ پر دونوں پاؤں کرکے بیٹھتی ہیں کہ انکا پورا جسم ڈرائیور کے ساتھ ٹچ نہ کرے تو بھئی اگر آپ شریعت سے جوڑتے ہیں تو پھر آپ نامحرم کیساتھ بیٹھتے ہی کیوں ہیں؟
یہ بھی عذر لنگ کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ خواتین کے موٹر سائیکل چلانے کا میں خود سب سے بڑا داعی رہا ہوں اور لکھ بھی چکا ہوں۔ بےشک آج کے دور میں عورت کیلئے پبلک ٹرانسپورٹ سے زیادہ محفوظ موٹر-سائیکل کی سواری ہے۔ ایک طرف دونوں پاؤں کرکے بیٹھنے کا جواز تراشنے والی خواتین میں سے چند ایک جب خود سکوٹی چلاتی ہیں تو کیا ایک طرف دونوں پاؤں کرکے چلاتی ہیں۔ بدر و اُحد کے میدانوں میں زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی خواتین، مکہ سے مدینہ کی ہجرت کرنے والی مہاجر عورتیں سب نے جانوروں پر سفر کیا اور وہ بھی مکمل توازن کے ساتھ۔
لیکن پتہ نہیں ہمارے ہاں اس "ایک طرف بیٹھنے" کا آغاز کب اور کہاں سے ہوا؟ شاید کسی فلمی سین سے جہاں ہیروئن آنکھوں میں حیا کا سارا جہان سموئے، ایک طرف بیٹھ کر ہیرو کے کاندھے پر جھک جاتی تھی اور پھر کیمرہ گلاب کے پھول پر جا رک جاتا تھا۔
اب چونکہ ہم نے فلموں ڈراموں سے ہی جذبات اور شریعت دونوں کشید کرنے کی عادت بنا رکھی ہے تو اُس منظر کو بھی "ایمان کی علامت" سمجھ بیٹھے۔
کچھ خواتین جب یہ بات سنتی ہیں کہ دونوں طرف پاؤں رکھ کر بیٹھنا زیادہ محفوظ ہے تو فوراً چہرے پر سنجیدگی طاری کرکے کہتی ہیں: "اوہو! وہ تو بہت عجیب لگتا ہے! " گویا عجیب لگنے سے جان بچنا کم اہم ہوگیا ہو۔
کسی بھلے مانس نے کہا تھا: "زندگی پہلے، وضع داری بعد میں"۔
یہ بات بالکل ویسے ہی ہے جیسے کوئی کہے: "سیٹ بیلٹ باندھنا تو بیگ گلے میں لٹکانے جیسا لگتا ہے"۔
تو کیا سیٹ بیلٹ نہ باندھ کر شہری مہذب بن جاؤ گے؟ یا پھر ہڈیوں کا ڈھانچہ؟
یہ بھی مشاہدے کی بات ہے کہ جب کوئی خاتون اپنے چھوٹے بچے کو گود میں لیے ایک طرف پاؤں کرکے بائیک پر بیٹھی ہو اور اچانک کوئی کھڈا آجائے تو وہ معصوم بچہ تو دور، ماں خود بھی سنبھل نہیں پاتی۔ ایسے سین اکثر ہماری ایمرجنسیز کی زینت بنتے ہیں، مگر کسی کو یہ خیال نہیں آتا کہ "عجیب لگنے" سے کہیں بہتر ہے کہ "سلامت لگیں"۔
یہاں مسئلہ صرف ایک نشست کا نہیں، ایک سوچ کا ہے۔ وہ سوچ جو زندگی کی قیمتی حقیقتوں سے زیادہ معاشرتی نظریوں کے چھلکوں میں لپٹی ہے۔ ہم نے حفاظت کو شرم اور تدبیر کو بے وقاری سے تعبیر کر لیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا کوئی قانون، کوئی دین، کوئی روایت یہ کہتی ہے کہ اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر ہی عورت باحیا شمار ہوگی؟
نہیں صاحب یہ تو ہمارے ذہنوں کی پیداوار ہے جسے ہم "شرم" کا چولا پہنا کر محفوظ زندگیوں کی قربانی دیتے ہیں۔
وقت آ گیا ہے کہ ہم ان فضول تعصبات کو ترک کر دیں۔ خواتین اگر موٹر سائیکل پر سفر کرتی ہیں تو ان کی نشست کا معیار ان کی عزت سے بڑھ کر ان کی حفاظت کا ہونا چاہیے۔ دونوں طرف پاؤں رکھ کر بیٹھنے میں کوئی بے حیائی نہیں بلکہ عقل کی جھلک ہے۔ اگر کوئی شرم ہے بھی تو شاید اسے چاہیے کہ ایک طرف بیٹھ کر بار بار گرتی عزت کی فکر کرے۔