Hum Kab Jawab Denge?
ہم کب جواب دیں گے؟

وطن کے کئی شہر اس وقت ایک نادیدہ جنگ کا سامنا کر رہے ہیں۔ گزشتہ سے پیوستہ روز کے ہوائی حملوں اور شہادتوں کے بعد آج صبح سے لاہور، گوجرانوالہ، میاں والی اور بہاولپور جیسے پرامن مقامات دشمن کے ڈرون حملوں کی زد میں ہیں۔ یہ محض سرحدی جھڑپیں نہیں بلکہ ایک منصوبہ بند اور خطرناک جارحیت ہے جو بھارت کی طرف سے مسلسل جاری ہے۔ مساجد کی شہادت، شہریوں کا بےدریغ قتل اور گھروں کی تباہی یہ سب ایک ایسی درندگی کی علامت ہے جو انسانیت اور بین الاقوامی اصولوں کو پامال کر چکی ہے۔
قوم کا اضطراب فطری ہے۔ جب گھروں میں سوئے ہوئے معصوم بچے شہید ہوتے ہیں، جب عبادت گاہیں خون سے سرخ ہوتی ہیں تو غصہ ایک فطری ردعمل ہوتا ہے۔ عوام سوال کر رہی ہے: "ہم کب جواب دیں گے؟"، "کیا صرف دفاع کافی ہے؟"، "کیا دشمن کو اسی کی زبان میں جواب دینا لازم نہیں ہو چکا؟" اصولی طور پر چاہیے تو یہ تھا کہ ہماری حکومت کی جانب سے سخت سے سخت ترین پیغام بھارت کو جاتا کہ ہم اس کا بدلہ بمع سود چکائیں گے مگر اس کے برعکس ہمارے وزراء کے امن و خیرسگالی بیانات کو بھارت نے شاید ہماری کمزوری سمجھ لیا ہے۔
پاکستانی عوام کے اپنی حکومت سے یہ سوالات صرف غصے کا مظہر نہیں بلکہ قومی غیرت کا اظہار بھی ہیں۔ پاکستانی قوم اپنی مسلح افواج سے بے پناہ محبت رکھتی ہے اور یہی محبت آج توقع کا روپ دھار چکی ہے۔ قوم یہ مانتی ہے کہ پاکستان کی افواج وہی ہیں جنہوں نے 27 فروری 2019 کو تاریخ رقم کی تھی، جنہوں نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں جانیں نچھاور کرکے وطن کو محفوظ بنایا اور جن کا ہر سپاہی وطن کی مٹی سے وفا کی آخری حد تک جُڑا ہوا ہے۔
مگر سوال یہ ہے کہ اس بار خاموشی کیوں؟
کیا یہ خاموشی کمزوری ہے؟ ہرگز نہیں۔
یہ خاموشی دراصل حکمتِ عملی ہے۔ وہ حکمت جس کا مقصد صرف بدلہ نہیں بلکہ دائمی اثر ہے۔ دشمن کی جارحیت کو دنیا کے سامنے بےنقاب کرنا، اس کی چالاکی کو میڈیا کی آنکھ سے آشکار کرنا اور ایسا جواب تیار کرنا جو وقتی تسکین نہیں، مستقل سبق ہو، یہی ہماری فوج کی سوچ ہے۔
پاکستان اس وقت دو محاذوں پر لڑ رہا ہے: ایک، زمینی محاذ جہاں دشمن کے ڈرون گرائے جا رہے ہیں اور دوسرا، سفارتی و اخلاقی محاذ جہاں بین الاقوامی رائے عامہ کو ساتھ ملا کر اپنی اخلاقی برتری کو ثابت کیا جا رہا ہے۔
ہمیں یہ بات سمجھنی ہوگی کہ دشمن ہمیں اشتعال دلانا چاہتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ ہم غصے میں آ کر کوئی ایسا قدم اٹھائیں جسے عالمی سطح پر "جارحیت" قرار دیا جا سکے۔ لیکن ہماری خاموشی، ہماری تیاری اور ہمارا "موقع کا انتظار" دراصل وہی چیز ہے جو دشمن کو پریشان کر رہی ہے۔
یقین رکھیں پاکستان کی افواج صرف سرحدوں کی محافظ نہیں، عوام کے جذبات کی بھی ترجمان ہیں۔ وہ خاموش ہیں، مگر بیدار۔ وہ دیکھ رہی ہیں، سن رہی ہیں اور لمحہ بہ لمحہ حالات کو اپنی گرفت میں لے رہی ہیں۔ ان کے جنگی فیصلے جذبات پر نہیں، عقل، حکمت اور قومی مفاد پر مبنی ہوتے ہیں۔
عوام کا غصہ بجا، ان کا دباؤ فطری، مگر اس وقت ایک قومی وحدت کی ضرورت ہے۔ جس طرح فرنٹ پر جوان کھڑے ہیں، اُسی طرح پیچھے ہم سب کو ان کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ نہ صرف نعرے کی صورت، بلکہ صبر، اتحاد اور اعتماد کے ساتھ۔
یہ وہ لمحہ ہے جب "صبر" بزدلی نہیں، "خاموشی" کمزوری نہیں اور "تاخیر" غفلت نہیں۔ یہ وہ لمحہ ہے جس میں قوم کو فوج پر اعتماد رکھنا چاہیے۔ کیونکہ جب وقت آئے گا، جواب ایسا ہوگا کہ دشمن نہ صرف حملے کا کفارہ دے گا بلکہ آئندہ جھانکنے سے پہلے کئی بار سوچے گا۔
لہٰذا، اگر دشمن بار بار وار کر رہا ہے تو جواب بھی ایسا آئے گا جو ایک بار میں کئی حملوں کا حساب برابر کر دے گا۔
خاموشی سے آنے والی آندھیاں، اکثر بہت کچھ بہا لے جاتی ہیں۔