Ais Tu Dahda Dukh Na Koi
ایس توں ڈاھڈا دکھ ناں کوئی
جواں سال بیٹے کی وفات پر کل سے لوگ مولانا طارق جمیل پر جملے کس رہے ہیں۔ اخے مولانا طارق جمیل تو خود دیندار ہیں پھر انکے بیٹے نے خودکشی کیوں کی؟ خدا کا خوف کرو یار۔۔ کسی کو تو معاف کر دیا کرو۔ کیا ڈاکٹر بیمار نہیں ہوتے؟ کیا وکیلوں کے ذاتی کیسز عدالت میں نہیں ہوتے؟ آپ خواہ مخواہ لٹھ لے کر ایک عالم دین کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔ آپ دین کو بیماری کیساتھ جوڑ رہے ہیں۔ مولانا کے گھر صف ماتم بچھا ہوا ہے ادھر یہ لوگ تبرے کس رہے ہیں۔ کیسی بےحسی ہے ہمارے معاشرے میں۔ مجھے تو اب افسوس ہونے لگا ہے۔ ایک شخص جو عرصہ دراز سے دماغی بیماری کے باعث ادویات لے رہا ہے اگر اس بیماری کی وجہ سے خودکشی کرتا ہے تو مذہبی حوالے سے ایسے شخص کو کوئی گناہ نہیں ہے۔
مولانا طارق جمیل کے نوجوان بیٹے کی خودکشی کی خبر سن کر بہت دکھ ہوا۔ سننے میں آ رہا ہے کہ انکے بچپن سے کچھ دماغی مسائل چل رہے تھے جن کا علاج بھی ہو رہا تھا۔ کچھ لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ فیملی مسائل بھی تھے۔ تو بھئی اس میں کونسی اچھنبے والی بات ہے؟ مجھے انکی زاتی زندگی سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ کم ظرف، گھٹیا اور بدفطرت دوستوں یا رشتےداروں کا سامنا تو میرے خیال میں ہر شخص کو زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر کرنا پڑتا ہے۔ ایسی صورتحال کو ٹیکنیکلی مینج کیا جاتا ہے خودکشی اس کا کوئی حل نہیں ہے۔
بہر حال اب اصل موضوع کی طرف آتے ہیں مولانا طارق جمیل کا بیٹا کوئی پہلا شخص نہیں ہیں جنہوں نے خودکشی کی اکثر و بیشتر ایسی خبریں سننے کو ملتی رہتی ہیں۔ دماغ کے کیمیکلز میں فتور پڑنا ایک فزیکل بیماری ہے جس کا ادویاتی علاج لازم ہے ورنہ یہ انسان کو نفسیاتی طور پر اس قدر بےبس کر دیتے ہیں کہ مریض کو سمجھ ہی نہیں رہ جاتی وہ کیا کر رہا ہے جو کر رہا ہے اس کا ری ایکشن کیا ہوگا مریض شدید اضطرابی کیفیت میں انتہائی قدم اٹھا لیتے ہیں بعض اوقات یہ عوارض جنیٹک بھی ہوتے ہیں جن کا بذریعہ ادویات مکمل کنٹرول سو فیصد ممکن ہے۔ برسبیل تذکرہ عرض کرتا چلوں کہ کہا جاتا ہے کہ معروف موٹیویشنل سپیکر ڈیل کارنیگی نے بھی خود کشی کرکے موت کو گلے سے لگایا۔
آج کے دور میں ہر شخص ٹینشن یا ڈپریشن کا شکار ہے۔ پاکستان اور بھارت کے معاشرے میں ڈپریشن کو اکثر لوگ سیریس نہیں لیتے اور اس کا علاج کروانا گوارا نہیں کرتے۔ کیا آپ کو پتہ ھے کہ ھر سال دنیا میں 800,000 (آٹھ لاکھ) لوگ خود کشی کی نظر ھوجاتے ھیں۔
دل و دماغ میں لمحہ بہ لمحہ مختلف جذبات کا پیدا ہونا اور انکا اظہار فطرت انسانی ہے۔
اسی طرح ایک حد تک ڈپریشن اور انگزائٹی کا عنصر ہر شخص کے اندر موجود ہے جسے کنٹرول کرنے کیلئے اللہ پاک نے مختلف ہارمونز اور کیمیکلز جسم میں پیدا کر رکھے ہیں۔ جب کسی بھی وجہ سے یہ انگزائٹی اور ڈپریشن حد سے برھتی ہیں تو ان ہارمونز اور کیمیکلز میں عدم توازن کی وجہ سے اس شخص کیلئے زندگی سے رغبت ختم ہو جاتی ہے اور دنیا بےمعنی ہو کر رہ جاتی ہے۔ مثبت سوچ سلب ہو جاتی ہے اور منفی خیالات اس پر غالب آ جاتے ہیں۔ وہ زندگی کو جبر مسلسل اور اک عذاب سمجھنے لگتے ہیں انکی سوچ کی سوئی ایک اسی جگہ پر اٹک جاتی ہے اور سوچ کی تمام دیگر راہیں مسدود ہو کر رہ جاتی ہیں۔ وہ نہ اس سے آگے سوچ سکتے ہیں اور نہ پیچھے جا سکتے ہیں بالآخر یہ لوگ موت کو سینے سے لگا کر سکون کے متلاشی ہوتے ہیں۔ یہ ایسی بیماریاں ہیں جن کا سو فیصد علاج موجود ھے مگر پھر بھی لوگ اس کا مناسب علاج کروانا گوارا نہیں کرتے اور جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان میں سے بعض لوگ خودکشی کر لیتے ہیں۔
امریکہ جیسے ملک میں ڈیپریشن سے سالانہ 30,000 خودکشیاں کی جاتی ھیں۔ معروف پاکستانی نژاد امریکی سائیکاٹرسٹ ڈاکٹر سہیل چیمہ کہتے ہیں کہ وہ روزانہ اس طرح کے مریضوں سے ڈیل کرتے ہیں۔ یقین جانیں ڈیپریشن صرف ان لوگوں کو نہیں ھوتا جو مالی پریشانی یا رومانٹک معاملات سے گزر رھے ھوتے ھیں۔ یہ ھر طرح کے انسان کو ھوتا ھے۔ اس کا مذہب سے براہ راست کوئی تعلق نہیں وہ الگ بات ہے کہ کسی حد تک ریلیف مل جاتا ہے مگر میڈیکلی علاج ہر صورت لازم ہے۔ ڈیپریشن ایک بیماری ھے، جو کسی بھی وقت کسی کو بھی ھوسکتی ھے۔ مگر اچھی بات یہ ھے کہ اس کا مکمل علاج موجود ھے اور ادویات کے ذریعے سو فیصد کنٹرول ممکن ہے۔
اکثر لوگ ڈیپریشن کا علاج ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر خود ہی ڈرگز سے کرنا شروع کر دیتے ہیں ھیں جن سے انھیں وقتی طور پر سکون ملتا ہے لیکن یہ اس کی ڈوز بڑھاتے جاتے ہیں اور ایک وقت آتا ہے کہ بہت ذیادہ دوا کھا کر اپنے لئے مشکلات پیدا کر لیتے ہیں جو کہ جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ ذیادتی تو پانی کی بھی بہت نقصان دہ ہے، یہ تو پھر بھی ادویات ہیں۔
پاکستان جیسے ملک میں بھی ایسے لوگ لاکھوں کی تعداد میں موجود ہیں جو صرف اور صرف معاشرے میں جگ ہنسائی کی وجہ سے سائیکاٹرسٹ کے پاس نہیں جاتے اور سال ہا سال سے ڈپریشن جیسی اذیت سے دوچار ہیں۔ کئی لوگ ڈپریشن کی وجہ سے مختلف ممنوعہ ڈرگز کا نشہ کرتے ہیں اور سال ہا سال سے کرتے آ رہے ہیں۔ مگر یہ سارے علاج وقتی، ناکام اور سخت نقصان دہ ھیں، آپ کسی بھی بیماری کا جب تک اصل علاج نہیں کریں گے، وہ بیماری آپ کا پیچھا کرتی رھے گی۔ آخر کار یہ لوگ اپنی اپنی پریشانیوں کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہتے ہیں اور ان میں سے کئی لوگ یا تو ذہنی طور پر ابنارمل ہو جاتے ہیں جن کو مینٹل ہسپتال داخل کروانا پڑتا ہے یا خود کشی کر لیتے ہیں۔
اگر آپ کا کوئی عزیز، دوست، چاھنے والا، فیملی ممبر ڈپریشن یا انگزائٹی کا شکار ھے تو اس کا مذاق مت بنائیں۔ اسے حوصلہ دیجئے، اس کی رہنمائی کیجئے۔ آپ اس کی مدد کریں اور اس کو بتائیں کہ اس بیماری سے گھبرانے یا شرمانے کی ضرورت نہیں۔ کسی بہترین سائیکاٹرسٹ سے رابطہ کریں۔ یقین مانیں ڈپریشن اور انگزائٹی کا سو فیصد علاج ممکن ہے لیکن شرط یہ ہے کہ کسی اچھے سائیکاٹرسٹ سے مکمل علاج کروایا جائے اور ساتھ ساتھ سائیکالوجیسٹ سے سیشنز بھی لئے جائیں۔ ادویات باقاعدگی سے ڈاکٹر کی متعین کردہ ڈوز میں استعمال کیجئے تو اس کے نقصانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ڈاکٹر کی ہدایات کے بغیر علاج ترک مت کیجئے۔
ڈپریشن، ٹینشن کوئی معمولی امراض نہیں ہیں لیکن ان سے گھبرانے کی بھی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ ان کا مقابلہ کریں اور مکمل علاج کیساتھ اس کو شکست دیجئے۔
یقین مانیں سائیکاٹرسٹ سے علاج کیساتھ ساتھ اپنے مذہب کی طرف رغبت سے انسان بہت جلد پرسکون ہو جاتا ہے۔ مناسب علاج سے چند دن کے اندر ہی آپ کی کوالٹی آف لائف بھی بہت بہتر ہو جائے گی۔