Saturday, 17 May 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Amer Abbas
  4. 100 Sunar Ki, Aik Lohar Ki

100 Sunar Ki, Aik Lohar Ki

سو سنار کی، ایک لوہار کی

جن اقوام نے تاریخ کو سنجیدگی سے پڑھا ہے، وہ جانتی ہیں کہ جنگوں میں فتوحات کے تمغے نہیں، جنازے گرتے ہیں۔ زمینیں جیتنے والے بھی آخرکار مٹی میں دفن ہو جاتے ہیں اور وہ جو ہار جاتے ہیں، وہ بھی بس ایک اور المیے کا ایندھن بن جاتے ہیں۔ جنوبی ایشیا کی حالیہ کشیدگی اسی تناظر میں دیکھی جائے تو یہ ایک لمحہ فکریہ ہے، نہ صرف دونوں ممالک کے لیے، بلکہ پورے خطے کے لیے۔

تین روز قبل بھارت نے پاکستان کی حدود میں دراندازی کرتے ہوئے نہ صرف فضائی حدود کی خلاف ورزی کی بلکہ سویلین آبادی کو نشانہ بنا کر بین الاقوامی اصولوں اور انسانی حقوق کی دھجیاں بھی اڑا دیں۔ اس جارحیت میں ہمارے کئی شہری شہید ہوئے، جن کا لہو اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ جواب دینا نہ صرف فوجی حکمتِ عملی کا تقاضا تھا بلکہ ایک قومی فریضہ بھی تھا۔

آج علی الصبح جب پاکستان نے انتہائی کامیاب، پیشہ ورانہ اور محدود فوجی کارروائی کے ذریعے بھارت کو کاری زخم دیے، تو دنیا نے ایک بار پھر دیکھا کہ پاکستان نہ صرف اپنی خودمختاری کے تحفظ کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے بلکہ جارحیت کا جواب "بروقت اور موثر انداز" میں دینے کا حوصلہ بھی رکھتا ہے۔ بھارت خود اس حملے کو تسلیم کر رہا ہے اور اس کی تلملاہٹ ہر چینل، ہر پریس کانفرنس اور ہر بیان سے عیاں ہے۔

پاکستان نے یہ پیغام واضح کر دیا ہے کہ امن کی خواہش کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔ یہ جواب صرف بدلہ نہیں تھا، بلکہ ایک دفاعی پیغام تھا، ایک تنبیہ تھی کہ ہم خاموش ضرور ہیں، مگر کمزور نہیں۔ جو کچھ ہوا، اس میں پاکستان نے بدلہ "بمع سود" وصول کیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا جنگی جنون کا یہ سلسلہ اب ختم ہوگا؟ یا دونوں ملک تباہی کے اُس گڑھے کی طرف بڑھیں گے جس کی انتہا صرف خاکستر ہے؟

دنیا کے دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان اس قسم کی کشیدگی کسی طور بھی معمولی نہیں سمجھی جا سکتی۔ امریکہ، سعودی عرب، چین اور دیگر عالمی طاقتوں نے دونوں ممالک سے تحمل اور بردباری کی اپیل کی ہے۔ یہ ایک نازک لمحہ ہے ایسا موڑ جہاں ایک فیصلہ پورے خطے کی تقدیر بدل سکتا ہے۔

پاکستان کو اب اس بات کا ادراک کرنا ہوگا کہ اپنی دفاعی برتری دنیا کو دکھانے کا مقصد پورا ہو چکا۔ ہمیں یہ ثابت کرنے کی ضرورت نہیں کہ ہم جواب دے سکتے ہیں۔ ہم نے بھرپور جواب دے دیا اور پوری دنیا نے دیکھ بھی لیا۔ ہمیں جنگ میں پہل نہیں کرنی، بلکہ ایک ذمہ دار ایٹمی ریاست کی طرح خود کو پیش کرتے رہنا ہے۔ اگر دشمن جنگ کا طبل بجاتا ہے تو ہم تیار ہیں لیکن اگر امن کی گنجائش ہو تو ہمیں اس میں پہل کرنی چاہیے۔

یاد رکھیے 1965ء کی جنگ ہو یا 1971ء کی، دونوں ممالک نے نقصان ہی اٹھایا۔ کارگل کی بلندیوں سے لے کر پلوامہ اور بالا کوٹ تک، ہر واقعہ نے یہی سکھایا کہ جنگ صرف ہتھیاروں کا نہیں، قوموں کی نسلوں کا زیاں ہے۔ ہندوستان ہو یا پاکستان، دونوں ممالک غربت، تعلیم، صحت اور بنیادی سہولیات جیسے چیلنجز کا شکار ہیں۔ اگر وسائل جنگی جنون پر خرچ ہوتے رہے تو آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔

یہ وقت ہے عقل و حکمت سے کام لینے کا۔ ہم نے اپنا فرض ادا کر دیا، شہادتوں کا بدلہ بھی لیا، دشمن کو سبق بھی سکھایا اور اپنی عسکری صلاحیت کا عملی مظاہرہ بھی کیا۔ اب وقت ہے کہ ہم مذاکرات کی میز کی طرف لوٹیں۔ دشمن کی نیت پر شک اپنی جگہ، لیکن تاریخ نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ ہر جنگ کے بعد آخرکار میز پر ہی بیٹھنا پڑتا ہے۔ کیوں نہ آج ہی بیٹھ جائیں تاکہ کل کی کوئی نسل یتیم نہ ہو۔

ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا ہم صرف جنگ چاہتے ہیں یا ایک ایسا کل جس میں ہماری نسلیں امن کی چھاؤں میں پروان چڑھیں؟ ہم فتح کی کہانیاں سنانا چاہتے ہیں یا امن کی نظمیں گنگنانا چاہتے ہیں؟ یہ فیصلہ آج کا ہے اور یہی فیصلہ ہماری تاریخ لکھے گا۔

Check Also

Trump Card Aur Bunyan Al-Marsoos

By Arif Anis Malik