Sunday, 21 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Altaf Kumail
  4. Usman Hadi, Inqilab Ki Abadi Shama

Usman Hadi, Inqilab Ki Abadi Shama

عثمان ہادی، انقلاب کی ابدی شمع

زمانہ کی تاریکیوں میں جب ظلم کی آندھیاں چلتی ہیں، تو کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر روشنی کا دیا جلاتے ہیں۔ عثمان ہادی، وہ نوجوان انقلابی جس کا نام اب بنگلہ دیش کی تاریخ کے اوراق پر سنہری حروف میں درج ہو چکا ہے، ایسا ہی ایک ستارہ تھا جو گر کر بھی آسمان کو روشن کر گیا۔ وہ نہ صرف جولائی کی بغاوت کا ایک مرکزی کردار تھا بلکہ انق ilab منچو کا بانی اور ترجمان بھی، جس نے شیخ حسینہ کی آمریت کے خلاف آواز بلند کی اور عوام کو آزادی کی راہ دکھائی۔

عثمان ہادی کی زندگی ایک ادبی داستان کی مانند تھی– جہاں جدوجہد، قربانی اور امید کے عناصر ایک ساتھ ملتے ہیں۔ وہ بنگلہ دیش کے نوجوانوں کی آواز بن کر ابھرا، جب ملک ہندوستانی اثر و رسوخ اور داخلی کرپشن کی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا۔ اس کی تقاریر میں وہ شعلہ تھا جو سامعین کے دلوں کو جلا دیتا اور اس کی تحریروں میں وہ درد جو قوم کی رگوں میں دوڑتا۔ وہ کہتا تھا کہ "ہندوستانی غلبے کے خلاف جدوجہد میں اللہ نے مجھے شہید قبول کیا"۔ یہ الفاظ اب بنگلہ دیش کی گلیوں میں گونج رہے ہیں، جہاں ہزاروں لوگ اس کی موت پر احتجاج کر رہے ہیں۔

اس کی شہادت کی داستان دل دہلا دینے والی ہے۔ دھاکہ میں نامعلوم حملہ آوروں نے اسے گولی مار کر شدید زخمی کر دیا اور سنگاپور میں علاج کے دوران وہ اس جہان فانی سے کوچ کر گیا۔ اس کی موت نے پورے بنگلہ دیش کو ہلا کر رکھ دیا، ہزاروں لوگوں نے اس کی جنازہ نماز ادا کی، جہاں آنکھیں نم تھیں اور دل غم سے بوجھل۔ الزامات کی انگلیاں عوامی لیگ کے حامیوں اور ہندوستانی خفیہ ایجنسی کی طرف اٹھ رہی ہیں، جنہوں نے مبینہ طور پر اسے خاموش کرنے کی کوشش کی۔ یہ واقعہ نہ صرف ایک فرد کی موت ہے بلکہ ایک تحریک کی آزمائش بھی، جو یہ ثابت کرتی ہے کہ طاقتور قوتیں آزادی کی آواز کو دبانے کے لیے کسی حد تک جا سکتی ہیں۔

لیکن عثمان ہادی کی میراث کوئی ختم ہونے والی چیز نہیں۔ وہ ایک باپ کی طرح ہے جو کہتا ہے کہ "ہمیں ہر گھر میں عثمان ہادی جیسا بیٹا چاہیے"۔ جو وطن سے محبت کرے اور ظلم کے سامنے کھڑا ہو جائے۔ اس کی جدوجہد نے بنگلہ دیش کو ایک نئی سمت دی، جہاں نوجوان اب اپنے حقوق کے لیے متحد ہو رہے ہیں۔ وہ ایک شاعر کی طرح تھا جس کی نظمیں انقلاب کی شکل میں زندہ رہیں گی اور ایک مصنف کی طرح جس کی کہانیاں نسلوں کو متاثر کریں گی۔

آج جب بنگلہ دیش کی سڑکیں احتجاج سے گونج رہی ہیں، تو عثمان ہادی کی روح یقیناً مسکرا رہی ہوگی۔ وہ بجھا نہیں، بلکہ ہزاروں دلوں میں جل اٹھا ہے۔ انقلاب کی یہ شمع کبھی نہیں بجھے گی، کیونکہ اسے خون کی روشنی ملی ہے۔ اللہ اس کی مغفرت فرمائے اور اس کی جدوجہد کو کامیابی عطا کرے۔

Check Also

FIA Cyber Crime Aur Maroof Youtuber

By Malik Ajab Awan