TTP Aik Sangeen Aur Barhta Hua Ilaqai Khatra
ٹی ٹی پی ایک سنگین اور بڑھتا ہوا علاقائی خطرہ

جب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی القاعدہ اور داعش پابندی کمیٹی کی سربراہ، ڈنمارک کی سفیر سینڈرا جینسن لینڈی، بدھ کے روز کونسل کو بریفنگ دے رہی تھیں تو ان کے لہجے میں وہ سرد مہری تھی جو صرف حقائق بیان کرتے وقت آتی ہے۔ انھوں نے کہا: "تقریباً چھ ہزار جنگجوؤں پر مشتمل تحریک طالبان پاکستان ایک سنگین اور بڑھتا ہوا علاقائی خطرہ ہے۔ اسے افغانستان کے حکمران طالبان کی جانب سے خاطر خواہ لاجسٹک مدد مل رہی ہے"۔
یہ الفاظ کوئی نئی خبر نہیں، مگر جب یہ اقوام متحدہ کے اس پلیٹ فارم سے ادا ہوں جہاں دنیا کی بڑی طاقتیں بیٹھی ہوتی ہیں، تو ان کا وزن بدل جاتا ہے۔ اب ٹی ٹی پی صرف پاکستان کا اندرونی معاملہ نہیں رہی، وہ ایک ایسی آگ بن چکی ہے جس کی چنگاریاں پڑوسی ممالک کی سرحدوں کو بھی جھلسکا سکتی ہیں۔۔
افغانستان میں طالبان کی واپسی کے بعد سے جو کچھ ہو رہا ہے، وہ کوئی راز نہیں۔ دوحہ معاہدے کے بعد جب امریکی افواج نے انخلا کیا تو طالبان نے نہ صرف کابل پر قبضہ کیا بلکہ اپنے پرانے اتحادیوں کو بھی کھلے میدان دے دیے۔ ٹی ٹی پی کو پناہ، تربیت، اسلحہ اور سرحد پار حملوں کی سہولت ملنا کوئی اتفاقی بات نہیں۔ یہ ایک حکمت عملی ہے، جس کا مقصد پاکستان کو کمزور کرنا اور اس کی فوج کو مستقل جنگ میں الجھائے رکھنا ہے۔۔
پاکستان نے برسہا برس سے یہ بات دہرائی کہ افغان سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔ مگر جب تک مغربی دارالحکومتوں اور بیجنگ کے کانوں تک یہ آواز نہ پہنچے، اسے سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا تھا۔ اب اقوام متحدہ نے خود تسلیم کر لیا کہ ٹی ٹی پی صرف ایک مقامی گروہ نہیں، بلکہ ایک منظم، مسلح اور حوصلہ افزا دہشت گرد نیٹ ورک ہے جو علاقائی استحکام کے لیے براہِ راست خطرہ ہے۔
اور پھر چین کا موقف۔ بیجنگ نے کھل کر بلوچ لبریشن آرمی اور اس کی مجید بریگیڈ کو دہشت گرد قرار دینے کا مطالبہ کیا۔ یہ محض سفارتی بیان نہیں، یہ ایک وارننگ ہے۔ سی پیک کے راستے میں جو خون بہایا جا رہا ہے، وہ چین کے مفادات پر براہِ راست حملہ ہے۔ جب دو ایشیائی دیوہیکل طاقتیں (ایک دفاعی اور دوسری معاشی) ایک ہی لکیر پر کھڑی ہوں تو بات اب صرف پاکستان کی نہیں رہتی۔
سوال یہ ہے کہ اب کیا ہوگا؟ کیا طالبان حکومت، جو خود کو بین الاقوامی برادری کا ذمہ دار رکن ثابت کرنے کی کوشش میں ہے، ٹی ٹی پی کے خلاف ٹھوس کارروائی کرے گی؟ یا پھر یہ وہی پرانی کہانی دہرائی جائے گی کہ "ہمارے پاس کنٹرول نہیں"؟
کیا اقوام متحدہ کی یہ رپورٹ محض کاغذی بیان بن کر رہ جائے گی یا اس کے بعد پابندیاں، سفارتی دباؤ اور مشترکہ آپریشنز کا کوئی سلسلہ شروع ہوگا؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پاکستان، جو برسوں سے اس جنگ میں تنہا لڑ رہا ہے، کیا اب اسے وہ عالمی تعاون ملے گا جس کا وہ حقدار ہے؟
ایک بات واضح ہے۔ ٹی ٹی پی کوئی چھوٹا موٹا باغی گروہ نہیں رہا۔ وہ ایک ایسی آگ ہے جو اگر اب نہ بجھائی گئی تو پورے خطے کو اپنی لپٹ میں لے لے گی اور جب آگ پھیلتی ہے تو وہ اپنے اور پرائے کی تمیز نہیں کرتی۔
اب وقت آ گیا ہے کہ بات چیت کے بجائے عمل ہو۔ الفاظ کے بجائے پالیسی ہو اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایک واضح پیغام دیا جائے۔

